’’میر شہداد جو قبو‘‘ تالپوروں کا آبائی قبرستان

August 01, 2018

میرپور خاص ڈویژن کے تعلقہ شہداد پور میں ’’شاہ پور چاکر‘‘ نام کا چھوٹا سا شہر آباد ہے، جس کی کل آبادی صرف50ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ نواب شاہ اور سانگھڑ کے درمیان واقع اس شہرکا دونوں اضلاع سےفاصلہ 30کلومیٹر ہے۔ اس شہرکےچھوٹے چھوٹے گوٹھوں میںایک سو مختلف برادریوں کے افراد رہتے ہیں۔اس کی وجہ شہرت ’’شاہ قبیلے ‘‘ کے اکابرین کے مقابر ہیں ،جو شہر کے غیرآباد علاقے میں پہاڑی ٹیلوں پر واقع ہیں۔ اسے سندھ کا تاریخی ورثہ اورشاہ قبیلے کا خاندانی قبرستان بھی کہا جاتاہے، جہاںمیر شہداد خان اورچاکر خان کے عزیز و اقارب مدفون ہیں ۔ یہاں سب سے پہلے تین صدیاں قبل میر چاکر خان نےاپنے والدکی تدفین کی تھی،جو بعد ازاں’’ میر شہداد جو قبو‘‘کے نام سے مشہور ہوا۔اس قبرستان میں تقریباً نصف درجن مقابر پختہ ہیں ،جو گوتھک اور قدیم سندھی فن تعمیر کا نمونہ ہیں۔ ان کی تعمیر میں سرخ اینٹوںاور چٹانی پتھروں کا استعمال کیا گیا ہے، جنہیں آپس میں جوڑنے کے لیے چونا، ماش کی دال ریت اور پانی کا آمیزہ استعمال کیا گیا ۔

میر شہداد، میر چاکر اور دیگردو مقابربڑے کمرے کی صورت میں گنبد نما بنائے گئے ہیں، جن کی چوٹی پر لوہے کی کلغی بنی ہوئی ہے ۔ ایک مقبرہ وسیع احاطے میں چھتری چھجہ نما بنا ہوا ہے،جس میں تقریباًبارہ قبریں بنی ہوئی ہیں ۔ ان مقابر کے عقب میںایک پرشکوہ مسجد کا مینار بھی نظر آتا ہے، جو اس قبرستان کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی۔میر شہداد تالپورر اور چاکر خان کے مزارات میں داخل ہونے کے لیے محراب نما دروازے بنائے گئے ، جن پر بیل بوٹے بھی بنے ہوئے ہیں۔ مقابر کے چاروں طرف محرابیں بنائی گئی ہیں،شہداد تالپور کے مزار کے گنبد پر چاروں طرف چھوٹے چھوٹے مینار بھی تعمیر کیے گئے تھے ،جن میں سے ایک مینار منہدم ہوچکا ہے۔ اس مقبرے پر چونے سے سفیدی بھی کی گئی تھی۔محکمۂ آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی وجہ سے یہ قدیم قبرستان تباہی کے دَہانے پر کھڑا ہے، مقابر کی اینٹیں جھڑ رہی ہیں جن کا ڈھیر مزارات کے اطراف میں نظر آتا ہے۔

میر شہداد خاں تالپور ، کا شمار سندھ کے عظیم جرنیلوں میں کیا جاتا ہے۔سندھ کی تاریخ میں تالپور خاندان کا نام پہلی بار میاں یار محمد کلہوڑو کے دورحکومت میںمشہور ہوا۔مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر نےشہزادے محمد معزالدین میاں کو خدا یار کے خطاب سے نواز کر راجستھان کا حکمران بنایا۔ان کی عمل داری میں سندھ کی ریاست بھی تھی جس پر کلہوڑو خاندان کی حکمرانی تھی۔ کلہوڑو حکمران مرید رکھا کرتے تھے اور تالپور خاندان جن کا تعلق بلوچستان سے تھا، اس کے اکابرین ان سرداروں کے مرید تھے۔ اُن میں سے میر شہداد خان اس وقت میاں یار محمد کے ہاں بااثر تھے۔

