تم تو جان کہہ کر میری جان ہی نکال دیتے ہو

September 27, 2018

شیخو موڈ میں تھا، بولا ’’بتاؤ ہمارا قومی جانور کون سا‘‘ کہا ’’بھینس‘‘ کہنے لگا ’’وہ کیسے‘‘ بتایا ’’چھوٹے گھر سے وزیراعظم ہاؤس تک ہر جگہ موجود، دودھ دہی، لسی، مکھن، گوبر جلانے کے کام آئے، بوڑھی ہو جائے، کسی کام کی نہ رہے تو بھی قصائی اچھی قیمت دے جائے۔ کہنے لگا ’’مجھے پتا تھا تمہاری سوچ بھینس گوبر تک، لیکن ہمارا قومی جانور مارخور‘‘ عرض کی، اب تو ہم سب ہی مارخور ہو چکے، میری بات نظر انداز کرکے بولا ’’اچھا بتاؤ ہمارا قومی درخت کون سا‘‘ جواب دیا ’’بیری‘‘ کہنے لگا ’’وہ کیسے‘‘ کہا ’’وہ سنا نہیں کہ جس کے گھر بیری، اس گھر پتھر آئیں، جس طرح پوری دنیا ہمیں ’وٹے‘ مار رہی، لگ رہا ہمارا قومی درخت بیری ہی، بولا ’’تُک بندی کا شکریہ، مگر ہمارا قومی درخت دیودار‘‘ مجھے لاجواب پاکر خوشی سے نہال ہوتے شیخو نے اگلا سوال کیا، بتاؤ ہماری قومی سبزی کون سی، جواب دیا ’’آلو‘‘ تو کہنے لگا کہ ’’اس سے پہلے تمہارا out datedفلسفہ سنوں، خود ہی بتا دیتا ہوں، ہماری قومی سبزی بھنڈی، شیخو نے سگار سلگایا، لمبا کش لگایا، بولا ’’آخری سوال، ہماری قومی ڈش کون سی‘‘ میں نے کہا ’’بند گوبھی‘‘ کہنے لگا ’’وہ کیوں‘‘ میں نے کہا ’’پاکستان اسلامی ملک اور یہ واحد سبزی جو باپردہ‘‘ بولا ’’بونگی کا شکریہ، ہماری قومی ڈش نہاری‘‘ میں نے کہا ’’نہاری پکانے کا ایک آسان طریقہ سنئے، سالم بکرا نمک مرچوں سمیت دیگ میں ڈالیں، دیگ چولہے پر رکھیں اور ایک چُنا مُنا بم دیگ کے اندر ڈال دیں، نہاری تیار‘‘ اول تا آخر کشمیری شیخو نہاری کی اس’عزت افزائی‘ کو بھلا کیسے برادشت کرتا، بولا ’’اگر اس وقت میرے پاس ڈنڈا ہوتا تو میں تمہارا منہ چوم لیتا، یہاں منہ چومنے سے میری مراد وہی ہے جوتم سمجھ رہے ہو۔

شیخو خاموش ہوا تو میں نے کہا ’’اداکارہ میرا نے کہا ہے کہ لوگ پریشان نہ ہوں، میں خود ہی بتا دوں گی کہ شاہ رخ کے ساتھ کب کام کرنا ہے‘‘، شیخو بولا ’’میں کیا کروں‘‘ جواب دیا ’’سوچئے شاہ رخ کا کتنا بڑا مسئلہ حل ہو گیا، بے چارا سوچ سوچ پریشان ہو رہا تھا کہ نجانے میرا جی میرے ساتھ کب کام کریں گی، شیخو کو چپ دیکھ کر میں نے کہا ’’آپ نے سوشل میڈیا پر وہ تصویر دیکھی تھی جس میں شیریں مزاری اپنے دفتر میں سو رہی تھیں اور کسی ظالم نے تصویر کے اوپر لکھ رکھا تھا، تبدیلی سو رہی ہے، شیخو نے کہا ’’ہاں میں نے وہ تصویر دیکھی تھی لیکن مجھے بتانے کا مقصد‘‘، میں نے کہا ’’بتانا یہ تھا کہ اگلے دن ہی شیریں مزاری کے گھر