قرض خواہی، کشمیر اور افغانستان کے انتخابات

October 21, 2018

قطری وزیرِ خارجہ سے بارآور ملاقات کے بعد، وزیراعظم عمران خان 23 اکتوبر کو ایک عالمی سرمایہ کاری کانفرنس میں شرکت کے لیے سعودی عرب جا رہے ہیں۔ سعودی صحافی جمال خشوگی کے ترکی میں سعودی قونصل خانے میں بہیمانہ قتل کے خلاف سخت عالمی ردِّعمل کے باعث اس کانفرنس کا عالمی برادری اور بڑے مالیاتی و صنعتی ادارے بائیکاٹ کر چکے ہیں۔ اب برادر عرب حکومت نے جمال خشوگی کے قتل کا اعتراف کر لیا ہے کہ وہ ’’دھینگا مشتی‘‘ کے نتیجے میں مارے گئے (اور قیمہ قیمہ کیے گئے)۔ جبکہ اس کشتی کے اہتمام کے لیے پندرہ سیکورٹی اہلکار دو طیاروں میں اُسی روز قونصلیٹ پہنچے جب خشوگی وہاں پہنچے تھے اور اس دنگل کو انجام تک پہنچا کر واپس پرواز کر گئے۔ اب حکومت کی تحقیقات کے نتیجے میں حکومت نے 18لوگوں سمیت سلامتی کے سینئر اہلکاروں سعود القہطانی اور جنرل احمد علی آسیری کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان اقدامات سے برادر اسلامی ملک کی حکومت پہ دباؤ کچھ کم تو ہوا ہے، لیکن دُنیا یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس میں اعلیٰ قیادت کا کوئی ہاتھ نہیں، کیونکہ جن اہلکاروں کی شناخت ہوئی ہے وہ ولی عہد کی ذاتی سیکورٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ خدشہ تھا کہ کانفرنس منسوخ کر دی جائے، لیکن یہ اپنے وقت پہ ہو رہی ہے اور اب غالباً وزیراعظم عمران خان کا ستارہ اس کانفرنس میں خوب چمکے گا، بھلے انصاف کا تقاضا کیسا ہی ہو، ایک صحافی کے قتل پہ اربوں ڈالر کی اُمید پہ کوئی پانی کیوں پھیرے گا۔ لیکن شگون اچھے نہیں، جونہی قطری وزیرِ خارجہ کی پاکستان آمد کی اطلاع ملی، خلیجی ممالک کے ایک اعلیٰ سرمایہ کاری وفد نے احتجاجاً اسلام آباد کا دورہ منسوخ کر دیا۔ ناراضی کی یہ لہر کچھ تو اثر دکھائے گی۔ اگر امریکہ بہادر سینکڑوں ارب ڈالرز کے سودوں کی خاطر ناراض عالمی رائے عامہ کو خاطر میں نہیں لا رہا تو کاسۂ گدائی خیرات سے کیوں کر محروم رہ سکتا ہے۔ ویسے بھی عالمی مالیاتی جائزے کی ایجنسی موڈی (Moodi) کے مطابق 2018-2019میں پاکستان کو بیرونی ذرائع سے 30 ارب ڈالرز درکار ہوں گے۔ اور لگتا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (IMF) سے مالیاتی پیکیج لینے سے قبل ہم دوستوں سے اتنے ڈالرز مستعار لینا چاہتے ہیں کہ ہمارے ذرائع مبادلہ کے ذخائر کم از کم تین ماہ کی مالیاتی ادائیگیوں اور درآمدات کی لاگت ادا کرنے کے قابل ہوئے نظر آئیں۔ رنگ لائے گی قرضہ خوری ایک دن! صارفین کمر باندھ لیں کہ مہنگائی 12 فیصد اور بڑھ جائے گی اور روپیہ، پیسہ پیسہ ہو جائے گا۔ بجٹ خسارہ پھر بھی جی ڈی پی کا 5.4 فیصد اور مالیاتی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 4.5 فیصد یعنی ڈھاک کے وہی تین پات۔ یا یوں کہیے کہ دو خساروں کا پرنالہ اپنی ہی جگہ رہے گا اور تبدیلی کے عوامی ایجنڈے کے لیے نو من تیل ہو گا نہ تبدیلی کی رادھا ناچے گی۔ بس ہمارے وزیرِ خزانہ اسد عمر ’’مولا بھیک ملے‘‘ گایا کئیں۔ قلبی مستی بھی اور مالی منفعت بھی!! ایسے میں بھارت کے روس سے پانچ ارب ڈالرز کے S-400 میزائل شکن نظام کی خریداری کے سودے پہ کوئی میرے دوست اعجاز کی تشویش اور فرمائش کہاں سے پوری کرے۔ مالیاتی بحران تو دست نگری کی مانگے تانگے ڈالروں والی پاکستانی کرپٹ معیشت (Rent Economy) کا یہ مقدر تو جلد بدلنے والا نہیں اور ہم آئی ایم ایف کے ہر نئے پروگرام پہ آئندہ کے لیے توبہ کی قسمیں کھانے کے باوجود پھر سے اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے جاتے رہیں گے جس کے پاس ہماری اصل معاشی بیماری کا کوئی علاج نہیں۔

چونکہ میرے مقدر میں ہفتہ وار ایک ہی کالم کا کوٹہ ہے تو لگے ہاتھوں دو اور موضوعات پہ بھی نظرِ غائر ڈال لی جائے۔ ان دو خوفناک موضوعات کا تعلق مقبوضہ کشمیر اور افغانستان میں ہونے والے خونخوار انتخابات سے ہے گو کہ ان کا سیاق و سباق قطعی مختلف ہے۔ پہلے: بھارت کے زیرِ قبضہ کشمیر میں میونسپل انتخابات جو 13 برس کے وقفے سے نہ ہونے کو ہوئے ہیں اور ان میں ووٹرز کی شرکت محض چار فیصد رہی جو 1989ء میں پہلی کشمیر انتفادہ کے وقت ہونے والے لوک سبھا کے انتخابات سے بھی کم عدم شرکت کے غمازی ہیں۔ دس اضلاع میں 40 لوکل باڈیز کے 598 وارڈز میں انتخابات فقط 186 وارڈز میں ہو سکا جبکہ 412 وارڈز میں مکمل بائیکاٹ ہوا۔ ماضی میں عام طور پر مقامی و ریاستی انتخابات میں لوگ ووٹ ڈالنے جاتے تھے کہ اُنہیں روزمرہ کے مسائل کے حل کی فکر لاحق رہتی تھی۔ لیکن کبھی مقامی حکومتوں کے انتخابات کا ایسا مکمل اور موثر بائیکاٹ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ انتخابات کے بائیکاٹ میں اس بار سبھی شامل تھے جس میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی بھی شامل تھی۔ ان انتخابات کو مبصرین حقِ رائے دہی کا ایک طرح سے موثر ترین اظہار قرار دے رہے ہیں جس میں وادیٔ کشمیر کے رائے دہندگان نے مروجہ اندرونی نوآبادیاتی ڈھانچے کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ اب معاملہ بھارتی جمہوریہ کے آرٹیکل 370 کے مخدوش دائرے سے کہیں باہر نکل گیا ہے اور وادی کے کشمیری بھارتی غلبے کو ردّ کر چکے ہیں۔ پہلے سے برعکس، مجاہدانہ جدوجہد اور عوامی اظہار باہم جڑ گئے ہیں۔ اب شہدا کے جنازوں میں دسیوں ہزار لوگ شریک ہوتے ہیں اور ’’آزادی، آزادی‘‘ پکارتے ہیں، بھلے آپ آزادی کے متوالوں کو کیسے ہی بُرے نام دیا کریں اور ایسا برطانوی نوآبادیاتی غلبے کے خلاف آزادی کا نعرہ لگانے والوں کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ حقِ خود اختیاری کا مطالبہ تب بھی جائز تھا اور آج بھی جائز ہے، بھلے یہ کشمیری کریں یا کوئی اور۔ بدقسمتی سے مظلوم کشمیری دو قومی ریاستوں کے علاقائی تصادم کی چکی میں پس کر رہ گئے ہیں اور دو ملکوں کی جارحانہ قوم پرستی، علاقائی تصادم اور اسلحے کی دوڑ کا جواز بن گئے ہیں۔ آخر کب تک؟ بنیادی انسانی حقوق، آزادیاں، حقِ خود ارادیت بشمول حقِ علیحدگی سب کا حق ہے اور ناقابلِ تقسیم اور غیرمشروط بھی!!