ان ہی دنوں ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں شورش برپا ہوئی، شہزادہ معزالدین ،بکھر سے ملتان ہوتے ہوئے مخدوش علاقوں کی طرف روانہ ہوئے۔ میر شہداد خان تالپور کو بلوچ لشکر کا سربراہ بنا کرحالات بہتر کرنے کے لیےروانہ کیاگیا، جہاں وہ امن بحال کرنے میں کام یاب ہوگئے۔میر شہداد کی جرأت اور بہادری سےشہزادہ بہت متاثر ہوا اور انہیں1705میںسندھ میں ’’پٹ باران‘‘ والی زمین جاگیر کے طور پر عنایت کی۔میر شہداد خان کی پہلے ہی کافی زمینیں تھیں اور ان کا شمار سندھ کے بڑے زمین داروں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے پنجاب سے واپسی کے بعد شہداد پور کے نام سے قصبہ آباد کیا، جس میں زراعت، صنعت و حرفت اور علوم و فنون کو فروغ دیا گیا۔شہداد خان سندھ میں تالپور خاندان کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔

1734ء میں ان کی وفات کے بعد انہیں شاہ پور چاکر میں دفن کیا گیا۔میر شہداد تالپور کے چار میں سے تین بیٹے سندھ میں پلے بڑھے ،جب کہ چھوٹے بیٹے ،میر نندو تالپور ایران چلےگئے، وہیں ان کی وفات ہوئی۔ شہداد تالپور کے بڑے بیٹے میر چاکر خان نے اپنے والد کے بسائے ہوئے شہر کے اندر ایک چھوٹے سے قصبے کی بنیاد رکھی، جسے چاکر خان کی وفات کے بعدان کے نام سے موسوم کرکے ’’شاہ پور چاکرو ‘‘ کا نام دیا گیا،کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے خیرپور کی ریاست میں تالپور خاندان کی حکم رانی کی بنیاد رکھی ۔

میاں یار محمد کلہوڑو کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد مرادیاب خان کو دہلی کے شہنشاہ کی جانب سے سربلند خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا،لیکن وہ اپنے والد کے بر عکس ایک ظالم حکم راں ثابت ہوئے۔ ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے ، سندھ کے سردار بھی ان سے ناراض ہونے لگے، ان میں سےایک میر شہداد کے بیٹے میر بہرام خان بھی تھے۔ انہوں نے دیگر سرداروں سے مشورہ کرکےمراد یاب کو حکم رانی سے معزول کرکے ان کے بھائی عطر خان کوتخت پر بٹھایا ،مگر وہ بھی اچھے حکمراں ثابت نہ ہوئے، جس کے بعد ان کے دوسرے بھائی غلام شاہ کو تخت نشین کیا گیا۔ عطر خان کے حامی سپاہیوں نے ان کے بھائی کی سربراہی قبول نہیں کی، جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی فوج کے درمیان جنگ چھڑ گئ۔میر بہرام خان تالپور، میاں غلام شاہ کے سپہ سالار تھا اور عطر خان کو احمد شاہ درانی کی مدد حاصل تھی۔ آخرکار عطر خان کو اوباڑو کے مقام پر شکست ہوئی اور میاں غلام شاہ کلہوڑوکو بادشاہ ہند کی طرف سے ’’شاہ وردی‘‘ خان کا خطاب دے کر سندھ کا نواب مقرر کیا گیا۔

1772ء میں میاں غلام شاہ کی وفات کے بعد ان کے بیٹے میاں سرفراز ،خدا یار خان کے خطاب سے سندھ کے نواب مقررہوئے۔ خدا آباد کا شہر اس وقت کلہوڑوحکمرانوں کی تخت گاہ تھی،مگر محلاتی سازشوں کے باعث میاں میر بہرام اور ان کے بیٹوں میر بجار اور میر صوبیدار سےلڑائی ہوگئی۔میر بہرام اور ان کے بیٹے صوبیدار خان کو قتل کرادیا گیا،جب کہ میر بجار خان حجپر روانگی کی وجہ سے بچ گئے۔تالپور خاندان کے ان دونوں شہزادوں کو خدا آباد میں دفن کیا گیا۔جس کے بعد کلہوڑوں اور تالپوروں میں دشمنی کی ابتداء ہوئی۔ مقتول میر صوبیدار خان کے 4 بیٹے تھے، جو اُس وقت کم سن تھے۔ خاندان کے بڑے میر فتح علی خان تھے جو ان کے والد کے چچا زاد بھائی تھے۔ وہ بلوچ لشکر لے کر میاں غلام شاہ پر حملہ کرنے آئے ، ’’ہالانی کی جنگ‘‘ میں کلہوڑو خاندان کو شکست ہوئی اور تالپور خاندان کی عمل داری حیدرآباد کے پکا قلعہ تک قائم ہوگئی۔