میں بزدل نہیں ہوں

September 05, 2018

شہریار خان

ہمیشہ میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ جب بھی دفتر سے جلدی نکلنے کا قصد کیا اسی روز تاخیر ہوتی ہے۔ یہ صحافت بھی کبھی کبھی آپ کے لیے مصیبت بن جاتی ہے، اس سے اچھا تو سرکاری دفتر کا چپراسی ہوتا ہے جو اپنی مرضی سے چھٹی تو کرسکتا ہے۔ خالد جلدی جلدی خبر مکمل کرتے ہوئے گھڑی کی جانب دیکھ کربڑبڑایا۔

آج کافی عرصہ بعد خالد نے گاؤں جانے کے لیے اپنے ایڈیٹر سے چھٹی مانگی تھی، مگر ہمیشہ کی طرح صاحب کا وہی جواب ،اتنا کام ہے ، کچھ معلوم بھی ہے شہر میں کیا کیا ہورہا ہے؟ کیسے چھٹی دے دوں؟

’’سر ،میں کیا اس دفتر میں اکیلا کام کرنے والا رہ گیا ہوں؟ اور بھی رپورٹرز ہیں، سب چھٹی کرتے ہیں، میں نے ڈھائی ماہ سے اپنے بچوں کی شکل نہیں دیکھی‘‘۔ خالد نے ایسے کہا کہ ایڈیٹر صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔

’’اچھا چلو ٹھیک ہے چلے جاؤ، مگر یہ دو خبریں بنا کر دے دو پہلے۔‘‘ ایڈیٹر صاحب نے اسے کئی صفحات کی انگریزی خبر پکڑا دی۔ ترجمہ کرتے کرتے اس کے پسینے چھوٹ گئے۔

’’کم بخت دفتر ہے ، اور ایسا ہی سڑیل باس ہے۔ صرف اس وقت آپ اس دفتر کے لیے اہم ہوجاتے ہیں جب آپ چھٹی مانگیں، ورنہ سوال یہ پوچھتے ہیں کہ تم کرتے ہی کیا ہو؟ ‘‘خالد خبر بناتے بناتے بڑبڑایا تو رپورٹنگ روم میں سب ہی ہنس پڑے۔

خالد حسین ایک بڑے روزنامہ میں کافی عرصہ سے رپورٹر کے طور پر کام کررہا تھا اور بسلسلہ ء روزگار اسلام آباد میں مقیم تھا لیکن بیوی، بچے، ماں باپ کے پاس گاؤں میں تھے، اسی لیے کئی ماہ گزر جاتے تھے، بچوں سے ملے ہوئے۔ بیوی تو خیر اب دوری کی عادی ہوچکی تھی، مگر اس کے بچے یہ ماننے کو تیار ہی نہ تھے کہ کوئی ایسی ملازمت بھی ہوسکتی ہے جو انسان کو اپنے بچوں سے اتنا عرصہ ملنے نہ دے۔ویسے بھی گاؤں آنا جانا کوئی آسان کام نہیں تھا، تنخواہ اتنی نہیں تھی کہ گھرپر ماں باپ کو بھی بھیجو، بیوی کو بھی خرچہ دوں، پھر بہنوں کے جہیز بھی جوڑوں اور اسلام آبادجیسے مہنگے شہر میں گزارا بھی کروں، مگر بچوں کو کیسے سمجھاؤں؟ نوکری ہی بدل کر دیکھ لوں لیکن صحافت کے علاوہ کچھ آتا بھی تو نہیں، خالد اکثر چڑ کے سوچا کرتا۔

نہ تنخواہ بڑھتی ہے نہ کہیں اور سے ملازمت کی پیشکش ہوتی ہے، کروں تو کیا کروں،بس کے انتظار میں کھڑے کھڑے بھی یہی سوچ خالد کا پیچھا کرتی رہی۔ امتیازی نمبروں کے ساتھ ایم اے اردوپھرایم اے صحافت کی ڈگری لینے کے کافی عرصہ بعدجب ملازمت کی پیشکش ایک بڑے ادارےکی جانب سے کی گئی تو اس نے کیسے کیسے خواب آنکھوں میں سجا لیے تھے۔ چھوٹی بہنوں کی شادی کروں گا، ماں باپ کو حج کراؤں گا۔ اسلام آباد میں خوب ٹھسے سے رہوں گا، مگر اسے کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا،جس صحافت کے بڑے چرچے ہیں وہ تو آگ کا دریا ہے، صرف عشاق ہی تیر کے پار جا سکتے ہیں۔

جوں ہی خالد فیض آباد پہنچا تو اسے احساس ہوا وہ کسی ویرانے میں آگیا ہے۔ یہاں کوئی بس ویگن نظر نہیں آرہی، گھڑی پر نظر ڈالی تو رات کا ایک بج رہا تھا۔ اف خدایا اتنا لیٹ کر دیا ان خبروں نے وقت کا پتہ ہی نہ چلا۔

