ہد ایت یا افطا ری………؟

June 07, 2018

میں اس طرح کی اچھی ’’حرکات‘‘ پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ اور سن چکا ہوں ۔لیکن یہ حرکات ہمارے پورے ملک اور خاص طورپرخواص کےلیے بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک تو ہالینڈ کے وزیراعظم مارک روٹ(Mr mark Rutte)کی ایک ویڈیوہے۔ جس میں کابینہ کی میٹنگ میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ ہائوس جاتے ہوئے وزیراعظم مارک روٹ کے ہاتھ میں اٹھایا ہوا کافی مگ ،آٹو میٹک ڈور سے گزرتے ہوئے ڈور سے ٹکرانے کے بعد گرپڑا۔جواب میں وزیراعظم مارک روٹ نے یہ نہیں کہاکہ ایک انکوائری کمیٹی بنا کر یہ تحقیقات کی جا ئے کہ یہ آٹو میٹک ڈور کس نے لگایا ہے۔ بلکہ اس نے شرمندگی محسوس کرتے ہوئے صفائی کےلیے وائپرلے کر گری ہوئی کافی کو فرش پر سے صاف کرنا شروع کردیا ۔فرش صاف کرنےکے بعد ہالینڈ کے وزیراعظم نے آٹو میٹک ڈور پر کافی کے پڑ نے والے قطروں اور نشانات کو بھی اپنے رومال سے صاف کردیا۔دوسری حرکت پاکستان میں تعینات جرمن سفیر جناب مارٹن کوبلر(Mr MRRTIN KOBLER) نے کی کہ انہوں نے پاکستان ،جو پانی کی کمی کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے کو یہ باور کرانے کے لیے کہ پانی کی اہمیت کیا ہے اور کس طرح اپنی آنے والی نسلوں کےلیے پا نی بچانا بھی ہے اورانہیں مہیا کرنے کے ذرائع بھی پیدا کرنے ہیں۔مسٹر مارٹن کوبلر نے پانی کی ایک بالٹی سے نہ صرف اپنی گاڑی کو دھویا بلکہ اس بالٹی میں پانی کو بچا کر یہ بتایا کہ پانی کو ضائع نہیں کرنا۔جرمن سفیر مسٹرمارٹن کوبلر ایک غیر ملکی ہونےکے باوجود پاکستان کے ٹاٹ اسکولوں کا دورہ کرتا ہے۔بچوں کے ساتھ ان کی کتابیں پڑھنا ان کے ساتھ سوال جواب کرتے ہوئے ان کی دلجوئی کرتا اورتالیاں بجاتا نظر آتا ہے ۔کبھی کچی آبادیوں کا دورہ کرتا ہے ،وہاں اسنوکر یا کرکٹ کھیلتانظرآتا ہے۔ اگر ہم ڈچ وزیراعظم کی پہلی حرکت کاجائزہ لیں تو ایک ترکی یافتہ ملک کے وزیراعظم مسٹرمارک روٹ نے اپنی اتفاقاً غلطی کا ازالہ اس طرح کیا کہ خود جھاڑو اٹھاتےہوئے اپنی قوم کو ایک خوبصورت مسیج دے دیا کہ اپنے ملک کو صاف ستھرا رکھنا ہم سب کا فرض ہے اور اپنی غلطی کا ازالہ کرنےسے عزت میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوتاہے۔مارک روٹ نے نہ صرف اپنی عزت میں اضافہ کیا بلکہ دنیا بھر میں اپنے ملک اوراپنی قوم کی نیک نامی میں بھی اضافہ کیا ۔ اپنے قا رئین کو یہ بھی بتا ناچاہتا ہو ں کہ گذ شتہ آ ٹھ سالو ں سے وز یر اعظم کے عہدے پر رہنے وا لا ما ر ک رو ٹ اب بھی رو زا نہ اسکو ل میں دو گھنٹے مفت پڑ ھا تا بھی ہے۔ جرمن سفیر کی حرکت نے بھی اپنے ملک اور قوم کی عزت میں یوں اضافہ کیا کہ جرمنی اچھے لوگوں کا ملک ہے ۔اب ہم اگر ا پنے گریبانوں میں جھانکیں تو گندگی اوربدبو کے بھبھکے اٹھیںگے لیکن کیا کریں ندامت اور بو بھی تب آتی ہے جب’’ناک‘‘ ہو۔ہمارے پاس پانی ہو،ملازم ہوں اور گاڑیاں ہوں تو ہم سارا دن صاف گاڑیوں کو بھی دھلاتےرہتے ہیں کہ ملازم کہیں فارغ نہ بیٹھ جائے اور دوسرا جو ہم اسے تنخواہ دے کراس پر جو ’’احسان‘‘ کررہے ہیں اس کا ازالہ بھی ہوتا رہے۔ دو سر ی صورتحال ہمارے بڑے بڑے رہنمائوں تک ہے جواپنی سیاست اور ناک کو اونچا کرنے کےلیے ڈیم بننے کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ہمارے ان سیاست دانوںنے ملک کو کرپشن اور اقتدار کے مزےلینےکے علاوہ کچھ نہیں دیالیکن ڈیم کی مخالفت کرکے عو ام کو یہ جتلاناچاہتے ہیں کہ ہم ان کے اوراس دھرتی کے بڑ ے وفادار ہیں ،یوں ہم پانی کا بہتا ہوا خزانہ کسی ایک ڈیم میں اکٹھا کرنے کی بجائے صرف اس لئے ضائع کررہے ہیں کہ یہ ملک اپنے وسائل پیدا کرنے کی بجائے بھارت کے ڈیموں کا رونا روتا رہے ۔قومیں صرف ایٹم بم کے دھماکوں سے،انڈر پاس راستوں سے،اوورہیڈ برج سے، میٹرو بس اوراورنج ٹرین سے نہیں بنتیں بلکہ پہلے حکمرانوں اور پھر عوام کی نیک نیتی سے کی گئی حرکات سے بنتی ہیں۔حرکات کو ہم اچھے الفاظ میں اچھے عمل کہہ سکتے ہیں۔لیکن یہ سوچ یہ عمل نہ جانے کہاں سے لائے جاسکتے ہیں جو ہم سب میں بھی پیدا ہوجائیں اور دنیا کو باورکرانے کے لئے نہیں،لیکن اپنے لیے اور اپنی نسلوں کےلیے ہم اختیار کرلیں ورنہ پورا ملک گھی کے خالی ڈبے،کنستراور بوتلیں اٹھا کر بوند بوندپانی کےلیے بھاگتادوڑتا نظرآئیگا۔اور اللہ نہ کرے کہ پا کستا ن میں وہ وقت آ ئے کہ وضو کی جگہ ہم تیمم کرتے نظر آئیں،کیو نکہ وضو کر تے بھی ہم مسا جد کی ٹو ٹیا ں اس طر ح کھو ل دیتے ہیںکہ پانی کی نعمت کی کو ئی قدر ہی نہ ہو۔کیا ہم نے رمضا ن کو بھی ہدایت کی بجا ئے افطاری سمجھ لیا ہے؟