’’زندہ سیاروں‘‘ کی تلاش کا سفر

September 18, 2018

صادقہ خان

صدیوں سے انسان یہ سمجھتا آیا ہے کہ وہ ایک ایسی انوکھی دنیا کا باسی ہے، جو کائنات کا مرکز ہے ۔ لیکن جدید تحقیق سے اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کائنات میں لا تعداد ستارے اور کہکشائیں موجود ہیں اور ہمارا سیارہ زمین ایسے ان گنت سیاروں میں سے ایک ہے جہاں زندگی پنپ سکتی ہے۔ ماہرین ِ فلکیات ایک طویل عرصے تک اس امر پر یقین رکھتے رہے کہ زندگی کی ابتدا اور نشونما کے لیے ایسے سیارے ہی موزوں ہیں جہاں زمین کی طرح پانی وافر مقدار میں موجود ہو ۔ فلکیات کی اصطلاح میں ایسے سیاروں کو ’’ سپر ارتھ‘‘ کہا جاتا ہے جہاں زیر ِ زمین یا سطح زمین پر پانی موجود ہو۔لیکن حال ہی میں ہونے والی تحقیق سے یہ بات سامنےآئی ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ یہ سمندر جیسے مائع سے ہی بھرا ہوا ہو جو ہائیڈروجن اور آکسیجن کا مرکب ہے بلکہ یہ سمندر ی لاوا بھی ہو سکتا ہے۔ماہرین فلکیات کے مطابق اسے سمندر میں بلند در جہ ٔ حرارت کے باعث سیاروں کی چٹانیں پگھل کر لاوے کی شکل میں جمع ہوتی رہتی ہیں، یا سمندر مائع امونیا سے بھرا ہوا بھی ہو سکتا ہے ۔ لاوے کا سمندر مشتری کے چاند 'لو ' پر مشا ہدہ کیا گیا ہے جب کہ امونیا کے سمندر کی دریافت زحل کے چاند ٹائٹن پر ہوئی تھی۔

اگرچہ اب تک دریافت شدہ سپر ارتھ یا اپنے ستارے کے ہیبی ٹیبل زون میں واقع ستاروں میں زمین ہی ایسا سیارہ ہے جہاں پانی اوپر کی سطح پر وافر مقدار میں موجود ہے اور یہی خصوصیت کائنات میں ایک انوکھا مقام عطا کرتی ہے ۔ لیکن اب تک کئی ایسے ایگزوپلینٹ دریافت کیےجا چکے ہیں جہاں پانی کی موجودگی کے علاوہ ان کا ماحول زندگی کے لیے موزوں نظر آتا ہے، مگر ناسا کے فلکیاتی حیاتیات کے پروگرام کے تحت کی گئی تحقیق کے مطابق ہماری کائنات میں کئی ایسے سیارے موجود ہیں جو مکمل طور پر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ جنہیںاوشین ورلڈ یا واٹر ورلڈ کا نام دیا گیا ہے ۔ ابتدا میں جب ایسے سیاروں کی دریافت ہوئی تھی تو سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہ زندگی کی نمو یا نشونما کے لیے موزوں نہیں ہیں، کیو ں کہ یہاں معدنیات کے علاوہ ہائیڈروجن ، آکسیجن اور دیگر اہم گیسوں کی مسلسل پیداوار کا وہ عمل جاری رہنا ممکن نہیں ہے،جس کی وجہ سے زمین کا ماحول زندگی کے لیےسازگار ہے۔لیکن تازہ ترین سائنسی تحقیق کے مطابق کسی اور سیارے پر موجود سمندر میں بے شک نمکیات اور گیسوں کا جیو کیمیکل سائیکل کا یہ نہ ہو رہا ہو پھر بھی یہ واٹر ورلڈ زندگی کی نشونما کے لیےکئی ارب برس تک موزوں رہ سکتی ہیں لیکن اس کے لیے یہ شرط ضروری ہے کہ یہ واٹر ورلڈ کسی سرخ ڈوارف ستارے کے گرد محو ِ گردش ہوں ۔ ماہرین کے مطابق پانی سے مکمل طو ر پر گھرے ہوئے سیارے پر تحقیق کے دوران ایسے ہزاروں نمونوں کا تجزیہ کر کے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ سیارے زندگی کی نمو کے لیے ہماری توقع سے زیادہ مناسب ہیں ،جس کے بعد کئی عشروں سے فلکیات خاص کر فلکیاتی حیاتیات پر چھا یا ہوا یہ جمود ٹوٹ گیا کہ کائنات میں زندگی کا سراغ لگانے کے لیے زمین جیسے سیاروں کو ہی تلاش کرنا چاہیے ، واضح رہے کہ دیگر ماحولیاتی موافقت کے علاوہ زمین کا ایک بڑا حصہ پانی سے گھرا ہوا ہے لیکن ایک حصے پر خشکی بھی موجود ہے، جو اس کی خوش بختی سمجھی جاتی ہے۔

