کاروکاری: چار زندگیاں، قبیح رسم کی بھینٹ چڑھ گئیں

September 16, 2018

سندھ سمیت دیگر علاقوں میں خواتین کو ان ہی کے عزیز و اقارب کی جانب سے خاندان کی عزت و ناموس کے تحفظ کے نام پر قتل کیا جاتا ہے، جسے ’’کاروکاری‘‘ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قاتلوں کا ایقان ہوتا ہے کہ ان کی شناخت خاندان کے نام و شہرت سے جڑی ہے۔ اس کی وجہ سے جب بھی خاندان کو بدنامی کا اندیشہ ہوتا ہے،قریبی رشتے دارہی قاتل بنتے ہیں۔کاروکاری کی رسم کے خاتمے اور بے گناہ خواتین کو ہلاکت سے بچانے کے لیے قانون سازی تو ہوئی لیکن حکومتی سطح پران قوانین کا اطلاق کرانےکے لیے کوئی بھی کوشش نہیں کی گئی۔دو سال قبل پارلیمنٹ نے کاروکاری کے خلاف بل پاس کیا ، جس میں کہا گیا تھا کہ غیرت کے نام پربے گناہ خواتین کی جان لینے والے اب کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوںگے ۔ اس جرم کی سزا پھانسی یا عمر قید ہو سکتی ہے۔مذکورہ قانون پاس ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے اس کی دفعات پر عمل درآمدکے لیے کوئی بھی پیش رفت نہیں کی گئی۔

غیرت کے نام پر قتل کا تازہ واقعہ تھرپارکر کے ضلعی ہیڈکواٹر مٹھی میں پیش آیا جس میں ایک سیاسی جماعت کے ڈسٹرکٹ انفارمیشن سیکریٹری اور موجودہ ایم این اے ڈاکٹر مہیش کمار ملانی کے پرسنل اسسٹنٹ،چندر کمار شرماکو ایک شخص سیتارام کولہی نے دوست کی رہائش گاہ سے بلاکرکھلے عام گولیاں مارکر قتل کردیااور موقع واردات سےفرار ہوگیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرکے کئی افراد کو شبہ کی بنیاد پر حراست میں لے لیا ۔لیکن تحقیقات کے دوران جب سی سی ٹی وی کیمرے کی فوٹیج دیکھی گئیں ، تو معلوم ہوا کہ اس کو ایک نوجوان سیتارام کولہی نے اپنی بیوی رینا کماری کے ساتھ ناجائز تعلقات کے شبہے کی بنیاد پر قتل کیا ہے ۔ پولیس کے مطابق ،رینا کناری سرکاری ملازم ہے اور خود مٹھی کے ایک سرکاری اسپتال میں ایل ایچ وی کے فرائض انجام دے رہی ہے۔پولیس کی زیر حراست قاتل، سیتارام نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ میری بیوی سے چندر کمار شرما کے ناجائز تعلقات تھے جس وجہ سےاس نے اسے غیرت کے نام پر قتل کردیا ۔ اس نے کہا کہ اگر مجھے پولیس کی جانب سے تھوڑی سی مہلت اور مل جاتی تو میں اپنی بیوی رینا کماری اور ساس کوبھی قتل کردیتا ۔اس نے کہا کہ مجھے اس قتل پر کوئی شرمندگی نہیں ہے۔

قتل کی دوسری واردات عمر کوٹ میں ہوئی جہاںایک اتائی ڈاکٹر پہلاج کولہی کو، گوٹھ سرور آرائیں، نزد ولیداد پلی میں کچھ لوگوں نے بلاکرسخت تشدد کرنے کے بعد اسے ذبح کردیا اور اس کی لاش قریبی جنگل میں پھینک دی گئی۔ بودرفارم پولیس نے اطلاع ملنے پرلاش اسپتال پہنچائی اور پوسٹ مارٹم کے بعد ورثاء کے حوالے کردی۔لاش جب مقتول کے گھر پہنچی تو علاقے میں کہرام مچ گیا اور لوگ مشتعل ہوکر لاش کو لے کر عمر کوٹ کی مرکزی شاہ راہ پر پہنچے اور اللہ والا چوک پر میت ر کھ کر مظاہرہ کیا اور دھرنا دیا، جس کی وجہ سے وہاں 6گھنٹے تک ٹریفک جام رہا۔ پولیس حکام نے وہاں پہنچ کر مقتول کے ورثاء سے مذاکرات کیے اور قاتلوں کی جلد گرفتاری کرنے کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے ۔

بودر فارم پولیس نے مقتول کے بھائی مگھن کولہی کی مدعیت میں چار ملزمان ہیمن میگھواڑ، مدن میگھواڑ ،اللہ ڈنو گجر، شموں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرکے ہیمن میگھواڑ،اور مدن کو گرفتار کرلیاجب کہ دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

ایس ایچ او بودر فارم نے نمائندہ جنگ سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ عام لوگوں کا خیال ہے کہ مقتول اتائی ڈاکٹر پہلاج کولہی کو کاروکاری کے الزام میں قتل کیا گیا ہے مگر اس الزام کی تصدیق نہیں ہوسکی کیوں کہ واقعے کے عینی شاہدین گوٹھ سرور آرائیںسے نقل مکانی کرگئے ہیں ۔ہم مزید معلومات کیلئے کوشش کررہے ہیں تاکہ درست قاتلوں کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