سیاسی ڈائری:قائد ایوان کیلئے مقابلے کامرحلہ،پی پی نے پسپائی اختیارکرلی

August 17, 2018

اسلام آباد(محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار)قائد ایوان کےلئے مقابلے کامرحلہ آیا ہے تو پیپلز پارٹی نے پسپائی اختیار کرلی ہے،پیپلز پارٹی نے پنجاب میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے چناو میں غیرحاضر رہنے کو ترجیح دی تھی اب وہ قومی اسمبلی کے قائد ایوان کے انتخاب میں بھی یہی راستہ اختیار کرے گی، پاکستان مسلم لیگ نون کی بقا کا انحصار اس کے ٹھوس اور مضبوط حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے میں مضمر ہے، 25 جولائی کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مطلوبہ ہدف حاصل کرنے کے باوجود اگلے روز دھاندلی اور انتقام کا شکار ہوئی۔ سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں بڑھ چڑھ کر اپنی موجودگی کو یقینی بنایا اور مولانا فضل الرحمٰن کے دانش مندانہ مشورے کو سبوتاژ کردیا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انتخابی نتائج کے حوالے سے جو بے چینی اور عدم اطمینان ظاہر کیا جارہا ہے اس کی شدت اس دن شباب پر تھی جس روز اسمبلیوں کے بائیکاٹ پر غور ہورہا تھا۔ فی الحقیقت تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان احکام بجا لانے کےلئے مسابقت چل رہی ہے دونوں کو پاکستان مسلم لیگ نون کو زیادہ سے زیادہ گزند پہنچانے کی ذمہ داری تفویض ہوئی ہے ایک کو انگریزی محاورے کے مطابق گاجر دکھا کر کام لیا جارہا ہے جبکہ دوسرے کےلئے چھڑی استعمال ہورہی ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کے لئے پاکستان مسلم لیگ نون نے وعدے کے عین مطابق بہ رضا ورغبت پیپلزپارٹی کے امیدوار کوووٹ دیئے اور اسی طرح ڈپٹی اسپیکر کے لئے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار کو ووٹ ڈالے ابقائد ایوان کےلئے مقابلے کامرحلہ آیا ہے تو پیپلز پارٹی نے پسپائی اختیار کرلی ہے اورکہاگیا ہے کہ شہباز شریف نے آصف زرداری حکومت کو برا بھلا کہہ رکھا ہے انہیں ووٹ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ وہی آصف زرداری ہیں جنہوں نے ایک ایسے سیاسی رہنما کو ملک کا نائب وزیراعظم بنایا تھا جسے ان کی اہلیہ کے قتل کی واردات میں ملزم بنایا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے چناو میں غیرحاضر رہنے کو ترجیح دی تھی اب وہ قومی اسمبلی کے قائد ایوان کے انتخاب میں بھی یہی راستہ اختیار کرے گی اور اس کے باوجود اصرار کرے گی کہ وہ حزب اختلاف کا حصہ ہے۔ پیپلزپارٹی نے پاکستان مسلم لیگ نون کے امیدوار کو ووٹ دے بھی دئیے تو وہ ملک کے وزیراعظم پھر بھی نہیں منتخب ہوسکیں گے محض ووٹ کی تعداد میں فرق واقع ہوجائے گا جو ایک سو چالیس کی بجائے ایک سو کے لگ بھگ رہ جائیں گے۔ بدھ کو پاکستان مسلم لیگ نون نے پیپلز پارٹی کی ’’غیرحاضری‘‘ کے باوجود انتخابی دھاندلیوں اور جعلسازیوں کے خلاف دھواں دار احتجاج کیا تھا جس کی تاب لانا تحریک انصاف کے بس میں دکھائی نہیں دے رہا۔ اس دوران پیپلز پارٹی خاموش تماشائی بنی رہی، اب بات ہورہی ہے کہ مسلم لیگ نون پارلیمانی ایوان بالا سینیٹ میں قائد حزب اختلاف کی نشست پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس کشاکش میں بے چاری شیری رحمٰن کو بے دخل کرنے کا منصوبہ بن رہا ہے ایساکرنا یاہونا شاید ممکن نہ ہو قبل ازیں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد لانے کی قیاس آرائی ہورہی تھی ۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی بقا کا انحصار اس کے ٹھوس اور مضبوط حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے میں مضمر ہے اس میں اگر پارٹی کی قیادت کا کوئی حصہ راحت کا طلبگار ہے تو وہ سخت غلطی پر ہوگا۔ رائے عامہ’’خالص‘‘ حزب اختلاف کا ہی احترام کرے گی کسی ملاوٹی فرد یا پارٹی کےلئے اپنا سکہ جمانا کار آسان نہیں ہوگا۔ پیپلز پارٹی جس نے نورا حزب اختلاف یا فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں قابل لحاظ مہارت حاصل کررکھی ہے بد ستور ایسے ہی کردارکی متلاشی ہے یا اسے اس کردار کےلئے تیار کیاگیا ہے بہتر ہوگا کہ وہ ان جھمیلوں سے آزادی حاصل کرے جو اس کے لئے طوق بن کررہ گئے ہیں اور آزاد روی پرکار بند ہوجائے اسے مستقبل کی سیاست میں کوئی بڑی جگہ حاصل کرنا ہے تو لازم ہوگا کہ وہ اپنے ریکارڈ کو درست رکھے، پھرتیاں اور قلا بازیاں ہمیشہ سیاست میں کارگر نہیں رہتیں۔ آئندہ اڑتالیس گھنٹوں میں پاکستان کا ’’ سیاسی اقتدار‘‘ نئےہاتھوں میں منتقل ہوجائے گا جس کے بعد اس گھڑیاں کی سوئیاں حرکت میں آجائیں گی جو آئندہ سو دن شمار کرے گا ان ایک سو ایام میں ملک عزیز میں بسنے والے ہر شخص کی زندگی میں مثبت اور دکھائی دینے والی ایسے تبدیلی لانا ہوگی جسے وہ محسوس کرسکے۔ ان ایک سو دنوں میں جنوبی پنجاب کا الگ صوبہ بنانا ہوگا جس کےلئے ’’حکمران‘‘ تیار بیٹھے ہیں ان سو دنوں میں پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر بھی ہونا ہے ایک کروڑ افراد کو ملازمتیں بھی فراہم کرنا ہوں گی اور بیرون ملک بالخصوص سوئس بنکوں سے پاکستان کی لوٹی دولت کے اربوں ڈالرز اور پاونڈواپس لانا ہونگے۔ بیورو کریسی کے نظام کی مکمل اصلاح کرنا ہوگی اور وہ تمام انقلابات لانا ہونگے جن کا پہلے سو دنوں کے حوالے سے وعدہ کیاگیا تھا اگر یہ تمام وعدے پورے کردیئے گئے تو پھر پاکستان میں کسی کو دھاندلی یا انتخابی فراڈ یاد نہیں رہے گا اور عوام اس برائی کو یکسر فراموش کردیں گے ۔ یادرہے کہ اس میں مہنگائی اور جرائم ختم کرنے کاوعدہ بھی شامل ہے ملک کے نئے حکمرانوں پر لازم ہوگا کہ وہ اچھے انداز حکمرانی متعارف کرائیں اپنے ان کارکنوں کو تہذیب کا سبق دیں جنہوں نے گزشتہ ایک عشرے سے مہم جوئی کواپنا شعاربنا رکھا تھا یہ طرز عمل فسطائیت کی طرف جاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ فی زمانہ عدم استحکام اور افراتفری ہے جو پاکستان کے دشمنوں کے مذموم عزائم کا حصہ ہے اب یہاں شائستگی کے چلن کی ضرورت ہے۔