ملین ڈالر کا سوال

July 08, 2018

ایون فیلڈ کے فلیٹس جب خریدے گئے تھے تو یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھاکہ یہ فلیٹس کبھی شریف فیملی کیلئے تباہی کا باعث بھی بن سکتے ہیں لیکن ایک انجانا خوف اس فیملی کے ذہن میں تھا ۔اسی لئے مسلسل اِن کی ملکیت سے انکار کرتی رہی ۔حسن نواز نے انیس سو ننانوے میں بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھاکہ ہم نے یہ فلیٹس کرائے پر لے رکھے ہیں ۔مریم نواز نے بھی ہمیشہ اِن کی ملکیت سے انکار کیاتھا۔نواز شریف بھی اپنی زبان پر اِن فلیٹس کی ملکیت کا ذکر کبھی نہیں لائے تھے ۔
پہلی بار پانامہ لیکس کے سبب حسین نواز نے اِن فلیٹس کی ملکیت کا ’’الحمدللہ ‘‘ کہہ کراقرار کیا۔جیسے ہی اقرار کیا یہ سوال کوبرا ناگ کی طرح پھن پھیلا کر کھڑا ہو گیاکہ’’ یہ فلیٹس جس رقم خریدے گئے تھے وہ کہاں سے آئی تھی اور کیسے برطانیہ پہنچی تھی‘‘۔ یہی وہ ملین ڈالر کاسوال تھاجس کا شریف فیملی سپریم کورٹ میں کوئی جواب نہیں دے سکی تھی ۔اِسی سوال کے جواب کیلئے نیب کی کورٹ نے نواز شریف کوایک سو سے زیادہ مرتبہ بلایا مگرجواب ندارد۔
مجھے یاد آرہا ہے یہی سوال سابق برطانوی وزیر تجارت پیٹرمینڈلسن سے بھی کیا گیا تھا ۔اُس کاشمار برطانیہ کے ذہین ترین سیاست دانوں میں ہوتا تھا یہی وہ شخص تھا کہ جس نے لیبر پارٹی کی سوئی ہوئی آنکھوں میں نیو لیبر کی حکمرانی کاخواب بھر دیاتھا۔ وہی خواب جس کے گھر گھر میں فروخت ہونے سے ٹونی بلیئر کو رہائش کے لئے 10ڈاؤننگ اسٹریٹ کا مکان ملا تھا۔یعنی ایک طویل عرصہ کے بعد لیبر پارٹی اقتدار میں آ گئی تھی ۔رہائش کیلئے لندن میں کسی مکان یا فلیٹ کی ضرورت پیٹر مینڈلسن کو بھی تھی ۔ایون فیلڈ کے فلیٹس جیسا فلیٹ جِس میں آسودگی کے بیڈ روم ہوں، جس میں زندگی کی رعنائیوں سے بھرے ہوئے کئی ڈرائنگ روم ہوں۔انگیٹھی کے اوپر شیر کی قدِ آدم تصویر لگی ہوئی ہو۔شاندار ڈائننگ روم ہوں ۔انتہائی قیمتی فرنیچر ہو ۔بڑے بڑے باتھ روم ہوں ۔کچن اپنی مثال آپ ہوں ۔یعنی انہی چاروں فلیٹس کی طرح کا ایک فلیٹ ۔ اب ممبر آف پارلیمنٹ کو اتنی تنخواہ تونہیں ملتی ہے کہ اپنے خوابوں کے فلیٹس خرید سکے۔ بس اُس نے بھی وہی کیا جو ایسے حالات میں اُس کیلئے ممکن تھا۔ اُس نے اُدھار مانگ لیا۔ یقیناًاُس نے سوچا ہوگا کہ اُدھار لینا کوئی جُرم تھوڑی ہے ۔پیٹر وزیر تھا اُس کے ایک ملینئر ایم پی نے بخوشی اُس کی مدد کر دی ،بغیر سود کے ادھاردے دیا۔یہ قطری خط کی طرح کا ادھار نہیں تھا سچ مچ کا ادھار تھامگرلوگوں کو منظر کے پسِ منظر میں احسان مندی کے درختوں پر بور آیا ہوا دکھائی دینے لگا۔یہ بات طے کرلی گئی کہ وزیروں کو مِلنے والا سود کے بغیر ادھار بھی بحث طلب ہوتاہے ۔یقین کیجئے اتنی تشہیرہوئی کہ پیٹر مینڈلسن کو اپنے مکان کے عوض اپنی وزارت سے ہاتھ دھونے پڑگئے۔
