اے این پی آنے والے دنوں میں پختونخوا حکومت کو ٹف ٹائم دے گی

October 25, 2018

گلزار محمد خان

پاکستان تحریک انصاف نے25جوالائی کو خیبر پختونخوا میں بھاری اکثریت سے دوبارہ برسراقتدار آکر صوبہ کی سیاسی پارلیمانی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کردیا تھا کیونکہ اس سے قبل کوئی سیاسی جماعت مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں نہیں آسکی تھی اور یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبہ میں کوئی سیاسی جماعت اتنی بھاری اکثریت کیساتھ بھی حکومت نہیں بنا سکی تھی اس کامیابی پر تحریک انصاف نے بڑا جشن منایا تھا اور اسے اپنی بہترین کارکردگی کا نتیجہ قرار دیا تھا اگرچہ اپوزیشن جماعتوں نے آج تک اس کامیابی کو قبول نہیں کیا اور وہ اسے کسی اور کی مہربانی کا نتیجہ قرار دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ جب 14اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف اپنی چھوڑی ہوئی دو صوبائی اور ایک قومی نشست ہار گئی تو اپوزیشن نے کہنا شروع کیا کہ ہمارے موقف کی تصدیق ہوگئی ہے،14اکتوبر کو تحریک انصاف نہ صرف سوات کی دونوں صوبائی اور بنوں کی قومی نشست ہار گئی تھی بلکہ پشاور میں ہارون بلور کی شہادت کی وجہ سے ملتوی ہونے والے پی کے78کے انتخابات پر بھی اے این پی چھا گئی، ابھی اے این پی کی اس فتح کی گونج باقی تھی کہ محض ایک ہفتہ بعد ہی گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان کی چھوڑی ہوئی نشست پی کے71پر ضمنی انتخابات میں بھی ایک بڑا اپ سیٹ سامنے آگیا اور اے این پی کے امیدوار نے گورنر کے بھائی اور تحریک انصاف کے امیدوار ذوالفقار خان کو شکست سے دو چار کیا جس طرح کسی سیاسی جماعت کے مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کا یہ پہلا موقع تھا بالکل اسی طرح یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کوئی صوبائی حکومت دو ماہ کے اندر اندر ہی عوامی تائید و حمایت کھو دے حالانکہ ملک بھر کی پارلیمانی اور انتخابی روایت گواہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں حکمران جماعتیں نہ صرف اپنی چھوڑی ہوئی نشستوں کا دفاع کرتی ہیں بلکہ دیگر جماعتوں کی خالی کردہ نشستیں بھی جیت لیتی ہے لیکن اگر ہمارے صوبہ میں دیکھا جائے تو11حلقوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اپنے جیتی ہوئی چار نشستیںکھو چکی ہے، پشاور میں مسلسل دوسری شکست کے بعد پی ٹی آئی اور اس کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ضرور اس کا جائزہ لینا چاہیے اگر پی ٹی آئی نے اپنے شکست کے عوامل کا جائزہ لیکر مستقبل کیلئے کوئی حکمت عملی مرتب نہ کی تو اسے مزید سیاسی نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے، دوسری فتح سے یقینا اے این پی کے کارکنوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اے این پی حکومت کو مزید ٹف ٹائم دے گی ۔

