اک ولولۂ تازہ دیا تونے دلوں کو

September 09, 2018

کئی سال پہلے میں جناب مشتاق احمد یوسفی کے ہاں حاضری دینے جارہا تھا۔ راستے میں منیر نیازی صاحب کے انتقال کی خبر ملی۔ بہت سی شاموں کی یاد ستانے لگی۔ مطلع وارد ہوا:

اٹھ گئے رند قرینے والے

رہ گئے عام سے پینے والے

گلشن سے ڈیفنس جاتے جاتے غزل پوری ہوگئی:

ہیں کہاں خاص تھی مستی جن کی

اپنے نشّے میں ہی جینے والے

یوسفی صاحب کو سُناکر داد بھی سمیٹی۔ حالانکہ اس معاملے میں وہ بہت محتاط تھے۔

یہ مطلع آج کل بار بار یاد آرہا ہے۔ کتنی بے اصولی کہ بوتلوں میں شراب بچی ہوئی پائی جائے۔ یہ میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے۔ کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے ۔ محسن بھوپالی کا قول فیصل۔پاکستان میں آداب مے نوشی یہ ہیں کہ جتنی بھی بوتلیں ہوں وہ پوری کی پوری نوش جاں کرلی جائیں۔ یہاں کوئی ملزم یا مجرم جرم کی نشانی نہیں چھوڑتا۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ نیب۔ ایف آئی اے کو کتنی مشکلات پیش آتی ہیں۔ شراب رکھنا۔ لے جانا قابل دست اندازی پولیس ہیں۔ قرینے سے پینے والوں کو چاہئے کہ ایسے ہم مشربوں کی مذمت کریں۔ جو کچھ بچا بھی لیتے ہیں۔

اب تو اتنی بھی میسر نہیں میخانے میں

جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں

اسلام آباد میں پولیس رات کو لوگوں کے منہ سونگھا کرتی تھی۔ اعتزاز احسن جب1988 میں وزیر داخلہ بنے تو انہوں نے بڑی مشکل سے پولیس کی یہ عادت چھڑوائی۔ پاکستان ایک غیر معمولی ریاست ہے۔ یہاں حالات ہمیشہ غیر معمولی رہتے ہیں۔ اس لیے یہاں اکثر واقعات معمول کے خلاف ہوتے ہیں۔ قانون یہاں چند خاندانوں میں گھر کی لونڈی بن کر رہ گیا ہے۔ قائد اعظم کی فکر اور تعلیمات کو ہم احترام دیں یا نہ دیں۔ لیکن ان کی تصویر کو جی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ اس کے لیے سب کچھ کر گزرتے ہیں۔ پیسہ سب سے بڑی قوت ہے۔ پیسہ جیل کو گھر سے زیادہ پُر آسائش بنادیتا ہے۔ آپ رات جیل سے باہر گزار کر دن میں جیل میں واپس جاسکتے ہیں۔ پیسے والے جیل جاتے ہیں بیمار ہوجاتے ہیں۔ پھر اسپتال میں داخلہ حاصل کرلیتے ہیں۔ اسپتال عشرت گاہیں بن جاتے ہیں۔

پیسے والا اب ہر محلّے میں عزت والا بن گیا ہے۔ چھوٹے علاقوں میں پھر بھی کچھ ادب آداب ہیں۔ اس لیے زیادہ پیسہ آجائے جو اس ملک میں ناجائز راستوں سے ہی آسکتا ہے۔ تو ڈیفنس۔ کلفٹن۔ گلبرگ۔ کا رُخ کیا جاتا ہے اس حمام میں سب عریاںسماسکتے ہیں۔

کسی حساب کی زد ہے نہ اختیار کی حد

کچھ ایسے لوگ مرے حلقۂ اثر میں ہیں

اب ایک دو سال سے یہ خاص لوگ بھی بڑے گھبرائے ہوئے ہیں اور خوف زدہ ہیں۔ بہت محتاط ہوگئے ہیں ۔ غالب نے کہا تھا درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہوجانا۔

جب چھوٹے بڑے عہدوں پر مامور۔ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے سرکاری ذمہ داران اپنے فرائض کی ادائیگی سے کوتاہیاں کررہے ہوں۔ اپنے سرکاری اختیارات چند لاکھ میں فروخت کررہے ہوں۔جب ان آسودہ حالوں کے لیے قانون کی گرفت ہی نہ ہو۔ ایک بڑی اکثریت کی زندگی اجیرن ہو۔ ایک طبقہ ایسا نسل در نسل پیدا ہوتا رہے جو جیسے چاہے قانون کی دھجیاں اڑائے۔ ایس ایچ او ۔ ٹریفک انسپکٹر۔ ایس ایس پی ۔ آئی جی۔ ڈی آئی جی۔ کمشنر۔ڈی سی اس کی جیب میں ہوں۔ سرکاری زمینوں پر قبضے کیے جارہے ہوں۔ سرکاری افسر سب کچھ دیکھ رہے ہوں۔ ان کے سامنے قانون کا جنازہ نکالا جارہا ہو۔