سے یہ بیان آیا وہ سو نہیں رہی تھیں بلکہ اس وقت غصے میں تھیں کیونکہ جب غصے میں ہوتی ہیں تو وہ آنکھیں بند کر لیتی ہیں، شیخو بڑبڑایا ’’مجھے کیا پتا، عمران خان سے پوچھو یا ایاز صادق سے‘‘ میں نے کہا ’’آپ نے مجھ سے سوال پوچھے، اب میرے2 سوالو ں کے جواب بھی دیں‘‘، کہنے لگا، پوچھو، میں نے کہا ’’ان تین بیانوں میں نمبر ون جھوٹ کون سا، پہلا بیان عمران خان کا ’’پنجاب خوش نصیب اسے بزدار جیسا وزیراعلیٰ ملا‘‘ دوسرا بیان اسد عمر کا ’’منی بجٹ میں غریبوں پر نہیں، امیروں پر ٹیکس لگائے‘‘ تیسرا بیان شہباز شریف کا ’’موجودہ حکومت خوش قسمت اسے ورثے میں کوئی بحران نہیں ملا‘‘ میری بات ختم ہوتے ہی جھٹ سے بولا ’’شہباز شریف‘‘ میں نے کہا ’’آپ سے یہی توقع تھی‘‘ خیر میرا دوسرا سوال یہ کہ وزارت سنبھالنا مشکل یا بیوی، جواب آیا ’’بیوی‘‘ کیونکہ بیوی سنبھالنا آسان ہوتا تو آج میں پانچویں مرتبہ وزیر نہیں دلہا بنتا۔

شیخو کی بات میں واقعی وزن، ابھی چند دن پہلے ہمارے اس دوست نے جس کا قول کہ خاوند کا مذاق اور پیسہ دھیان سے اڑانا چاہئے، جس کا کہنا ضروری نہیں آپ بیگم کا دل جیتنے کیلئے تاج محل ہی بنوائیں، یہ کام برتن دھو کر بھی ہو سکتا ہے، جس کا تجربہ بیوی کا مزاج اور موسم بدلتے دیر نہیں لگتی، جسے سردیاں، گرمیاں دونوں پسند، سردیاں گرمیوں میں، گرمیاں سردیوں میں، جو بچپن سے ہی ایسا کہ جب حساب کی ٹیچر نے کہا ’’پڑھو گے نہیں تو نمبر بھی نہیں دوں گی‘‘ تو بولا ’’میرے پاس انگلش کی میم کا نمبر ہے مجھے آپکا نمبر چاہئے بھی نہیں‘‘، جس کا حافظہ ایسا کہ کالج دور میں لڑکیوں کے پیچھے چلتا چلتا اکثر بھول جاتا کہ ان کے پیچھے کیوں چل رہا، جو باتونی ایسا کہ یونیورسٹی دور میں ایک لڑکی سے کہنے لگا آپکی شکل میری تیسری بیوی سے ملتی ہے، لڑکی نے پوچھا آپ کی کتنی بیویاں ہیں، بولا، دو، جسکی حرکتیں شادی سے پہلے بھی خاوندوں جیسی اور جس کے پاس آج بھی کوئی خاتون ایک منٹ کھڑی ہو جائے پھر اس خاتون کو اپنا خاوند پہچاننے میں 10منٹ لگ جائیں، ہمارا یہ دوست میاں بیوی جھگڑے کی جو منظر کشی کرے، اسکے بعد تو کوئی کنوارا ہی ہوگا جو شادی کا نام لے، ذرا سنیے، خاوند دفتر سے آکر ابھی لائونج میں پوری طرح بیٹھ بھی نہ پایا کہ نظروں نظروں میں ایکسرے کرکے بیوی بولی، آج آپ اپ سیٹ کیوں لگ رہے ہیں۔ شوہر:اپ سیٹ تو نہیں، بس تھوڑی سی تھکاوٹ ہے۔ بیوی۔ یہ تھکاوٹ باہر بھی تھی یا گھر میں گھستے اور مجھ پر نظر پڑتے ہی ہو گئی۔ شوہر (نرمی سے) نہیں ایسی بات نہیں، بس آج دفتر میں کام زیادہ تھا۔ بیوی۔ ابھی فلاں دوست آجائے تو ایک سکینڈ میں ہشاش بشاش ہو جاؤ گے۔ شوہر۔ (بیزاری سے) اُف حد ہے۔ بیوی۔ (بات کاٹ کر) دیکھا دیکھا لہجہ، کبھی اس لہجے میں دوستوں سے بات کی۔ شوہر۔ (بے بسی سے) ارے کہاں کی بات کہاں لے جاتی ہو، دوستوں کو کیوں گھسیڑ رہی ہو، اپنی باتوں میں۔ بیوی۔ اپنی باتوں میں، ہماری باتیں اب کہاں، تم اور مجھ سے بات۔ شوہر۔ بات تو کر رہا ہوں اور کیا کروں۔ بیوی۔ مطلب مجھ پر احسان کر رہے ہو بات کرکے، بڑی مہربانی۔ شوہر۔ یار بس کرو، کیوں لڑ رہی ہو فضول میں۔ بیوی۔ فضول میں لڑ رہی ہوں اور میری باتیں لڑائی ہو گئیں، بس بہت ہو گیا، آج فیصلہ ہو ہی جائے۔ شوہر (حیران ہو کر) کیا فیصلہ، کونسا فیصلہ۔ بیوی۔ ہائے اللہ جی، اب تمہیں یہ بھی پتا نہیں، میں ہی ہوں جو دیوار سے سر پھوڑ رہی ہوں۔ شوہر۔ ارے تم نے کہا ہے فیصلہ ہو جائے، اب مجھے کیا پتا۔ بیوی (آنکھوں میں آنسو لاکر) یہ وقت بھی آنا تھا تمہیں کچھ پتا ہی نہیں، ہاں بھئی جب روز اک نئی نویلی مل جاتی ہو تو بیوی اور اسکی باتیں جائیں بھاڑ میں، دیکھو جب تمہیں میرا احساس ہی نہیں تو کیوں زبردستی کر رہے، چھوڑ دو مجھے۔ شوہر (بیوی کو ہچکیوں سے روتا دیکھ کر گھبرا کر) ارے بھئی اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے تو معاف کر دو، بیوی (بات کاٹ کر) کوئی غلطی ہو گئی ہے اور غلطی کا پتا بھی نہیں۔ شوہر۔ یار تم ہی بتا دو، میری غلطی کیا ہے۔ بیوی۔ کوئی ایک غلطی ہو تو بتاؤں، میر ی ہی قسمت خراب کہ تم سے شادی ہو گئی، یہ کہہ کر روتے روتے بیگم اُٹھی، دوسرے کمرے میں گئی اور پٹاخ سے دروازہ بند کر لیا، دو گھنٹوں بعد دروازہ دوبارہ کھلا، سرخ آنکھوں، بکھرے بالوں کے ساتھ بیگم برآمد ہوئی، حیران و پریشان خاوند کے ساتھ بیٹھ کر بولی ’’جانو آئی ایم سوری، میں کچھ زیادہ ہی بول گئی‘‘۔ شوہر (بے یقینی سے) نہیں کوئی بات نہیں، آئی ایم سوری ٹو۔ بیوی۔ میں تمہارے لئے چائے بناکر لاتی ہوں مگر جانو وہ تو تم نے بتایا ہی نہیں کہ آج تم اپ سیٹ کیوں۔

خیر جس عمر میں شیخو اس عمر میں تو بقول مشتاق احمد یوسفی ’’شادی اور بینک کی چوکیداری ایک جیسی، بندے کو سوتے ہوئے بھی ایک آنکھ کھلی رکھنی پڑے‘‘ اور گو کہ جاڑے، بڑھاپے اور شادی کو جتنا محسوس کیا جائے اتنی ہی تکلیف زیادہ لیکن کچھ بیویاں تو کمال کی، جیسے ایک بیوی شوہر سے بولی، چلیں آنکھ مچولی کھیلتے ہیں، اگر آپ نے مجھے ڈھونڈ لیا تو ہم شاپنگ کرنے جائیں گے، شوہر بولا ’’اور اگر میں نہ ڈھونڈ سکا تو ‘‘بیوی پیار سے ہائے