سو برطانیہ میں سوالوں کے جواب دینے پڑتے ہیں ۔نیب کے فیصلے کے بعد یہ ملین ڈالر کاسوال حسین نواز اور حسن نواز سے برطانوی حکومت نے بھی کرنا ہے کہ’’ یہ فلیٹس جس رقم سےخریدے گئے تھے وہ کہاں سے آئی تھی اور کیسے برطانیہ پہنچی تھی ‘‘۔برطانیہ میں ایک مصیبت اور بھی ہے کہ سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہوتا ہے ۔جیسے ہی برطانوی حکومت کیس شروع کرے گی فوراً سامنے آجائے گا کہ رقم کس اکائونٹ سے ادا کی گئی تھی اُس اکائونٹ میں کہاں سے منتقل ہوئی تھی ۔سو یہ بات بھی اب زیادہ دیر شریف فیملی نہیں چھپا سکے گی کہ اسے یہ رقم کیسےحاصل ہوئی تھی ۔پہلے شہباز شریف کی فیملی شایداِس بات پر ملول ہوا کرتی تھی کہ ان میں ہمیں حصہ نہیں دیا گیا اب اللہ کا شکر ادا کرتی ہوگی مگر شہباز شریف کے اردگرد بھی مسلسل گھیرا تنگ ہوتا جارہاہے ۔ان کے سامنے بھی کئی ملین ڈالر کے سوال پھن پھیلائے کھڑے ہیں ۔ نواز شریف نے فیصلے کے بعد لوگوں کے احتجاج کیلئے باہر نہ آنے پریقیناً شہباز شریف کی سرزنش بھی کی ہوگی مگرشہباز شریف ابھی پرامید ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کا بیانیہ اُن کیلئے درست نہیں ۔
ویسے بھی اِس بیانیے کی
sell by date
اب گزر چکی ہے ۔
پاکستان سے باہرتو یہ بیانیہ بالکل ہی نہیں چل سکتا کہ ’’فیصلے کے پیچھے خلائی مخلوق کا ہاتھ ہے ‘‘۔اب کسی نے مریم نواز کا یہ نعرہ نہیں خریدنا کہ ’’ڈرتے ہیں بندوقوں والے ۔ایک نہتی لڑکی سے ۔‘‘کیونکہ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں عدلیہ مکمل طور پر آزاد ہے ۔بین الاقوامی تنظیم ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے بھی برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جب یہ ثابت ہوگیا ہے کہ نواز شریف کی لندن میں جائیداد غیر قانونی ہے تو ضبطی کی فوری کارروائی ہونی چاہیے۔ شریف فیملی کو ابھی اِس کا پورا اندازہ نہیں کہ برطانیہ میں انتہائی معمولی کرپشن پر بھی کوئی معافی نہیں ۔کیا کیا بتاؤں۔ سابق برطانوی وزیر داخلہ ڈیوڈ بلیکنٹ کی جو آنکھیں بچپن سے دیکھ نہیں سکتی تھیں اُس پر طرفہ تماشا یہ کہ محبت کی روشنی نے انہیں کچھ اوربھی چندھیا دیا تھا ۔ مگر اس نے صرف یہی تو کیا تھا کہ اپنی محبوبہ کے بچوں کی ’’نینی‘‘کے ویزے کی رفتار ذراسی تیز کروادی تھی۔وہ کام جومہینوں میں ہونا تھا ہفتوں میں ہو گیاتھا۔ ذرا سی بات تھی جِس پراس قدر شور اٹھا کہ ہوم آفس کی کنکریٹ سے بنی ہوئی دیواروں میں شگاف پڑنے لگے تھے۔عمارت ہلتی محسوس ہوئی تھی ۔اس نے اپنی وزارت کے دفتر کی چابی اپنے آنکھوں والے دوست ٹونی بلیئر کو لوٹا دی تھی اوراپنے کتے کی ڈوری تھام کر اپنے شہرشیفلیڈ آگیاتھا کسی کونے میں چھپ کراپنی محبت کا سوگ منانے۔
مجھے نہیں لگتا کہ برطانوی حکومت اس ملین ڈالر سوال کے جواب بغیر نواز شریف کو کوئی رعایت دے سکے کہ’’ یہ فلیٹس جس رقم سے خریدے گئے تھے وہ کہاں سے آئی تھی اور کیسے برطانیہ پہنچی تھی ‘‘۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)