3D بلڈنگ کی پرنٹنگ کے پیچھے کیا سائنس ہے؟

July 08, 2018

تھری ڈی فلمیں جب پہلی بار سینماگھروں کی زینت بنیںتوایک تہلکہ مچ گیا تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اب تقریباً ہر ہالی ووڈ فلم تھری ڈی میںپیش کی جارہی ہے ۔ تھری ڈی ٹیکنالوجی ہر شعبے میںاہمیت اختیار کرتی جارہی ہے، اسی طرح پرنٹنگ کا شعبہ بھی تھری ڈی ٹیکنالوجی لیس ہونے کے مراحل میںہے۔ ٹیکنالوجی ماہرین اگلے چند برسوں کو تھری ڈی پرنٹرز کےلیے ہوش ربا ترقی کاسال قرار دے رہے ہیں، جن میں گھریلو اشیا ءسے لے کر گھر تک تھری ڈی پرنٹنگ مشین کے ذریعے پرنٹ کیےجاسکیںگے۔

چینی کمپنی ون سن شیلٹر نے ایسا ہی ایک دلچسپ کام کیا ہے اور پورا بس اسٹاپ ہی تھری ڈی مشین پر تیار کرلیا ہے۔کمپنی کا یہ تھری ڈی بس اسٹاپ ضلع جنشان کے قدیم شہر فینگ جنگ میں ایک سڑک کے کنارے نصب کردیا گیاہے۔ قبل ازیں تھری ڈی پرنٹر سے تیار کردہ دفاتر اور چھوٹے بڑے گھروں سے متعلق خبریں بھی آپ پڑھ یا سن چکے ہوں گے۔ ایسے گھر مکمل طور پر ری سائیکل ہونے والے سامان سے تیار کیے گئے ہیں یعنی اس میںوہ خام مال کو استعمال کیا گیا ہے جسے ہم فالتو سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ون سن کمپنی چین میں تھری ڈی مکانات اور رہائشی یونٹ تعمیر کرنے والی سب سے بڑی اور جدید کمپنی ہے۔ اس کمپنی نے گزشتہ سال ایک رات میں 10 عدد مکانات تیار کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔ اب یہ کمپنی تھری ڈی مشین سے بنے حصوں پر مشتمل بلڈنگ اور کثیرالمنزلہ عمارات بھی تیار کررہی ہے۔

تھری ڈی پرنٹنگ کے پیچھے کیا سائنس ہے؟

1983ء میں جب سی ڈیز اور کیم کوڈر متعارف کرائے جا رہے تھے، اسی وقت تھری ڈی سسٹم کارپوریشن کے چارلس ڈبلیو چک ہلز نے دنیا کا پہلا تھری ڈی پرنٹر ایجاد کیا، اس پرنٹر میں اسٹیریو لیتھو گرافی تیکنیک استعمال کی گئی تھی۔ اس پرنٹر سے کسی بھی ٹھوس شے کو پرنٹ کرنے میں وقت کے ساتھ ساتھ کافی سرمایہ بھی درکار تھا۔ اس وقت چک ہلز کی ایجاد کو بڑے پیمانے پر شہرت اس لیے نہیں مل سکی کیونکہ عوام کی توجہ سی ڈیز اور کیم کوڈر جیسی تفریحی ایجادات پر مرکوزتھی، جو ان کی زندگی کو تفریح کا نیا سامان مہیاکررہی تھیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ چک ہلز نے اپنے پرنٹر میں کچھ تبدیلیاں کیں اور ان کایہ ’’تھری ڈی پرنٹر‘‘ صنعتی اداروں میں متعارف ہوتا چلا گیا لیکن اس کی قیمت عام لوگوں کی پہنچ سے دور تھی۔اس کے بعد سائنس دانوں نے ایسا تھری ڈی پرنٹر بنانے کی تگ و دو شروع کردی جو کم قیمت کے ساتھ کم خرچ اور تیز رفتار ہو۔ رواں ماہ ایک برطانوی کمپنی نے جدید تھری ڈی پرنٹر متعارف کرادیا ہے جو مخصوص دکانوں پر دستیاب ہے۔700پائونڈ مالیت کے اس پرنٹر کو المونیم کے فریم میں ڈیزائن کیا گیا ہے۔ K8200پرنٹر کے ساتھ ڈیزائننگ سافٹ ویئر، پرنٹ کرنے کے لیے پانچ میٹر پولی لیکٹک ایسڈ (مکئی کے دانوں سے بننے والا پلاسٹک نمامادہ) تار بھی فراہم کیا گیا ہے۔

تھری ڈی پرنٹر کس طرح کام کرتا ہے؟

سب سے پہلے کمپیوٹر پر ڈیجیٹل سافٹ ویئر کے ذریعے مطلوبہ تھری ڈی ڈیزائن تخلیق کیا جاتا ہے۔پھر اس ڈیزائن کو کمپیوٹر سے تھری ڈی پرنٹر میں منتقل کیا جاتا ہے، جو پلاسٹک کو پگھلا کر اس ڈیزائن کی تہیں (لیئرز) جمانا شروع کر دیتا ہے۔کسی بھی تھری ڈی آبجیکٹ کی پرنٹنگ کا وقت ڈیزائن کے سائز اور اس کی پیچیدگی پر منحصر ہے۔ مثال کے طور پر ایک موبائل فون کیس پرنٹ کرنے میں تقریباً تیس منٹ لگتے ہیں۔

تھری ڈی پرنٹر سے کیا کیا پرنٹ ہوسکتا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے یہ ٹیکنالوجی نہ صرف تعمیرات، صنعتی ڈیزائن، آٹو موبائل، ایرو اسپیس، فوجی، انجینئرنگ، دانتوں اور طب سے وابستہ صنعتوں کے لیے فائدہ مند ہے بلکہ اسے فیشن، جیولری، فٹ ویئر، آئی ویئر، تعلیم، غذا اور جغرافیائی انفارمیشن سسٹم میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ تھری ڈی پرنٹر سے آپ اپنے موبائل فون کے کَور سے لے کر گھر کی دیواریں تک پرنٹ کر سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق پلاسٹک تو اس میں عام انک ہے لیکن انک کے طور پر سرامک، دھات، مٹی، شکر اور چاکلیٹ بھی استعمال کی جاسکتی ہے اور یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ اگر آپ ویلنٹائن ڈے پر کسی کوچاکلیٹ سے بنا ’’دل‘‘ دینا چاہتے ہیں تو اس کے لیے چاکلیٹ انک کااستعمال کریں۔ اگر آپ چاندی سے بنا دل دینا چاہتے ہیں تو چاندی بطور انک استعمال کرنا ہوگی۔

تھری ڈی ماڈلنگ یا تھری ڈی پرنٹنگ سے آپ نے کوئی عمارت تعمیر ہوتے نہیںدیکھی تو آپ یوٹیوب پر جاکراس کی ویڈیو دیکھ سکتے ہیں، ایسا لگے گا جیسے جادو کے ذریعے کوئی کام ہورہاہے۔دنیا میںکروڑوں لوگ سائبان سے محروم ہیں، مستقبل میں اگر تھریڈی ٹیکنالوجی سستی ہوجاتی ہے تو اس سے لاکھوںلوگوںکو کم لاگت میں مکان تعمیر کرنے کی امید پیدا ہوجائے گی۔