احتساب ، منصفانہ اور شفاف!

November 13, 2018

قومی احتساب بیورو اس وقت پوری دلجمعی سے ملک پر حکومت کرنے والے سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کی جانب سے اختیارات کے ناجائز استعمال، غیر قانونی فیصلوں، احکامات اور ہتھکنڈوں کے ذریعے قومی دولت لوٹنے کی تحقیقات کر رہا ہے قومی خزانے اور وسائل کی لوٹ مار کی شکایات قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی منظر عام پر آنے لگی تھیں، انسدادِ بدعنوانی کے تحت مقدمات بھی قائم ہونا شروع ہو گئے تھے اور وفاقی محتسب کے ذریعے بھی صورت حال بہتر بنانے کی کوشش کی گئی مگر احتساب کا باقاعدہ ادارہ قائم کرنے کا خیال سب سے پہلے 1999ء میں پرویز مشرف کے ذہن رسا میں آیا جنہیں اپنے سیاسی مخالفین سے حساب چکتا کرنا تھا ۔موجودہ وقت میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے تحت کرپشن کے خاتمے کے لئے جتنا کام ہو رہا ہے اتنے ہی زیادہ اس کے طریق کار پر اعتراضات بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔ اس بات پر تو سب متفق ہیں کہ احتساب ضرور ہونا چاہئے مگر ان کا نہیں دوسروں کا ۔ہر متاثرہ شخص کو شکایت ہے کہ اسے نیب کے مقدمات میں بے جا ملوث کیا جا رہا ہے جبکہ اس کے مخالفین کو ڈھیل دی جا رہی ہے۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی ایک فہرست کے مطابق نیب نے اب تک 65 سیاسی رہنمائوں اور سرکاری افسروں کے خلاف تحقیقات کی ہیں ان میں سے 19 کا تعلق سندھ سے 19 کا خیبر پختونخوا سے 18 کا پنجاب سے اور 9 کا بلوچستان سے ہے۔ ان میں سے پیپلز پارٹی کے 16 مسلم لیگ ن کے 10 مسلم لیگ ق کے 5 ایم کیو ایم کے 4 تحریک انصاف مسلم لیگ فنکشنل، جے یو آئی، اے این پی، بی این بی کا ایک ایک عہدیدار اور ایک آزاد رکن اسمبلی ہے ان میں سے بعض پر غیر قانونی بھرتیوں، بعض پر آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے، فنڈز کی خورد برد، کرپشن، پلاٹوں کی ناجائز الاٹمنٹ، اختیارات سے تجاوز یا آف شور کمپنیوں کی ملکیت کے الزامات ہیں۔ پارلیمنٹ اور سینٹ میں تقریباً ہر روز نیب کے قوانین اور ان کے تحت کارروائی پر تنقید کی جا رہی ہے ڈی جی نیب لاہور کے میڈیا انٹرویوز کے خلاف جن میں انہوں نے آشیانہ ہائوسنگ سکینڈل میں اپوزیشن لیڈر نواز شریف کے خلاف تحقیقات کی کچھ تفصیلات بیان کی ہیں، قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق پیش کی گئی جس پر اسپیکر نے نیب کے چیئرمین سے رابطہ کرنے کی یقین دہانی کرائی اور خود نیب کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ڈی جی کے بغیر اجازت انٹرویو دینے کا نوٹس لے رکھا ہے۔ ادھر سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے چیئرمین نیب کو اپنے قیام سے اب تک کے مکمل ریکارڈ اور ڈیٹا کے ساتھ نمٹائے جانے والے کیسوں خصوصاً پچھلے تین سال کے کیسز نیز ریکوریز وغیرہ کی تفصیلات جاننے کے لئے سینٹ کے ایک پینل کو بریفنگ دینے کے لئے کہا ہے۔ نیب پر اپوزیشن کے خلاف حکومت سے گٹھ جوڑ کا الزام بھی لگایا جا رہا ہے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نیب قوانین میں نقائص کی نشاندہی کر رہی ہیں اس ضمن میں حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہو چکا ہے کہ احتساب کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کے لئے نیب قوانین کا ازسر نو جائزہ لیا جائے جو ایک اچھی پیش رفت ہے۔ سندھ میں ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ کے الزام میں ایم کیو ایم کے 726 رہنمائوں اور کارکنوں کو طلبی کے نوٹس اور 4کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی نے سندھ کے تمام ترقیاتی منصوبوں کا 5 سالہ ریکارڈ طلب کر لیا ہے اور ترقیاتی اسکیموں کے پروجیکٹ چارٹر، مخصوص بجٹ جاری رقوم اور اخراجات کی تفصیلات کے لئے چیف سیکرٹری کو خط لکھا ہے۔ الغرض پورے ملک میں احتساب کا عمل جاری ہے،کرپٹ افراد اور اداروں کا احتساب پوری قوم کی خواہش ہے مگر احتساب شفاف منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہونا چاہئے تا کہ کسی سے زیادتی نہ ہو یہ تاثر ہر گز نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ کچھ لوگوں کو اس لئے پکڑا جا رہا ہے کہ وہ حکومت کے مخالف ہیں اور کچھ سے اس لئے چشم پوشی کی جا رہی ہے کہ وہ اس کے اپنے ہیں۔ احتساب کے عمل میں پسند و ناپسند کا کوئی دخل نہیں ہونا چاہئے یہی نئے پاکستان کا تقاضا ہے۔