صدر اوباما کا لولی پاپ معاشی حقائق

November 13, 2012

امریکہ کے صدارتی انتخابات بڑے پرامن ماحول میں مکمل ہوچکے ہیں۔ امریکیوں نے صدر اوباما کو مزید چار سال کے لئے اپنا صدر دوبارہ منتخب کرلیا ہے جس کے بعد صدر اوباما نے اعلان کیا ہے کہ پچھلی دہائی کو بھول جائیں، اب ترقی اور آگے بڑھنے کا عمل تیز ہوگا۔ پاکستان کے عوام اور میڈیا کی اکثریت ا مریکی الیکشن سے پہلے اور بعد میں یہ سمجھتی چلی آرہی ہے کہ صدر اوباما پاکستانیوں اور مسلمانوں کے حق میں ہیں جبکہ حقائق عملاً کچھ اور ہیں ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ دونوں صدارتی امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم کے ایک اہم موڑ پر اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ پاکستان پر ڈرون حملے جاری رہیں گے۔ اس لئے ز یادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکی صدر نے پہلا پالیسی بیان جاری کرکے سب کو ایک ”لولی پاپ“ دیا ہے۔
دوسرا یہ کہ اس صدر اوباما کے دور میں ان کی وزیر خارجہ( سیکرٹری خارجہ) ہیلری کلنٹن نے افغان سرحد کے ساتھ ساتھ صنعتی اور معاشی سرگرمیوں کو قانونی شکل دینے کے لئے وہاں خصوصی زون(Zone)بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن ا ب تازہ اطلاعات یہ ہیں کہ امریکی انتظامیہ نے اس پروگرام کو موخر بلکہ منسوخ کردیا ہے اور اس کی جگہ کسی نئی سکیم پر غور شروع کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وزارت تجارت کی طرف سے قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کو پچھلے دنوں آگاہ کیا گیا ہے یہ خصوصی زون پشاور، مردان، گدون، رسالپور، نوشہرہ وغیرہ میں بنانے کا پلان 6سال پہلے بنایا گیا تھا اگر یہ بات صحیح ہے تو پھر امریکہ سے دوستی کا کیا فائدہ؟ یعنی دہشتگردی کے نام پر جنگ میں پاکستان60ارب سے 70ارب ڈالر کا نقصان کراتا رہے اور امریکہ اس کے بدلے میں پاکستان کو سالانہ440ملین ڈالر کی امداد پر کام چلاتا رہے۔اس پس منظر میں مستقبل کے حوالے سے پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے ہماری پارلیمنٹ حکام اور سول سوساسٹی کو مل جل کر سوچنا چاہئے۔ انہیں صدر اوباما سے زیادہ توقعات رکھنے کی بجائے پاکستان کو معاشی طور پر اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنے کی حکمت عملی مرتب کرنی چاہئے۔
ویسے بھی اب پاکستان میں بھی”الیکشن نیوز“ کا عملاً آغاز ہوچکا ہے۔ کاش امریکہ کی طرح پاکستان میں بھی پرامن الیکشن ہوجائیں، جس کے سو فیصد امکانات تو پاکستان میں نظر نہیں آتے ۔ ہمیں تو ذاتی طور پر موجودہ قومی حالات اور امن و امان کی بدترین صورتحال میں کم از کم بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں بروقت الیکشن منعقد نظر نہیں آتے، ایسی صورتحال میں اگر الیکشن دو مراحل میں ہوتے ہیں تو پھر انتقال اقتدار کا معاملہ کیسے طے ہوگا۔ خاص کر عدلیہ اور فوج کے درمیان حال ہی میں بڑھنے والے تناﺅ کے پس منظر میں یہ صورتحال دونوں اداروں میں نہ ہوتی تو اچھا تھا کیونکہ اس سے پاکستان میں سرمایہ کاری اور معاشی سرگرمیوں پر یقینا منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف غربت اور جہالت کے خاتمہ کے لئے جتنے بڑے مرضی اعلانات اور دعوے کریں یہ دونوں مسائل ختم نہیں ہوسکتے۔ اس کے لئے ملک میں مس گورننس کو دور کرکے ا یک ایسا معاشی نظام لانا ہوگا جس میں غریب اور متوسط طبقہ کو اس کا حق مل سکے۔ یہ حق اسے امریکہ یا کوئی اور طاقت نہیں دلا سکتی۔ یہ صرف ہمارا نظام ہی دلا سکتا ہے لیکن اگر اس نظام پر جاگیردار اور سرمایہ داروں کا قبضہ رہا تو ایک کیا کئی عمران خان آجائیں انتخابی نتائج ماضی کی طرح ہی آئیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کے لئے ایسا پارلیمانی نظام رائج کیا جائے جس میں1973ءکے دستور کے تحت عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ یہ فراہمی موجودہ سیاسی نظام سے تو ممکن نہیں ہے اس لئے نئے انتخابات اگر ہوتے ہیں تو پاکستان کے اچھے مستقبل کا فیصلہ ہمارے عوام کو کرنا ہوگا، ورنہ امریکہ پاکستان کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے جتنا مرضی سپورٹ کرتا رہے اور عالمی ادارے صدر اوباما کے نئے ایجنڈے کے تحت پاکستان کی کچھ نہ کچھ امداد کرتے رہیں اس سے 70 فیصد عوام کے لئے دو وقت کی روٹی عزت سے کمانا آسان نہیں ہوگا۔ اس وقت پاکستان میں عملاً غربت کی ایک نہیں کئی اشکال بن چکی ہیں ۔ایک وہ غریب جو سڑکوں پر بھیک مانگتے اور چھوٹے چھوٹے جرائم کرتے رہتے ہیں
دوسرے وہ سفید کالر زندگی گزارنے والے کروڑوں لوگ ہیں جن کے چہروں پر مسکراہٹ ضرور ہے مگر ان کی جیبیں خالی اور دل حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کے خلاف بھرے ہوئے ہیں جبکہ چند فیصد ا فراد آپ کو زندگی کے ہر شعبہ میں بڑے خوشحال ،متحرک اور مطمئن نظر آئیں گے جن کو پاکستان کی خوشحالی اور ترقی سے کوئی غرض نہیں ہے وہ امریکی حکومت کی طرح کسی کے نہیں، صرف اپنے مفاد کو ترجیح دیتے ہیں چاہے اس کے لئے اہم قومی اداروں کے درمیان تناﺅ ہی کیوں نہ بڑھ جائے۔ وہ اپنے ایجنڈے پر کام کرتے نظر آتے رہیں گے۔