ٹیکنالوجی میں روز افزوں ترقی کے ساتھ اب سائنس دانوںکو جدید طاقتور ٹیلی ا سکوپ دستیاب ہیں، جن کی مدد سے وہ ہمارے نظام ِ شمسی سے باہر ہزاروں سیاروں کا با آسانی جائزہ لے کر ان کے ماحول کے بارے میں اہم معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ سائنس داںعموماً دوسرے نظام ِشمسی پر تحقیق کرتے ہو ئے ایسے سیاروں کو خاص طور پر تلاش کرتے ہیں جو سائز میں عام سیاروں سے کافی چھوٹے ہوتے ہیں، مگر چوں کہ ان کی تمام خصوصیا ت سیاروں والی ہی ہوتی ہیں اس لیے انہیںایگزوپلینٹ کہا جاتا ہے۔ اس تحقیق سے سائنس دانوں کو گہرائی میں جا کر یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ زمین پر ابتدائی ادوار میں زندگی کے آغاز اور پھر بتدریج ارتقا ء کا عمل کس طرح ہوا ہوگا ۔ لیکن اس دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ جن ایگزوپلینٹس پر تحقیق کی جارہی تھی ان میں سے کئی کا ماحول زمین سے بالکل مختلف تھا اور کئی سیارے سینکڑوں میل گہرائی تک سمندر کے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے ،مگر اس کے باوجود وہاں زندگی کی نمو کے امکانات موجود ہیں ۔

ان واٹر ورلڈ پر تحقیق کرنے والے پنسلوینیا اسٹیٹ اور شگاگو یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق اگرچہ یہ امر حقیقت سے بعید نظر آتا ہے کہ ایسے سیارے جو سینکڑوں میل گہرائی تک پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں اوروہاں خوردبینی حیات بھی نشونما پا سکیں ۔ لیکن اصل میں ایسا ممکن ہے ،کیوں کہ کسی بھی سیارے پر زندگی کی ابتدا کے لیے ایک مخصوص عرصہ درکار ہوتا ہے جو عموماً اربوں سالوں پر محیط ہوتا ہے اور چوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ سیارے کو دستیاب روشنی اور حرارت میں کمی بیشی ہو تی رہتی ہے۔ اس لیے سائنس داں ایسے سیاروں کو اپنی تحقیق کا مرکز بناتے ہیں جہاں مناسب مقدار میں پانی موجود ہو اور دیگر ایسے عوا مل بھی کارفرما ہوں جن کے باعث وہاں کا ماحول لمبے عرصے تک نا قابل ِ تغیر رہے ۔

کسی سیارے کی ماحول دوست خصوصیات کو جانچنے کے لیےماہرین عموماً زمین کے ماحول والی خصوصیات کا پیمانہ استعمال کرتے تھے ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے سیارے زمین پر زندگی کے آغاز میں ایک طویل عرصہ لگا ۔ ابتدا میں ا س کا اندرونی درجۂ حرارت بہت زیادہ تھا ۔ لہذا ٰاسے ٹھنڈا ہونے میں کئی ملین سال لگے ۔ اس دوران یہاں کثرت سے موجود گرین ہاؤس گیسیں کیمیا ئی عمل سے نمکیات میں تبدیل ہوتی رہیں اور یہ کیمیا ئی عمل کھلی فضا کے بجائے آتش فشاں پہاڑوں کے اندر ہو ئے ۔ ان آتش فشاں پہا ڑوں کے پھٹنے سے نا صرف ان نمکیات کا اخراج ہوا بلکہ ماحول کو دستیاب منا سب حرارت بھی ملتی رہی۔