ایسا تو مت کہو، میں دروازے کے پیچھے ہی تو چھپی ہوں گی‘‘، ایک بیوی نے خاوند کو آواز دی ’’ذرا کچن سے نمک تو لانا‘‘ کافی دیر ڈھونڈنے کے بعد خاوند نے جب کہا ’’مجھے نمک نہیں مل رہا‘‘ تو بیگم بولیں ’’تمیں پہلے بھلا کوئی چیز ملی جو آج نمک مل جاتا، میرے باپ کو ایک تم ہی ملے تھے، ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں کر سکتے، بس بہانے بنانے ہی آتے ہیں، اب وہیں کھڑے رہو گے یا باہر بھی نکلو گے، پتا تھا تمہیں نمک نہیں ملے گا، اسی لئے میں پہلے ہی لے آئی تھی‘‘ لیکن جان اللہ کو دینی ہے اِکا دُکا خاوند ابھی ایسے جو بیویوں سے پوری ڈالے بیٹھے، جیسے ایک بیوی نے غصے سے جب کہا کہ تم نے شادی سے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ تمہاری پہلے بھی ایک بیوی ہے تو خاوند بولا ’’یاد کرو، کہا نہیں تھا کہ تمہیں ’رانی‘ کی طرح رکھوں گا۔

کہتے ہیں بندہ ایک دفعہ شادی کرلے پھر چاہے جتنا بھی سمجھدار ہو جائے کہلاتا خاوند ہی ہے، کہا یہ بھی جائے کہ موت انسان کو ہمیشہ قبل از وقت اور شادی ہمیشہ بعد از وقت ہی معلوم ہوتی ہے، ایک سیانے کا ذاتی تجربہ کہ وہ زہر دے کر مارتی تو دنیا کی نظروں میں آجاتی، اندازِ قتل تو دیکھو ہم سے شادی کر لی اور اس سیانے نے تو نے حد ہی کر دی کہ ’’ڈاکٹر کی دعا اور بیوی کی چپ، اچھا شگون نہیں ہوتی‘‘، لیکن میرا دوست (ن) کہے دعا کرو بیوی چپ ہی رہے بول پڑی تو پھر ڈاکٹر کی دوا کام کرے نہ دعا، لیکن کیا کریں وہ زمانہ آگیا کہ کنوارہ شادی کیلئے تڑپتا ملے اور شادی شدہ ہر وقت تڑپتا پھرے، کنوارے کیلئے دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ شادی اور شادی شدہ کیلئے ہر مسئلے کی جڑ شادی اور جن کی شادی نہیں ہوئی وہ بھی ہاتھ مل رہے، جن کی ہو چکی وہ ہاتھ مَسل رہے، بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ہم تو سمجھیں کہ شیخو خوش نصیب جو دادا، نانا کی عمر میں بھی کنوارا، اب بھلا سوچیں جس عمر میں کنوارا اس عمرمیں نانا، دادا ہو کر وہ یہ سب کر سکتا تھا جو کر رہا ہے اور پھر اس لئے بھی شیخو خوش نصیب کہ وہ اس معاشرے میں کنوارا جہاں بیویاں یوں چمٹی ہوئیں کہ وہ خاوند یاد آجائے جسے اس کی بیگم نے جب کہا کہ ’’تم سدھرنے والے نہیں، میں گھر چھوڑ کر جا رہی ہوں‘‘ تو شوہر بولا ’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، جان چھوڑو‘‘ یہ سن کر بیگم بولیں ’’ہائے ہائے، کیا کروں تم تو ’جان‘ کہہ کر میری جان ہی نکال دیتے ہو، جاؤ کیا یاد کرو گے، نہیں جاتی‘‘۔