مسلمانوں میں ہم جنس پرستوں کیخلاف امتیاز

November 21, 2012

ایک خبر کے مطابق ہالینڈ میں مسلمانوں کی ایک ٹیم نے ہم جنس پرستوں کے خلاف فٹ بال میچ کھیلا جس میں فٹ بال کے مداحین کی ایک بڑی تعداد شامل تھی۔ اس میچ کا مقصد ہالینڈ میں بڑھتے ہوئے ”ہوموفوبیا“ کا توڑ کرنا تھا جس کا الزام اکثر تارکین وطن پر لگایا جاتا ہے۔ ڈچ اولرے کے چیئرمین فرینک فان ڈبلن نے کہا کہ ہم جنس پرستوں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے، جس کا بڑا سبب لاعلمی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا پر ثابت کردیں کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ تمام تر اختلاف کے باوجود زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس ٹورنامنٹ کا بنیادی مقصد ہم جنس پرست کہلائے جانے والے تارکین کے خلاف امتیازی رویہ اپنانے کے خلاف جدوجہد کرنا ہے، خاص طور پر دوسرے مسلمانوں کی جانب سے ہم جنس پرست مسلمانوں کے خلاف کسی قسم کے امتیاز کا خاتمہ۔ ہالینڈ میں گزشتہ دنوں ایک سروے کیا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ سروے میں حصہ لینے والے ہم جنسوں نے کہا ہے کہ ان کے خلاف تشدد، نفرت اور جارحیت بڑھ رہی ہے ہم جنس پرستوں کے مطابق خاص طور پر سکولوں میں یہ روش اور رویہ بڑھ رہا ہے۔ اس موقع پر ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی جس سے ہالینڈ کے تیسرے بڑے شہر اترخت کے لیبر پارٹی کے رہنما نے بھی خطاب کیا جس نے بتایا کہ یہ بات سچ ہے مسلمان ہم جنس پرستوں کے خلاف امتیاز خاص طور پر بڑھ رہاہے اور مخالفین کی نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میرے حساب سے خطہٴ ارض پر ہم جنس پرستی کوئی انوکھی، کوئی نئی یا غیرمعمولی عادات میں شمار نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم جنس پرستی کے موضوع پر بنائی گئی برطانوی فلم کو چار برٹش فلم اکیڈمی ایوارڈ ملے ہیں ”بروک بیک ماوٴنٹین“ نامی اس فلم کو آسکر ایوارڈ کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا اپنے موضوع کے لحاظ سے اس نے پہلا انعام حاصل کیا۔ یہی نہیں پچھلے دنوں یہ خبر بھی برطانوی پریس کی زینت بنی تھی کہ سکاٹش ممبر پارلیمنٹ 45 سالہ سمتھ سپلی جو کہ ایک خاتون ہیں، اپنی خاتون ساتھی ہم جنس پرست کے ساتھ شادی کررہی ہیں جس کا نام سوزین ہے۔ دونوں نے اخباری نمائندوں کے سامنے آکر اپنی شادی کی تصدیق کی اور کہا کہ شادی کی رسوم ایڈنبرا میں ان کے خاندان اور دوستوں کی موجودگی میں ادا کی جائیں گی۔ ”دولہا دلہن“ نے یہ بھی بتایا کہ وہ اپنے اس نئے رشتے کو ایک نئی زندگی کا آغاز سمجھتے ہوئے نہایت خوش ہیں۔
قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لئے یہ بھی بتاتا چلوں کہ سمتھ جو اس سے قبل بھی شادی شدہ اور دو بچوں کی ماں ہیں، کو اپنی نئی دوست سوزین سے لافانی محبت ہوگئی تھی اس پر اس نے اپنے خاوند سے طلاق لے کر اپنی دوست کے ساتھ رہنا شروع کردیا۔ وہ کہتی ہے کہ یہ بتاتے ہوئے میں نہایت خوشی محسوس کررہی ہوں کہ میرے ایک خاتون دوست کے ساتھ تعلقات ہیں اور میرے والدین کو بھی ان تعلقات کا علم ہے۔ وہ مجھے پوری طرح سپورٹ کرتے ہیں۔ ادھر اوباما کے امریکہ سے بھی پچھلے دنوں ایک سیاست دان کے بارے میں ایسی ہی خبریں ملی تھیں۔ امریکہ کے ایک ممتاز عیسائی مبلغ اور سیاست دان ریورینڈٹیڈ نے اس الزام کے بعد کہ ان کے گزشتہ تین برس سے ایک مرد جسم فروش سے جنسی تعلقات تھے، استعفیٰ دے دیا ہے۔ بظاہر یہ شخص جنس پرستوں کی شادیوں کے سخت خلاف ہے اور اس نے خود پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کی ہے۔ جنسی تعلقات کا دعویٰ کرنے والے 49 سالہ مائیک جونز نے کہا ہے کہ اس نے مسٹر ریورینڈٹیڈ کے ساتھ اپنے تعلقات کی تفصیل منظرعام پر لانے کا فیصلہ اس وقت کیا جب انہوں نے اپنے جلسے میں ہم جنس پرستوں کے خلاف دھواں دھار تقریریں کیں۔ مجھے یہ سب سن کر بہت غصہ آیا کہ ایک ایسا شخص ہم جنس افراد کی شادی کے خلاف تبلیغ کررہا ہے جو پردے کے پیچھے خود ہم جنسپرست ہے اور مجھے اس شخص سے گزشتہ تین برس سے ہر ماہ ہم بستری کا معاوضہ مل رہا ہے جہاں دنیا میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہاں ہم برصغیر کے باشندے بھی کیوں پیچھے رہیں۔