پاکستان تحریک انصاف کی نئی صوبائی حکومت رواں مالی سال 2018-19ءکے نومبر سے جون تک باقی ماندہ8ماہ کیلئے اپنا پہلا بجٹ پیش کرچکی ہے جس پر اسمبلی میں بحث کا سلسلہ جاری ہے، حسب سابق صوبائی حکومت کی جانب سے اپنے بجٹ کے حق میںقسم قسم کے دلائل پیش کئے جارہے ہیں اور اس کو صوبہ کی تاریخ کا سب سے بہترین بجٹ قرار دیا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف اپوزیشن جماعتوں کو دنیا جہان کی خرابیاں اس بجٹ میں نظر آرہی ہیں، ہمیشہ سے یہی ہوتا آرہا ہے، آج جو جماعتیں اپوزیشن میں ہیں وہ جب حکومت میں تھیںتو اپنے بجٹ کے حق میں وہی دلائل استعمال کرتیں جو آج موجودہ صوبائی حکومت استعمال کررہی ہے، بہرحال صوبائی بجٹ سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا مناسب نہیں تھا کیونکہ یہ ادھورا بجٹ ہے، شاید اسی لئے عوام کو بھی بجٹ میں کچھ زیادہ ریلیف نظر نہیں آرہا کیونکہ بجٹ کا ایک تہائی حصہ نگران حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا تھا اور اب سال کے باقی ماندہ دوتہائی عرصہ کیلئے تحریک انصاف حکومت نے پیش کیا ہے ، بجٹ کا مرحلہ ماہر معاشیات صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا کی پہلی آزمائش تھی اور اب تک وہ اپنے بجٹ کا کامیاب دفاع کرتے آئے ہیں کیونکہ ان کے پاس ہر اعتراض کا مدلل جواب موجود ہے، پوسٹ بجٹ کانفرنس کے بعد صوبائی اسمبلی کے فلور پر بھی انہوں نے مدلل انداز میں بجٹ اور صوبائی حکومت کی مالی پالیسیوں کا کامیابی سے دفاع کیا تاہم نئی صوبائی حکومت کے سامنے اب بھی کئی مشکلات درپیش ہیں صوبائی حقوق کے حصول کیساتھ ساتھ صوبہ میں بیروزگاری اور غربت کے خاتمے کیلئے اقدامات ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر لوگوں کو مطمئن نہیں کیا جاسکتا ان حالات میں ضمنی انتخابات میں سوات جیسے ضلع سے تحریک انصاف کی اپنی جیتی ہوئی دو نشستوں پر شکست نے بھی کئی سوالات کھڑے کئے ہیں کیونکہ نہ صرف وزیر مملکت برائے مواصلات اور دو صوبائی وزراء کا تعلق اس ضلع سے ہے بلکہ خود وزیر اعلیٰ محمود خان بھی سوات سے تعلق رکھتے ہیں اور یقیناً اس شکست نے وزرا ءکیساتھ وزیر اعلیٰ کی ساکھ کو بھی متاثر کیا ہے جس کی وجہ ان کی طرف سے سوات میں رابطوں کے فقدان کو بھی قرار دیا جارہا ہے ساتھ ہی صوبائی کابینہ میں توسیع کا کٹھن مرحلہ بھی طے کرنا ابھی باقی ہے اور اس حوالے سے مبینہ اندرونی اختلافات کی خبریں سامنے آرہی ہیں ، تحریک انصاف کے بعض طاقتور اور پہلے حکومتی سیٹ اپ کا حصہ رہنے والے رہنماؤں کے اپنے اپنے قریبی رشتہ داروں کو کابینہ میں شامل کرنے کیلئے لابنگ جاری ہے جن میں اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور بھی شامل ہیں اور غالباً تینوں کو کاؤنٹر کرنے کیلئے اب مبینہ طور پر سینئر صوبائی وزیر عاطف خان سرگرم ہوچکے ہیں اور کہا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کے نظریاتی کارکنوں کو وزیر بنانا چاہتے ہیں اس حوالے سے اگر پارٹی کی مرکزی قیادت نے بروقت کوئی قدم نہ اٹھایا تو پارٹی صفوں کے اندر دبے ہوئے اختلافات پھر سے شدت اختیار کرسکتے ہیں اور یقیناً صوبائی بجٹ اور ضمنی انتخابات کے بعد یہ وزیر اعلیٰ محمود خان کی ایک اور بڑی آزمائش بھی ہے جس سے اگر وہ کامیابی کیساتھ نمٹ گئے تو پھر وہ سکون کیساتھ اپنی آئینی مدت پوری کرسکیں گے جہاں تک صوبہ کی اپوزیشن جماعتوں کا تعلق ہے تو اس وقت عوامی نیشنل پارٹی نئی صف بندیوں میں مصروف دکھائی دیتی ہے جس کے انٹرا پارٹی انتخابات کا اعلان ہونے کیساتھ اس کا شیڈول بھی جاری کیا جاچکا ہے، بلاشبہ اے این پی بھی ان چندجماعتوں میں سے ایک ہے جو پارٹی انتخابات تسلسل کیساتھ کراتی آرہی ہے، حالیہ ضمنی الیکشن میں بھی سب سے نمایاں کامیابی اے این پی کو ہی ملی جو اپنی جیتی ہوئی ایک نشست ہار کر دو نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی اور مردان کی نشست پر بھی اس کے امیدوار نے محض پچاس ووٹوں سے ہی شکست کھائی جس کے بعد سے اب مردان کا نتیجہ متنازعہ ہوچکا ہے الیکشن کے بعد سے اگرچہ جمعیت علماء اسلام(ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا لب ولہجہ حکمران جماعت کے حوالے سے سب سے تلخ رہا ہے مگر منظم انداز میں حزب اختلاف کا کردار اے این پی ہی ادا کرتی آرہی ہے‘ الیکشن کے بعد سے صوبہ میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن )کی صفوں پر واضح طور پر جمود طاری ہوچکا ہے جبکہ جے یو آئی کے اندرونی اختلافات تاحال برقرار ہیں‘ صرف اے این پی ہی منظم انداز میں سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے جس کا پھل اسے ضمنی الیکشن میں کامیابی کی صورت میں مل گیا ہے۔