جب تعلیم بک رہی ہو۔ ڈگریاں نیلام کی جارہی ہوں۔ بورڈ میں پوزیشنوں کی قیمت لگ رہی ہو۔پرائیویٹ اسکول کتابوں اور کاپیوں کو من مانی قیمتوں پر بیچ رہے ہوں۔ جب ماہانہ فیس دس پندرہ ہزار روپے سے بڑھ کر تیس چالیس تک پہنچ جائے۔ اس کے باوجود ماں باپ کو ٹیوشن سنٹروں پر بھی اتنے ہی پیسے دینے ہوں۔ جب اپنی عمر بھر کی کمائی سے مشکل سے ایک پلاٹ خرید کر اس پر غریب ٹیچر اپنا مکان بنانے کی جرأت کرے تو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والے لاکھ دو لاکھ رشوت کے بغیر اس کا نقشہ منظور نہ کررہے ہوں۔

وہ جنہیں بھیڑوں کے گلے کی نگہبانی سونپی جائے۔ وہی بھیڑیے بن رہے ہوں جو ریاستی زمینوں کے امین ہوں وہی زمین کے کاروبار میں مصروف ہوجائیں۔ جہاں تھانے بکتے ہوں۔ نوکریاں فروخت ہوتی ہوں۔ جہاں پولیس تبادلوں۔ سرکاری افسروں کے تبادلے پر لاکھوں کے نذرانے اور وہ بھی بیرون ملک وصول کیے جاتے ہوں کہ پاکستان پارسائوں کی مقدس زمین ہے۔ یہاں ناجائز آمدن وصول کرنا انہیں غیر شرعی لگتا ہے۔ جہاں درسگاہیں بھی ناجائز آمدنی کا ذریعہ بن جاتی ہوں۔ علمائے دین۔ اسکولوں کالجوں یونیورسٹیوں کے مالکان کروڑوں کی گاڑیوں میں سفر کرتے ہوں۔ جہاں کلیدی اسامیاں اہل لوگوں کی بجائے سمدھیوں۔ بھائیوں اور لنگوٹیے یاروں میں بانٹی جاتی ہوں۔

جہاں با اثر لوگوں کے ضمیر اور پندار کی یہ قیمت دیکھ کر غیر ملکی کمپنیاں۔ بین الاقوامی طاقتیں اور دوسری قوموں کے خفیہ ادارے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہوں۔جہاں پیسہ غیر ملکی سازشوں کو بھی کامیاب بنادیتا ہو۔

وہاں اگر اعلیٰ منصب پر فائز کسی پاکستانی کا ضمیر جاگ اٹھتا ہے اور وہ حرکت میں آجاتا ہے تو وہ با الیقیں ہم سب غافلوں ۔ کوتاہیوں کے مرتکب ہم وطنوں کا کفارہ ادا کررہا ہوتا ہے۔ پھر یہ تبصرہ بے معنی ہوجاتا ہے کہ یہ اسکے اختیار میں ہے یا نہیں۔جس ملک میں آئین کو بارہ صفحے کی کتاب کہہ کر بار بار پھاڑا جاسکتا ہے۔ جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا ہے۔ وہاں اگر ایسے غیر معمولی اقدامات کسی ادارے یا کسی فرد واحد کی طرف سے ہورہے ہیں تو وہ عین منطقی اور معروضی ہیں۔

کتنی منتخب حکومتیں فوجی سرکاریں آئیں۔ گزشتہ پچاس برس میں کوئی ڈیم نہیں بن سکا۔ ڈیم بنانا اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ لیکن جن کی ذمہ داری ہے وہ غفلت یا مصلحت کے شکار ہیں۔ یا سازش کا حصہ ہیں ۔ زمینیں بنجر ہورہی ہیں۔ دریائوں میں ریت بھر رہی ہے۔ بھارت ڈیم پر ڈیم بنارہا ہے۔ تو کیا ایک روشن ضمیر انہی غافلوں کے نقش قدم پر چلے۔ اپنے ضمیر کو جبراً سُلا دے۔ ڈیم تو انجینئر ہی بنائیں گے لیکن وہ آپ کے اندر اس شدید ضرورت کا احساس پیدا کررہا ہے۔ اس منصوبے کی اپنائیت بلکہ ملکیت دے رہا ہے ۔

آپ کہتے ہیں کہ کرپشن اس ملک کودیمک کی طرح چاٹ گئی وہ اس تباہ کن خرابی کے خلاف صرف آواز بلند نہیں کررہا جو اس کے اختیار میں ہے وہ کررہا ہے۔ کہا جاتا تھا کہ چھوٹے لوگوں پر سب ہاتھ ڈال دیتے ہیں اگر وہ وزیر اعظموں۔ سابق صدور۔ وزرائے اعلیٰ۔ وفاقی وزراء۔ کھرب پتیوں کو کٹہرے میں کھڑا کررہا ہے تو کیا برسوں سے یہی شکوے شکایت کرنے والوں کو اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہونا چاہئے۔

کہیں سے تو ابتدا ہوگی۔ کوئی تو میدان میں آئے گا۔ دوسری پارٹی کا بندہ گرفت میں آئے تو آپ کہیں یہ مکافات عمل ہے۔ اپنی پارٹی کا پکڑا جائے تو یہ آئینی حدود سے تجاوز ہے۔ صرف اور صرف ملک صرف اور صرف قانون ہمارے سامنے محور و مرکز کیوں نہیں ہوتا۔میں تو اقبال کا ہم آواز ہوں۔

اک ولولۂ تازہ دیا تونے دلوں کو

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)