اڈے سے معلوم ہواکہ آج ایک روز کی پہیہ جام ہڑتال کی کال ہے، اس لیے کوئی گاڑی نہیں چلے گی۔ ایسا کریں ریلوےا سٹیشن چلے جائیں ، وہاں سے رات کی آخری ٹرین دو بجے چلے گی، یہی واحد گاڑی ہے۔ ملازم نے ہمدردی کے ساتھ مشورہ دیا تو خالد بوجھل قدموں کے ساتھ ٹیکسی کی جانب بڑھتا گیا۔ وہ اب اتنا تنگ آچکا تھا کہ اس نے ٹیکسی والے کے ساتھ بھاؤ تاؤ بھی نہیں کیا، ورنہ خالدتو ٹیکسی کو ویگن کے کرایہ میں بک کرنے کا عادی تھا، اس کے دوست کہتے تھے وہ جتنی دیر ٹیکسی والے سے کرایہ کم کراتا ہے اتنے میں کوئی بھی شخص اپنی منزل تک پیدل ہی پہنچ سکتا ہےلیکن آج وہ تھک چکا تھا اور اب کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔

ریلوےا سٹیشن پہنچ کے جلدی سے کرایہ ادا کرکے خالد ٹکٹ لینے کھڑکی پر پہنچا تو معلوم ہوا، آخری گاڑی مکمل بک ہے اور ایک سیٹ بھی خالی نہیں۔ آخر وہ ہی پریس کارڈ کام آیا، گارڈ کو دکھایا تو اس نے کہا،’’ بھائی، سیٹ تو نہیں، مگر آپ ٹرین میں کہیں بھی بیٹھ جائیں مجھے اعتراض نہیں۔‘‘

’’ بڑا احسان کیا ہے حاتم طائی کے سالے نے، کہیں بھی بیٹھ جانا، جیسے مفت میں سیٹ دے رہا ہو، چلو پھر بھی گھر تو پہنچ جاؤں گا‘‘ ۔اس نے سوچا

گاڑی آنے پر خالد نے احتیاطاً تمام ڈبوں میں جھانک کر دیکھا شایدکہ کہیں جگہ ہو لیکن اسے آخری ڈبے میں ٹائلٹ کے سامنے ٹرین کے دروازے پر بامشکل جگہ ملی۔ جیسے ہی ٹرین چلی خالد نے جیب سے سگریٹ کی ڈبی نکالی اور تنہائی دور کرنے کے لیے سگریٹ سلگا لی۔۔۔ دروازے سے ٹیک لگا کر اس نے سوچا لکڑی کی سخت نشست پر بیٹھنے سے بہتر ہے یہاں دروازے میں بیٹھنا یہاں کم از کم ہوا تو آرہی ہے۔ کاش گاڑی ہوتی تو جب مرضی ہوتی گھر نکل جاتا۔۔۔۔ چلو، نسرین اور شبانہ کی شادی کرا دوں، پھر گاڑی بھی لے لیں گے، ابھی تو ان کی شادی کے لیے کمیٹیاں ڈالی ہوئی ہیں، پھر گاڑی خریدنےکے لیے بھی کمیٹی ڈال لیں گے، خالد نے سگریٹ باہر پھینکتے ہوئے سوچا۔اتنے میں اچانک بہت خوشگوار خوشبو اس کی ناک سے ٹکرائی، اس نے چونک کے دیکھا تو ایک انتہائی خوبصورت لڑکی نہایت زرق برق لباس میں کھڑی دکھائی دی، اسے یوں لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔

سنیئے،’’کیا آپ میری مدد کرسکتے ہیں۔‘‘ لڑکی نے گڑگڑاتے ہوئے کہاتو وہ اچانک بھیگی بلی بن گیا۔

’’میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟ ‘‘خالد نے پوچھا

’’میرا سوتیلا ماموں مجھے فروخت کرنے لے جارہا ہے اور میں اس کے چنگل سے چھٹکارا چاہتی ہوں‘‘۔ لڑکی خوفزدہ لہجے میں بولی

خالد کے ذہن میں اچانک کئی کہانیاں آنے لگیں، اس نے فوراً لڑکی کے پیروں کی جانب دیکھا ،کہیں وہ پچھل پیری تو نہیں۔ پیر تو سیدھے ہی تھے ،مگر خالد کے حواس قابو میں نہ رہے کوئی پولیس کیس ہو سکتا ہے اور میں کسی چکر میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔’’بی بی، مجھے معاف کرو، کسی اور سے پوچھو۔‘‘ خالد نے روکھے لہجے میں جواب دیا۔