گزشتہ دنوں بھارت کے دارالحکومت سے یہ خبر آئی تھی کہ ہزاروں افراد نے ہم جنس پرستی کی حمایت میں ”نیشنل پرائیڈ“ کے جھنڈے تلے دہلی کی سڑکوں پر مارچ کیا۔ اس مارچ میں بھارت اور بیرون بھارت سے قریباً تین چار سو نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں نے حصہ لیا۔ اس رنگا رنگ مارچ میں شریک افراد ”ہندو مسلم سکھ عیسائی گے بائی سیکشوئل بھائی بھائی“ اور بین الاقوامی نعرہ ”ہم ہوں گے کامیاب“ کے نعرے بلند کر رہے تھے۔ ان افراد کا مطالبہ تھا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 377 کے تحت ہم جنس پرستی کو مجرمانہ فعل قرار دینے والے قانون کو کالعدم قرار دیا جائے اور ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت دی جائے۔ مارچ میں شریک ایک انگریزی روزنامہ کے صحافی نے بتایا کہ یہ جلوس دراصل ہم جنس پرستوں کو حوصلہ دینے اور بیداری پیدا کرنے کے لئے نکالا گیا ہے۔ واضح رہے کہ 29 جون کو دنیا بھر میں ہم جنس پرست ”گے پریڈ“ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں ایمسٹرڈیم اور کیلی فورنیا کے ”گے پریڈ“ کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔
ادھر کینیڈا میں مقیم برصغیر کے تارکین وطن جس میں کشور حسین شادباد کے باشندے بھی شامل ہیں، نے ایک شاندار ”گے مارچ“ کا اہتمام کیا۔ اس جلوس کو بھی ”پرائیڈ ٹورانٹو“ کے بینر تلے نکالا گیا۔ یہ جلوس شرکاء کی تعداد کے اعتبار سے ایمسٹرڈیم کے بعد دنیا میں دوسرا بڑا جلوس تھا اس جلوس کی ایک خاص بات یہ تھی کہ اس میں بڑی تعداد میں پاکستانی و بھارتی ہم جنس پرستوں سمیت جنوبی ایشیا کے بہت سے باشندوں نے شرکت کی۔ بھارتی گانوں پر رقص کرتے ہوئے یہ ”دو دشمن ملکوں“ کے ”گے اور لزبین“ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر محبت کے باغ کھلا رہے تھے۔ پریڈ میں شامل فردوس علی نے بتایا کہ: ”ہم کینیڈا میں ہندوستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایڈز کے مریضوں کے لئے بھرپور کام کررہے ہیں“۔ ”گے“ افراد کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایک بات جو سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جنس پرستوں کی شادیوں کی مخالفت میں پہلے سے کمی ہے۔ یورپ اور امریکہ کے گے شادیوں پر بندش کیلئے امریکی آئین میں ترمیم کی مخالفت کی گئی ہے۔ لیکن برطانیہ نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ برطانوی شہرت حاصل کرنے والے ہم جنس پرست ”ہم جنس پرستوں کی شادی“ کے قانون میں سقم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ شادی رجسٹراروں نے بتایا ہے کہ اگر غیرملکی روایتی شادی کی بجائے پارٹنر شپ کے ذریعے شہریت حاصل کرنا چاہیں تو انہیں کم مشکل ٹیسٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ یورپ کے بیشتر ملکوں میں ہم جنس پرستوں کو امیگریشن کے وہی حقوق حاصل ہیں جو دوسرے شادی شدہ لوگوں کو ہیں اور وہ دو سال کے بعد بغیر کسی تگ و دو کے شہریت حاصل کرسکتے ہیں جس کا واضح مفہوم یہ ہے کہ ایک غیرملکی (گے یا عام فرد) برطانوی شہری (گے یا عام فرد) کے ساتھ دو سال رہ کے برٹش بن سکتا ہے اور یہ کہ بعد میں وہ طلاق بھی دے سکتا ہے، اس کے بعد دونوں الگ الگ ”ہنسی خوشی“ زندگی گزار سکتے ہیں۔