جمی انجینئر کے ساتھ کی گئی گفتگوکا احوال

May 27, 2018

پینل انٹرویو : فاروق احمد انصاری، لیاقت جتوئی،رابعہ شیخ

معاشرے کے دیگر کرداروں سے منفرد، فطری حسن سے متاثر،تصور کی تصویر کشی سے آشنا ،جسے بانسری کی دھن پکارے، ندی کا بہتا پانی گنگناتا محسوس ہو ،خواب اپنا رازدار بنائے ،روایتی تعلیم بغاوت پر اکسائے، جس کے دن رات دھنک کے رنگوں کے ہمراہ گزریں ، جس کا فن سماج کی خدمت کے لیے وقف ہو ،قدم انجان سے انجان خطرناک سے خطرناک راہوں پر بھی نہ رکیں ایک ایسی ہی شخصیت سے ملاقات ہوئی اک خوبصورت شام ۔

مصور کی تعریف کے لیے لکھے گئے یہ لفظ میں آج تک نہیں بھولتی جس میں لکھاری نے کیاخوب لکھا تھا۔

’’جمی انجینئر جیسے مصور فائن آرٹس طلباء و طالبات میں جمالیاتی حس کو درست نہج پر پروان چڑھا نے کے لیے اپنی مثال آپ ہیں ۔۔ان کی موجودگی پاکستان کے تاریخی و مشکل واقعات کو فن مصوری کے ذریعے عوام تک ہلکے پھلکے انداز میں پہچانے اور مسائل کا مناسب حل تلاش کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہمارے فائن آرٹس سمیت دیگرتمام طلباء و طالبات کوان کی بنائی جانے والی پینٹنگنزسے لاعلم نہیں رہنا چاہیے۔‘‘

’’شبنم کا قطرہ اگرخاک میں گرے توگارا بن جاتا ہے جس سے لوگ اپنا دامن بچاتے ہیں اوریہی قطرۂ شبنم اگر سیپ میں گرے تو موتی بن جاتا ہے جس سے لوگ اپنے وجود کو سجاتے ہیں۔ یہی حال برش کا ہے، کہ اگر یہ کسی رنگ سازکے ہاتھ میں آجائے تو وہ رنگوں کوجا بجا بکھیر کران کی ’’توہین‘‘ کرتا ہے اور یہی برش اگر مصور کے ہاتھ میں آجائے تو وہ رنگوں میں اپنے جذبات کی ’’تضمین‘‘کرتا ہے،،۔

مصوری کےسیل رواں’’ جمی انجینئر،، بھی ایک ایسی سی ہستی ہیں جو حرفوں کی ترقیم،خیالات کی تجسیم ،لفظوں کی تفہیم اور جذبات کی تعظیم سے آشنا ہیں۔جمی انجنیئر کا نام نہ صرف ان کی فن مصوری میں مہارت بلکہ ان کی سماجی کاموں میں گراں قدر خدمات کے باعث دنیا بھر میں بڑے احترام سے لیا جاتاہے ۔عالمی شہرت یافتہ جمی انجینئرز کی کامیابی کی وجہ تقسیم ہند کے موقع پر پاکستانی مہاجروں کے چہروں پر خوف کے سائے اور سرحد عبور کرنے کے بعد ان کے چہروں پر خوشی کے تاثرات کو نہایت خوبی سے کینوس پر اجاگر کرنا، یورپ کے ساتھ ساتھ اسلامی اورجنوب ایشیائی ثقافت کو فن پاروں میں پیش کرنا ہے ۔

جمی کے فن اور سماجی سرگرمیوں کے اعتراف میں بے شمار اعزازات اور ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں امریکا کا نیشنل انڈومنٹ آف دا آرٹس ایوارڈ 1988، روٹری کلب آف پاکستان کی جانب سے گولڈ میڈل اور ہیومن رائٹس سوسائٹی آف پاکستان کی جانب سے ہیومن رائٹس میڈل شامل ہے۔سنہ 2005 میں انہیں ستارہ امتیاز سے بھی نوازا گیا جبکہ انہیں چائنا ورلڈ پیس فاؤنڈیشن کی جانب سے 2016 میں پیس ایمبسڈرز کا میڈل عطا کیا گیا۔

جمی انجینئر 2000 سے زائد پینٹنگز، 1000 سے زائدکیلی گرافیز ، 30,000 سے زائد پرنٹس اور2000ڈاک ٹکٹس کی ڈیزائننگ میںاپنا کمال دکھا چکےہیں۔ ان کی کلیکشنز کی نمائش چین، بھارت، پاکستان، روس، برطانیہ اور امریکا میں ان کی عظمت کا جادو جگاچکی ہیں۔

جمی سے ایک خوبصورت شام کیا کیاباتیں ہوئیں اور جمی انجینئرنے جن رازوں پر سے دوران گفتگو پردہ اٹھایاوہ نذر قارئین ہیں ۔

