بدلتی دنیا میں خارجہ پالیسی کی تشکیل نو ضروری

August 14, 2018

نگران وزیر خارجہ عبداللہ حسین ہارون نے تیزرفتاری سے تبدیل ہوتی بین الاقوامی صورت حال میں پاکستان کی خارجہ پالیسی پر قومی اہداف اور وقت کے تقاضوں کی روشنی میں نظرثانی کی ضرورت کا بالکل درست طور پر اظہار کیا ہے۔ اتوار کی رات جیو ٹی وی کے پروگرام جرگہ میں ملک کو درپیش چیلنجوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ’’ امریکی فیصلے ہمارے حق میں نہیں جارہے ہیں۔کئی برسوں سے ہمارے اطراف جال بچھایا جارہا ہے ۔‘‘ پروگرام کے میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’’ ہم نے ہر موڑ پر وہ کیا جو امریکہ نے چاہا مگر ہمارے حق میں اس کے اچھے نتائج برآمد نہیں ہوئے۔‘‘ انہوں نے صراحت کی کہ’’ امریکا نے چینی سمندروں میں عالمی جنگ کے حالات پیدا کردیے ہیں اور بھارت کو انڈوپیسفک کا اہم کردار دیاہے، ہندوستان سے امریکہ کی قربتیں اور ہماری تنہائی بھی اسی وجہ سے ہے۔ ہم نے سی پیک بنا کر چین کا راستہ کھول دیا جہاں ان کو سانس لینے کا موقع مل گیا ہے اور یہی امریکہ کو سب سے زیادہ ناگوار گزرا ہے۔‘‘نگران وزیر خارجہ نے یورپ کو اپنا تابعدار بنائے رکھنے کے لیے اختیار کی گئی امریکی پالیسیوں کو واضح کرنے کے علاوہ افغانستان، سعودی عرب، ایران اور ترکی کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے مختلف پہلوؤں پر بھی اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور آئندہ چند روز میں قائم ہونے والی نئی پاکستانی حکومت کو ماضی کی طرح یک رخی خارجہ پالیسی کے بجائے متوازن حکمت عملی پر مبنی پالیسی کی تشکیل کا دانش مندانہ مشورہ دیا۔ عبداللہ حسین ہارون نے یہ وضاحت بھی کی کہ نگراں حکومت کے پاس پالیسی سازی اور بنیادی فیصلوں کا کوئی اختیار نہیں تھا چنانچہ خارجہ پالیسی میں بہتری کے لیے وہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے تاہم نئی منتخب حکومت کو امریکہ، چین ، یورپ اور بردار مسلم ملکوں سے تعلقات میں توازن کو یقینی بنانا چاہیے۔ بلاشبہ یہ ایک نہایت صائب مشورہ ہے اور امید ہے کہ نئی حکومت نگراں وزیر خارجہ کے انتباہات اور مشوروں کو قرار واقعی اہمیت دے گی۔