لڑکی کی آنکھوں سے آنسو نہیں رک رہے تھے۔’’میں خود کشی کو حرام سمجھتی ہوں، مگر اب مجبور ہوں،یہ کہتے ہی اس نے اچانک ٹرین سے چھلانگ لگا دی، لوہے کے ساتھ لوہا ٹکرانے کی آواز آئی اور ایک معدوم ہوتی چیخ، اس چیخ نے خالد کو گنگ کردیا، وہ کچھ بولنے سمجھنے سے قاصر ہوگیا، گویا ٹانگوں میں جان نہ رہی اور وہ آہستہ آہستہ ٹرین کے ٹائلٹ کے ساتھ سر رکھ کے رو دیا۔ وہ جس کے لیے صرف اپنے دکھ اور تکالیف سب سے اہم تھیں وہ آج ایک اجنبی کے لیے رو رہا تھا۔

سفر تو ختم ہوگیا خالد حسین گھر بھی پہنچ گیا، مگر وہ آخری ٹرین کا آخری ڈبہ اور اس لڑکی کی وہ آخری چیخ اس کی زندگی سے گویا چپک کر رہ گئے۔

اس کا احساس ندامت ہر گزرتے دن کے ساتھ زیادہ ہوتا رہا، خود کو مضبوط اعصاب کا مالک سمجھنے والا روز رات کو اٹھ کر رو رو کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے لگا،مگر بار بار جب وہ آئینہ میں دیکھتا تو وہ لڑکی اس سے کہتی تھی،’’ تمہاری بزدلی کی وجہ سے میری جان گئی‘‘۔ اکثر سوتے میں جب خالد کی آنکھ کھلتی تو لب پر یہی جملہ ہوتا ،’’میں بزدل نہیں ہوں، میں بزدل نہیں ہوں۔‘‘

دن ایسے ہی گزرتے رہے، اب خالد حسین ایک بڑے ٹی وی چینل سے وابستہ ہوچکا تھا اور اس کی معاشرتی مسائل پر مبنی نیوز رپورٹس بے حد مشہور ہورہی تھیں۔

ان ہی دنوں ملک کے شمالی علاقوں میں سیلاب آیا تو خالد نے سیلاب کی کوریج کے لیے سب سے پہلے اپنا نام خود پیش کیا، جب کہ دیگر رپورٹرز سیلابی علاقوں میں جانے سے کترارہے تھے، خالد نے شہر بھی وہ چنا ،جس میں سیلاب نے سب سے زیادہ تباہی مچائی ہوئی تھی۔ ایک روز اطلاع ملی کہ اس شہر سے ملحق گاؤں میں حفاظتی بند میں شگاف پڑ گیا ہے اور بڑے سیلابی ریلے کا شہر میں داخل ہونے کا امکان ہے۔ خالد حسین کا صحافی فوراً بیدار ہوگیا ،لائیو کوریج کے لیے دفتر میں اطلاع کے بعد تمام ٹیم جب وہاں پہنچی تو کوئی اور ٹی وی چینل کےنمائندےنہیں تھے،خالد کی لائیو کوریج کے بعد دیگر چینلز نے بھی سیلاب کے لائیو مناظر دکھانے کے لیے اپنی ٹیمیں اس علاقے میں بھیج دیں۔

تمام چینلز کے رپورٹرز لائیو کوریج کررہے تھے ، خالد بھی اپنے چینل پر حالات بیان کررہا تھا کہ اچانک اس کے پیچھے ایک خاتون کا ننھا بچہ اچانک پانی کے ریلے میں گرگیا۔۔۔ خاتون نے مدد کے لیے چیخ و پکار شروع کی تو تمام کیمروں کا رخ اس خاتون کی جانب ہوگیا اور تمام رپورٹرز نے اپنی بات کا رخ خاتون کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی جانب موڑ دیا، ایسے میں اچانک ایک بار پھر خالدکے اندر چھپے احساس ندامت نے اس کا ضمیر جھنجھوڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے خالد اپنا مائیک چھوڑ کر سیلابی ریلے میں کودگیااور بے رحم لہریں اسے بھی پلک جھپکتے ہی اپنے ساتھ بہا لے گئیں،تمام رپورٹرز کی بات کا رخ دوبارہ گھوما اور اب ان کا مرکز خالد حسین کی بہادری تھی، کیمرہ مینوں اور رپورٹرز نے تقریباً روتے ہوئے اپنا کام مکمل کیا۔خالد حسین جو پیراکی کے فن سے نا بلد تھا صرف مدد کے جذبہ کے تحت پانی میں کود کے امر ہوگیا۔۔۔ دو روز بعد جب خالد کی لاش ملی تو اس کے چہرے پراحساس ندامت نہیں اطمینان تھا اور اس کی کھلی ہوئی آنکھیں کہہ رہی تھیں ۔۔۔ میں بزدل نہیں ہوں، میں بزدل نہیں ہوں۔