بھوک اور خوف کا معاشرہ

November 08, 2012

کبھی آپ نے سوچا کہ دنیا میں انسانوں پر خدا کی سب سے بڑی رحمت اور نعمت کیا ہے، اس کا سب سے بڑا انعام کیا ہے جو صرف ان انسانوں اور معاشروں کو ملتا ہے جن سے خدا راضی ہوتا ہے؟ اسی طرح اس کے عتاب اور غضب کا نشانہ بننے والے افراد اور اقوام کی نشانی کیا ہے؟ اس کا جواب قرآ ن پاک میں سورہ القریش میں یوں دیا گیا ہے۔ ترجمہ: اور اس گھر (خانہ کعبہ) کے رب کی عبادت کرو، جس نے تمہیں بھوک میں کھانا اور خوف میں امن دیا“۔ گویا معاشی خوشحالی اور پرامن معاشرہ خدا کی انسانوں پر سب سے بڑی رحمت ہے۔ جس کے لئے اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے…جبکہ معاشی بدحالی یابھوک اور بدامنی کا حامل معاشرہ یقینا عذاب الٰہی سے کم نہیں جو خدا کے نزدیک ناپسندیدہ افراد اور اقوام پر عتاب کے طور پر نازل کیا جاتا ہے
اگر ہم قرآنی احکامات کی روشنی میں دیکھیں تو انسانوں کا فلاحی معاشرہ وہی ہے جس کے لئے بلاامتیاز مذہب و ملت، دنیا کے تمام اچھے انسان آج تک جدوجہد کرتے اور قربانیاں دیتے رہے ہیں۔ ان کا مقصد ایک ایسے معاشرے کا قیام ہے جو غربت، افلاس اور بھوک کے ساتھ ساتھ تشدد، قتل و غارت گری اور بدامنی سے بھی پاک ہو۔ ایسے ہی فلاحی معاشروں کے لئے تمام انبیائے کرام، ولیوں اور صوفیوں نے بھی کوشش کی اور یہی وہ معاشرہ ہے جس کی خاطر سائنسدانوں، معاشی ماہروں، شاعروں اور ادیبوں نے قربانیاں دیں، چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، کسی بھی مکتہٴ فکر اور کسی بھی خطے سے تھا… لیکن انسانی معاشرے کا المیہ یہ بھی کچھ کم نہیں کہ مذہب پر اجارہ دار طبقوں نے، مذہب کے نام پر ہی ان تمام افراد کا راستہ روکنے کی کوششیں کیں جو انسانی معاشرے کو بھوک اور خوف سے نجات دلانے کی کوششوں میں مصروف تھے… اور اکثر کو تو انہوں نے عبرتناک مثال بنا دیا… تاریخ ابھی گلیلیو کے ماتم سے فارغ نہیں ہوسکی جسے اس کے سائنسی نظریات کی سچائی بیان کرنے پر عیسائی علماء نے موت کی سزا دے دی اور سقراط کو محض اس لئے زہر کا پیالہ پینا پڑا کہ اس کا سچ سوسائٹی کے نام نہاد اعلیٰ طبقوں کے لئے موت کا پیغام تھا۔
ہمارآج کا معاشرہ مکمل طور پر بھوک اور خوف کا معاشرہ ہے غربت، افلاس، اخلاقی بے راہ روی، قتل و غارت گری، ناانصافی… گویا کوئی ایسی برائی نہیں جو ہمارے معاشرے میں بدترین شکل میں نہ پائی جاتی ہو۔ صرف یہی نہیں 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد زندگی کے کسی بھی شعبے میں دنیا کی ترقی یافتہ اور مہذب اقوام کے مقابلے میں ہم نے ”حوصلہ افزا کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا… یہاں تک کہ ہم ایک ایسے بدترین تاریخی ورلڈ ریکارڈ کے حامل ہیں جسے شاید ہی کبھی کوئی توڑ سکے۔ کہ ہم نے صرف 23برس کے قلیل عرصے میں اپنا ملک ہی توڑ ڈالا… جی ہاں صرف 23برس جو کہ انسانوں کے باہمی تعلقات کے حوالے سے بھی زیادہ عرصہ نہیں ہوتا جبکہ ملکوں کی عمریں تو صدیوں پر محیط ہوتی ہیں۔ اس عظیم سانحے کے بعد بھی ہم اپنے خود ساختہ ”نظریاتی واہموں“ کے آسیب میں اس بری طرح الجھے ہوئے ہیں کہ بقیہ ملک بھی لہولہان ہو کر حالت نزع میں پڑا سسک رہا ہے“۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے تاریخ سے کوئی سبق نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ ہم نے تہیہ کیا ہوا کہ اقوام عالم نے تاریخ میں جتنی غلطیاں کی تھیں۔ وہ ہم اس امید کے ساتھ دہرائیں گے کہ انہیں شر نہیں خیر ثابت کر دیں۔لیکن ہر مرتبہ نتیجہ وہی نکلتا ہے جو پہلے انسانوں کی غلطیوں سے نکلا تھا۔ مثلاً پاکستان کے قیام کے فوراً بعد جاگیرداروں، اور استحصالی طبقوں نے مذہبی اور فوجی اشرافیہ کے ساتھ مل کر عوامی رائے عامہ کا مذاق اڑانے، جمہوریت کو خلاف مذہب اور آمریت کو اس ملک کا مقدر قرار دینے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا تاکہ وہ اپنی جاگیریں اور لوٹ کھسوٹ کی کمائی کو تحفظ دے سکیں۔ انہیں خطرہ تھا کہ جس طرح انڈیا نے تقسیم ملک کے فوراً بعد بیک جنبش قلم ریاستی اور جاگیرداری نظام ختم کر دیا ہے کہیں جمہوری نظام کے استحکام کی شکل میں پاکستان میں بھی ایسا نہ ہو جائے۔ وہ اپنی سازشوں کے ذریعے اپنی جاگیریں بچانے میں کامیاب تو ہوگئے… لیکن اس ملک پر وہ ظلم کر گئے جس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ جاگیرداروں اور سماج کے دیگر استحصالی طبقوں نے اپنے ساتھ ساتھ دو مزید طبقوں کو بھی استحصالی حکمران طبقوں میں شامل کرلیا۔ جنہوں نے پاکستان کا حلیہ بگاڑ کرکے رکھ دیا… یہی طبقے بالآخر صرف 23برس بعد ہی 1947ء میں قائم ہونے والی ریاست کے خاتمے کا باعث بن گئے۔ ان میں ایک مذہبی علمائے سو کا طبقہ اور دوسرا فوجی اشرافیہ کا طبقہ (جو بعد میں ادارے کی بجائے طبقے کی شکل اختیار کرگئے) شامل ہے۔ جاگیرداری سماج کو قائم رکھنے کے لئے علمائے سو سے اس کا جواز یعنی فتوے حاصل کرنا اور طاقت کے ذریعے اسے نافذ کرنے کے لئے فوجی اشرافیہ کو ساتھ رکھنا ان کی مجبوری تھی چنانچہ ان تمام طبقوں نے مل جل کر پاکستان کو بیسویں صدی کا ایک ایسا عجوبہ بنا دیا جس میں قرون وسطیٰ کے متروک نظام اور نسخے آزمائے جارہے تھے۔
جس کسی نے غریبوں کے لئے روٹی کپڑے اور مکان کی بات کی اسے کافر قرار دیدیا گیا، جس نے خطے میں امن کے لئے آواز بلند کی اسے دشمن کا ایجنٹ ہونے کا طعنہ دیا، جس نے جمہوریت، انسانی آزادی اور مذہبی رواداری کے حق میں آواز اٹھائی اس کی زبان کو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا گیا… خود ہر طرح کی نئی سائنسی ایجادات سے فائدہ اٹھانے والوں نے… سائنسی علوم کی ترویج… فنون لطیفہ، فلم اور ادب کی ترقی کی بات کرنے والوں کو ”مغرب زدہ“ قرار دے کر معتوب کردیا۔ ان لوگوں کی وجہ سے پاکستان اکیسویں صدی کی مہذب دنیا میں ”اچھوتوں کا جزیرہ“ بن کر رہ گیا ہے۔ جن سے باقی کی دنیا خوفزدہ ہے… لیکن ہمارے حکمران طبقوں کے نظریاتی محافظ ہمیں دن رات یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ساری دنیا ہمارے عقائد کی وجہ سے ہم سے حسد کرتی ہے… یہاں تک کہ بعض ہم مذہب ممالک بھی جن کے ساتھ ہمارے تعلقات ٹھیک نہیں… یہ الگ بات ہے جن ممالک کو ہمارا مذہبی دشمن قرار دینے کی سرتوڑ کوششیں کی جاتی ہیں… وہ اپنے مذہب کے حوالے سے بھی ”مذہبی“ نہیں ہیں۔
جب آپ مسائل کی بجائے غیر مسائل (NON-ISSUES) پر اپنی ساری توانائیاں صرف کریں گے۔ آپ قوم کو نظریاتی مغالطوں، نظریاتی سرحدوں اور نظریاتی دوستوں اور دشمنوں میں تقسیم در تقسیم کرتے چلے جائیں گے اور جیتے جاگتے انسانوں کے خوفناک مسائل سے پہلو تہی کرتے رہیں گے۔ تو مسائل کا انبار اور بوجھ اتنا بڑھ جائے گا کہ بالآخر آپ اس میں دب کر رہ جائیں گے پھر یا تو ملک ٹوٹ جاتے ہیں یا بھوک اور خوف کے معاشروں کی شکل میں اپنے شہریوں کے لئے عذاب بن جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کب تک ہم خود کو دنیا کے دوسرے انسانوں کی طرح سمجھنے کی بجائے کوئی الگ مخلوق سمجھ کر حماقتیں کرتے رہیں گے… بھوک اور خوف کا ہمارا یہ قابل رحم معاشرہ نظریاتی ٹوٹکوں، تعویذ، دھاگوں اور طلسماتی کرامات سے ٹھیک نہیں ہوگا اس کے لئے اسی مروجہ معاشی، سیاسی اور سماجی نظام کو رائج کرنا ہوگا جس نے باقی دنیا کے معاشروں کو امن اور خوشحالی کے معاشروں میں تبدیل کر دیا ہے۔