جنگ:انٹرویو کاآغاز کچھ آپ کے آبائی شہراورتعلیمی زندگی کے حوالے سے؟؟؟

جمی انجینئر:میں تقسیم ہند کے بعد سنہ 1954ء میں بلوچستان کے شہر لورالائی میں پیدا ہوا۔ابتدائی تعلیم سینٹ اینتھنی ہائی اسکول لاہور سے حاصل کی۔۔ مجھے پڑھائی کا کوئی خاص شوق نہیں تھا ذات میں پنپتی تخلیقی صلاحیتوں کو جب والدین نے محسوس کیاتو روایتی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھنے کے بجائے لاہور کے معروف نیشنل کالج آف آرٹس سے تین سال تعلیم حاصل کی لیکن ڈگری مکمل کرنے سے قبل ہی یہ سلسلہ بھی ختم کر دیا۔

جنگ:آپ اس وقت فن مصوری کے حوالے سے ایک نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں ۔آپ نے اس فن کا آغاز کب اور کیسے کیا؟

جمی انجینئر :اس فن کا آغاز تو ابتدائی تعلیم کے زمانے میں ہی ہوچکا تھا جب کلاس کے سارے بچے میتھس کے مشکل سوالوں کی پریکٹس کررہے ہوتے تھے تب میں ڈرائنگ کھولےپینٹنگ کررہا ہوتا تھا ۔کالج کے زمانے میں کالج کی دیواروں پر ساری رات پینٹنگ کرنا اس فن کا آغاز بنا۔

جنگ :کہا جاتا ہے کہ آپ ایک مصور ہیں ،سوشل ورکرہیں ،اسٹیمپ ڈیزائنر ہیں اورایک انسان دوست شخصیت بھی ۔۔۔آپ کیا ہیں؟

جمی انجینئر :میں اصل میں پاکستان کا نوکر ہوں، اور جب باہر ممالک میں برلن میں انسٹیوٹ آف کلچرل ڈپلومیسی ہو یا ہارورڈ یونیورسٹی ہو ،میں کہیں بھی اپناتعارف پاکستان کے نوکر کے طور پر کرواتا ہوں کیونکہ میں نوکر ہی ہوں اس ملک کا، اس کی ایک خاص وجہ بھی ہے فیصل آباد کے صوفی برکت علی کا میں قریبی شاگرد ہوں ۔۔میں ان کے پاس اکثر جایا کرتا تھا 1979میں انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی گدی پر بٹھایا اور قرآن پڑھنے آئے ہوئے بچوں کو کہا کہ کھڑے ہوجاؤ اور قومی ترانہ پڑھو۔جب بچوں نے قومی ترانہ پڑھ لیا تو ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ یہ تھے کہ’’ ہوگیا،،جس نے مجھے بھی حیرت زدہ کردیااور جب میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا ہوگیا؟ تب انھوں نے بس یہ کہا کہ تم آج سے صرف پاکستان کے نوکر ہو۔اس لیے پاکستان کا میںکوئی عہدہ قبول نہیں کرسکتا۔

جنگ : اس ملک سے جڑے روحانی رشتے کی وجہ بھی صرف صوفی برکت علی ہی ہیں؟

جمی انجینئر :پاکستان سے گہرے رشتے کی وجہ صرف صوفی برکت علی کی وصیت ہی نہیں فطری محبت بھی ہے میں چونکہ پارسی خاندان سے ہوں لیکن تحریک پاکستان پر سب سے زیادہ پینٹنگز میں نے ہی بنائیں تو یہ محبت فطری ہے جو کسی خاص شخص یا کسی چیزکے باعث نہیں قدرت کی طرف سےعطا کی گئی ہے۔

جنگ : قیام پاکستان کے سات سال بعد آپ کی پیدائش لیکن تقسیمِ ہند کے حساس اور اہم موضوع پر سب سے زیادہ آپ کی پینٹنگز تو ان حالات وواقعات کو کینوس پر اتارنے کے پیچھے کوئی خاص وجہ ؟؟

جمی انجینئر: 1973ء میں مجھے تقسیم کے دوران رونما ہونے والے واقعات خواب میں آیا کرتے تھے۔ میں اس وقت تو اس کا ادراک نہیں کرسکا کہ جلتی ہوئی ٹرینیں، جلتے ہوئے گاؤں، ایک دوسرے کو مارتے اور بھاگتے ہوئے لوگ، یہ سب کیا ہے؟ ۔ اس پر اس صوفی نے مجھے بتایا کہ یہ سارے خواب تو 1947ء کی منظر کشی ہیں۔انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ مجھے اپنے خوابوں کو تصویری شکل دینی چاہیے تاکہ یہ میرے ذہن سے نکل جائیں۔ پھر میں نے1974ء میں تقسیم کے موضوع پر تصاویر بنانا شروع کیں۔ مجھے مصوری کا موضوع میرے خواب سے ہی ملتا تھا جس کے لیے میری والدہ بھی کہا کرتی تھیں کہ میں سوتے ہوئے کسی سے گفتگو کرتا ہوں ۔ اور تصویر کشی کایہ سلسلہ 1981ء تک جاری رہا۔

جنگ : جاوید نامہ پینٹ کرناملک کے تمام مصوروں کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں تا ہم آپ وہ واحد مصور ہیں جو جاوید نامہ پینٹ کرنے کا شرف حاصل کرپائے؟ یہ آپ کی فنکارانہ صلاحیتوں کی عکاسی تھا یا کوئی خاص وجہ؟