مگر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زمین پر ارتقاء کا یہ ماڈل نئی دریافت شدہ واٹر ورلڈ پر لاگو نہیں کیا جاسکتا جہاں بلند و بالا پہاڑی چوٹیاں یہاں تک کے آتش فشاں بھی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ لہٰذا سائنس داں کافی عرصے سے ایک ایسے نئے ماڈل پر کام کر رہے تھے، جس کے ذریعے ہزاروں کی تعداد میں موجود ایگزوپلینٹ پر اربوں سالوں پر محیط زندگی کی نمو کے عمل کی وضاحت کی جاسکے۔ تازہ ترین تحقیق کے مطابق ان واٹر ورلڈز کا ماحول چوں کہ اربوں سالوں تک کسی بڑی ماحولیاتی تبدیلی کے بغیر یکساں رہ سکتا ہے ۔لہٰذازمین کی طرح یہ بھی خوش قسمت سیاروں میں شمار کیے جاسکتے ہیں ۔

علاوہ ازیں یہ سیارے اس لیے بھی خوش قسمت ہیں ،کیوں کہ یہ اپنے ستارے کے ہیبی ٹیبل زون میں با لکل ٹھیک سمت میں واقع ہیں اور ساتھ ہی یہاں کاربن کی ایک مناسب مقدار بھی موجود ہے اور چوں کہ ان سیاروں کی چٹانوں میں دیگر نمکیات وافر مقدار میں موجود نہیں ہیں جو سمندر کے پانی میں تحلیل ہو کر کاربونیٹ بنا لیں، جس سے ماحول میں آزاد کاربن کی مقدا ر کم ہو جاتی ہے ۔ ان سیاروں پر ابتدا ہی سے پانی بہت زیادہ مقدار میں موجود تھا ۔لہٰذا یہاں سمندر سے فضا میں کاربن کی تحلیل اور پھر اس ماحول سے دوبارہ سمندر تک پہنچنے کا عمل بلا روک ٹوک جاری رہا۔ اس لیےماہرین کو ان کا ماحول زندگی کے لیےانتہائی سازگار محسوس ہورہا ہے۔ کسی بھی سیارے پر حیات کا آغاز خوردبینی جاندار سے ہوتا ہے اور اس کے لیے ایک مناسب وقت درکار ہوتا ہے۔ اس دورانیے کا انحصار وہاں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ پر ہے کہ یہ ابتدا میں کتنے عرصے تک سمندر، چٹانوں اور ماحول میں کیمیائی عمل سے دور رہتی ہے یعنی وہاں آزاد کاربن کتنے عرصے تک وجود برقرار ر کھتی ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ایسا طریقہ ضرور موجود ہے ،جس کے ذریعے کسی بھی سیارے کو لمبے عرصے تک اس طرح ہیبی ٹیبل رکھا جاسکتا ہے کہ وہاں زمین جیسا جیوکیمیکل عمل شروع نہ ہو سکے، جو کسی بھی سیارے پر زندگی کی ابتدا کے لیے لازمی سمجھا جاتا تھا۔

لیکن مزید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہےکہ اس طرح کی صورتحال کے لیے ضروری ہے کہ ان سیاروں کا مرکز ہمارے سورج جیسا کوئی ستارہ نہ ہو بلکہ اگر یہ کسی سرخ ڈوارف ستارے کے گرد محو ِ گردش ہیں تو قوی امکان ہے کہ اوپر بیان کردہ صورت حال کے مطابق یہ لمبے عرصے تک ہیبی ٹیبل رہ سکتے ہیں ،کیوں کہ ایسے ستارے ہمارے سورج کی نسبت روشن ہونے میں زیادہ وقت لگاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان سیاروں پر زندگی کی ابتدا کے لیے طویل عرصہ بآسانی دستیاب ہوتا ہے اور ان کے ماحول میں بھی تیزی سے تغیرات رونما نہیں ہوتے۔ ماہرین کے مطابق اس تمام عمل کے لیے جو امر سب سے زیادہ اہم ہے وہ ان کے ستارے کی روشنی کی درست سمت ہے۔ یعنی اگر ڈوارف ستارے کی روشنی سیارے پر صحیح سمت سے پڑ رہی ہو تو ایسا سیارہ زمین کی طرح خوش نصیب سیارہ سمجھا جا سکتا ہے جہاں زندگی کی ابتدا اور ارتقا ء ممکن ہے،مگر اس تمام تحقیق کا نچوڑ یہی ہے کہ سائنس داں اب تک کائنات میں کوئی ایسا سیارہ دریافت نہیں کر سکے جہاں زمین کی طرح انسان جیسی مخلوق آباد ہو، اگرچہ ہزاروں سیارے اپنے ہیبی ٹیبل زون میں موافق ماحول اور خصوصیات رکھتے ہیں، مگر وہاں بھی خوردبینی حیاتیات کی موجودگی کی باقاعدہ تصدیق اب تک نہیں ہو سکی۔