انگارے

November 02, 2018

یہ الیکشن کے دنوں کی بات ہے میں اپنے ایک دوست، جو الیکشن لڑنے جا رہے تھے، کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا اور میرے سامنے چار لوگ تھے۔ ان میں سے ایک کی عمر تیس کے لگ بھگ ہو گی، دوسرے صاحب پچیس سال کے ہوں گے اور دو بالکل نوجوان، ان کی عمریں انیس بیس سال ہوں گی۔ الیکشن لڑنے والے میرے دوست کا خیال تھا کہ الیکشن مہم کو سوشل میڈیا پر بھی مؤثر انداز میں چلانا چاہئے اور اس مقصد کے لئے ایک پرائیویٹ کمپنی، جو ایک سیاسی جماعت اور ملک کی دیگر بڑی شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ رکھتی تھی اور ان چاروں افراد کا تعلق بھی اسی کمپنی سے تعلق تھا، کو میرا دوست ہائر کرنا چاہتا تھا۔ اس حوالے سے وہ مجھ سے میری رائے جاننا چاہتا تھا کہ کیا یہ لوگ واقعی الیکشن مہم کو مؤثر اندازمیں چلا سکیں گے۔ یہ چاروں لوگ ذہنی طور پر واقعی بہت اسمارٹ تھے اور انہیں سیاسی طور پر بھی کافی جان کاری تھی لیکن الیکشن کے مہم کے حوالے سے انہوںنے جب اپنی مزید ’’صلاحیتوں‘‘ کو بیان کرنا شروع کیا تو میں حیران رہ گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ایک ہفتے کے اندر آپ کے مخالف امیدوار کے پرخچے اڑا دیںگے۔ مزید تفصیلات پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ہم اُسے علاقے کا بدنام ترین شخصاور ملک دشمن ثابت قرار دیں گے۔ میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم مخالف کو چھیڑے بغیر صرف اپنے امیدوار کے اچھے کام گنوانا شروع کریں، اِس کی شرافت کے بارے میں، اس کے مستقبل کے پروگرام بارے میں ووٹرز کو بتائیں اور ویسے بھی کسی کے بارے جھوٹا پروپیگنڈا کرکے ہم اسے کیسے ثابت کریںگے؟ ان چاروں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور ایک شرارتی سا تبسم ان کے چہروں پر پھیل گیا۔ ان کے سینئر ساتھی نے اپنے ایک جونیئر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کے چند شرارت بھرے کارنامے سنائے کہ اس نے کس طرح ایک سیاسی جماعت کے بڑے لیڈر کے پرخچے اڑا دیئے تھے۔ یہ لوگ سیاسی جماعتوں کی ان ٹیموں سے بھی پوری طرح واقف تھے جو اچھے معاوضوں پر اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے لیے کام کرتے ہوئے دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کا حشر نشر کیا کرتے ہیں۔

مجھے ان باصلاحیت لوگوں کی گفتگو سن کر سخت افسوس ہوا کہ ہم کس طرح اپنے مالی و سیاسی مفاد یا اقتدار میں آنے کے مقاصد کی خاطر اپنے معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں۔ گالم گلوچ کا ایک ایسا کلچر بنا رہے ہیں جس کے اثرات ہماری نوجوان نسل سے ہوتے ہوئے ہمارے پیارے وطن کی بنیادوں کی طرف بڑھ رہے ہیں، جیسے امریکہ کے نئے صدر ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد وہاں بھی اس وبا نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ ماضی قریب میں امریکہ میں اس وبا کی وجہ سے نسلی امتیاز کے حوالے سے گوروں نے کالوں کے خلاف مظاہرے کئے تھے اور اس دوران کئی افراد مارے جانے کے علاوہ متعدد زخمی بھی ہوئے تھے۔ اسی طرح مذہب کے حوالے سے بھی کئی جھگڑے اور حملے ہوئے۔ دیواروں پر ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیز عبارتیں تحریر کی گئیں۔ اس طرح ایک اور عجیب و غریب کام یہ ہوا کہ پائپ بم نے جنم لیا ۔یہ بم ان لوگوں کو بھیجے گئے جن کے خلاف ڈونلڈ ٹرمپ نے تقاریر میں الزامات لگائے تھے کہ یہ امریکہ مخالف لوگ ہیں۔ ان الزامات کی زد میں میڈیا، اوباما و کلنٹن فیملی اور دیگر سیاسی شخصیات بھی ہیں۔ اس حوالے سے امریکہ کے ماہرین اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ ساری نفرتیں اور غصہ، ٹرمپ کی ان باتوں کا شاخسانہ ہیں جو وہ مختلف مواقع پر اپنے مخالفین کے خلاف نفرت انگیز اور سخت جملے استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ٹرمپ کا نشانہ ہر وہ فرد ہوتا ہے جو ان کے خیالات سے اختلاف کرتا ہے، چاہے اُس کا تعلق میڈیا سے ہو، ملک کی مذہبی اقلیت سے ہو، سیاسی جماعت سے ہو یا وہ سرکاری افسر ہو۔ وہ زہر آلودہ فقروں سے مزین تقاریر سے تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ ٹرمپ کی ان نفرت انگیز تقاریر کے اثرات دہشت پھیلانے، نفرت پیدا کرنے اور معاشرے کے ان نازک دھاگوں کو ریزہ ریزہ کرنے کا موجب بن رہے ہیں جو ملک کی مضبوط بنیادوں کے لیے بہت ضروری ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا پر یا ہمارے سیاسی رہنمائوں کی تقریروں میں منہ سے نکلنے والے انگارے بھی کہیں ہمیں اس طرف تو نہیں لے جا رہے؟ آئیے! ان انگاروں کو شعلے بلند کرنے سے پہلے ہی اپنے اخلاق اور زبان کی مٹھاس سے بجھا دیں اور اختلافات کو نفرت کی مضبوط دیواریں تعمیر کرنے سے باز رکھیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)