جمی انجینئر: 1980ء کی بات ہوگی جب علامہ اقبال کے بیٹے جاوید اقبال نے مجھے بلاکرشاعر مشرق کے خط پڑھنے کو دیے۔ان خطوں میں لکھا تھا کہ جو شخص جاوید نامہ کو تصویری شکل دے گا، اس کا دنیا میں بہت نام ہو گا اور وہی ایک مصور یہ نقاشی کرسکتا ہے، جس میں علم الٰہی ہو گا۔ جس پر جاوید اقبال نے کہا جمی!یہ جاوید نامہ آپ نے پینٹ کرنا ہے ۔

جنگ : پارسی خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود، پاکستان سے اتنی محبت،لگاؤ اور روحانیت کا یہ رشتہ ؟اس کے پیچھے کیا وجہ ہے؟

جمی انجینئر :جب میں چھ سال کی عمر میں تھاتو سخت بیمار رہتا تھاتب ڈاکٹرز نے میرے والدین سے کہا آپ کا بچہ گردوں کی بیماری کا شکار ہےاور تین ماہ سے زیادہ عرصہ نہیں زندہ سکتا۔لیکن تین ماہ بعد ڈاکٹرز میری رپورٹ اور ایکسریز دیکھ کر خود بھی حیران تھے کہ یہ کیسے ہوا ان کے مطابق میرے کڈنی اس عرصے میں بالکل ٹھیک کام کرنے لگ گئے تھے بلکہ ایسا محسوس ہوا کہ ان دیکھی طاقت نے مجھے نئے گردے دیے ہیںجو ڈاکٹرز کے مطابق کسی معجزے سے کم نہیں تھے ۔اور میں چھ سال کی عمر میںاس معجزے کو نئی زندگی قرار دیتا ہوں اور یہی میری پاکستان سے محبت اور روحانیت کی وجہ ہے۔

جنگ :بحیثیت مصور سماجی سرگرمیوں کے لیے کس طرح وقت نکالتے ہیں؟

جمی انجینئر :میری رائے یہ ہے کہ کوئی چیز کسی دوسری چیزپر اثر انداز نہیںہوتی ۔ سماجی سرگرمیوں میں مجھے لوگوں کا درد سمجھنے کی ضرورت ہے اور میں ان کا درد سمجھنے کے لیے ان کے پاس جاتا ہوں۔ میرا آرٹ ایک خیالی انسان کا تصور پیش کرتا ہے۔ جب میں انسانی حقوق کے لیے کام کرتا ہوں، تو مجھے اپنے مزاج میں جارحانہ پن لانا پڑتا ہے اور جب میں امن کے لیے کام کرتا ہوں تو میں بہت سکون اور پیار سے بولتا ہوں۔۔ میں یہ سارے کام بآسانی ایک ساتھ کرلیتا ہوں۔

جنگ :کچھ اپنے فلاحی کاموں کے بارے میں بتائیں؟

جمی انجینئر: میرے کچھ فلاحی کام ایسے ہیں جنھیں میں میڈیا پر ڈسکس نہیں کرنا چاہتا جتنا میں ظاہر کرکرنا چاہتا ہوں اس کے لئے بس اتنا کہوں گامیری کوئی جائیداد نہیں میں نے اربوں روپے عطیہ کیا۔اپنے لیے کبھی کوئی لگژری نہیں خریدی میں نے اسپیشل بچوں کےلیے کچھ پروگرام بھی کیےمیں نے15 سال نابینا بچوں کے لیے بھی کام کیاان بچوں کو بیرونی ممالک کا دورہ کروایا۔میرا عزم ان بچوں کو سول سوسائٹی میں متعارف کروانا تھا۔متعدد واکس کا انعقاد بھی کیا ۔جیلوںمیں کام کیا ،قیدیوں کے ساتھ وقت گزارا،عورتوں اور بچہ جیلوں میں بھی کام کیا۔ جعلی بھکاریوں کے خلاف پولیس کے ساتھ مل کر کام کیا۔دو ہفتے کے لیے پورے شہر سے بھکاریوں کو ختم کردیا یہ سلسہ کوئی قانون نہ ہونے کے باعث زیادہ نہ چل سکا۔یہی نہیں کیلیگرافی کے دو ہزار سے زائد نمونے عطیہ کیے۔ میرا ہر کام ملک کی خدمت کے لیےہے۔ کیونکہ مجھے یہ ملک بے حد عزیز ہے ۔

جنگ:پاکستان کے نام کوئی پیغام؟؟

جمی انجینئر :ہر شخص کی تقدیر اس کے اس دنیا میں آنے سے قبل لکھی جچکی ہے جسے کوئی بھی انسان زیادہ تبدیل نہیں کرسکتا ۔۔مجھے یقین ہے پاکستان کی تقدیر بے حد اچھی ہےبس اس ملک کو صحیح سمت لے کر چلنا ہے تو اس ملک کے حکمرانوںکو۔۔۔جبھی ہم مثبت تبدیلی لاپائیں گے۔