ہمارے شمال مغرب میں افغانستان کے اولسی جرگہ یعنی پارلیمنٹ کے زیریں ایوانِ نمائندگان کے انتخابات بروز ہفتہ ہونے جا رہے ہیں۔ ان انتخابات سے قبل طالبان نے قندھار میں ایک ’’اندرونی طالب‘‘ کے ذریعے قندھار کے اہم پولیس اور خفیہ پولیس چیف کو مار ڈالا اور امریکہ کے افغانستان میں ٹاپ کمانڈر جنرل اسکاٹ ملر بال بال بچ گئے۔ طالبان کی کارروائیوں میں انتخابات سے قبل بہت شدت آئی ہے اور دسیوں اُمیدوار اور سینکڑوں لوگ مارے گئے ہیں۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو پورے افغانستان سے خون خرابے کی خبریں آ رہی ہیں۔ لیکن لوگ پھر بھی ان عام انتخابات کو غنیمت جانتے ہوئے اس میں حصہ لے رہے ہیں جن میں سابق مجاہدین، جنگی سردار اور بہت سے پڑھے لکھے باشعور اور روشن خیال لوگ بھی شامل ہیں۔ افغانستان گزشتہ چالیس برس کی طرح اب پھر ایک اور نازک موڑ پہ ہے۔ خانہ جنگی ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی اور غریب افغان لاشیں اُٹھاتے اُٹھاتے اور تباہیاں دیکھتے دیکھتے جانے کرب کی کونسی انتہائوں کو پہنچے ہوئے ہیں۔ امریکہ کا فوجی حل ناکام ہو چکا ہے اور سیاسی حل کی طرف کوئی اہم پیش رفت نہیں ہو پا رہی۔ ابھی پچھلے دنوں امریکہ کے نمائندے افغان نژاد خلیل زاد نے قطر میں طالبان کے نمائندوں سے بات چیت بھی کی ہے اور لگتا ہے کہ طالبان اپنی شرائط پہ قائم ہیں۔ اگر کوئی سیاسی حل نہ نکلا تو صدر ٹرمپ کے نحیف صبر کا پیمانہ کسی بھی وقت چھلک سکتا ہے۔ پاکستانی انتظامیہ کو اب فکر لاحق ہوئی ہے کہ امریکہ بہادر افغانستان کو اس کے حال پہ چھوڑ کر کہیں اچانک رفو چکر نہ ہو جائے۔ دریں اثنا، افغانستان میں داعش کے علاوہ بہت سے دوسرے بیرونی عناصر بھی بہت متحرک ہو گئے ہیں جس سے افغانستان میں جاری خانہ جنگی چومکھی ہوتی چلی جائے گی۔ لگتا ہے کہ سیاسی حل اور افغان مصالحت کا وقت پھر ہاتھ سے نہ نکل جائے اور افغانستان کی خانہ جنگی ایک اور تباہ کن دور میں داخل ہو جائے۔ مجھے ڈر ہے کہ افغان خانہ جنگی کا ایک اور ملبہ پاکستان پر نہ گر جائے۔ افغانستان میں اگر کوئی سیاسی مصالحت ممکن ہے تو اس کی ابھی فی الفور کوشش کی جائے، ورنہ شاید سبھی فریقین کو اپنے اپنے زخم چاٹنے پڑیں اور صدر ٹرمپ کا کیا ہے، کب کہاں اپنا غصہ اُتارد یں۔ ظاہر ہے پاکستان اور افغانستان اس کے متحمل نہیں ہو سکتے اور ایسے میں جانے کون کس کے غائبانہ نماز ہائے جنازہ پڑھتا پھرے۔ تجھے پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو!!