شہید مولانا سمیع الحق

November 20, 2018

مولانا سمیع الحق انوکھی وضع کے نرالے آدمی تھے۔ مرنجاں مرنج، بھولپن کے ساتھ سادہ وضع کے خوش طبع عالم دین، تقویٰ کے زعم میں مبتلا نہ علم و حکمت کے بوجھ سے کندھے جھکے ہوئے، شدید رنج ہو یا غصے کی حالت، ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھیلتی، پورے ملک بلکہ دنیا بھر میں ہزاروں طالب علموں نے ان سے براہ راست فیض حاصل کیا۔ ان کے عظیم المرتبت باپ مولانا عبدالحق کے قائم کردہ ادارے نے، جو اب سمیع الحق کی ذمہ داری تھا، لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بدل ڈالیں۔ انہیں بالکل نئی طرز اور سمت پر مرتب کیا۔ اس تربیت پر اعتراض اٹھانے والوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں مگر لوگوں کی زندگیاں مرتب ہوئیں اس میں کوئی شک نہیں۔

سمیع الحق کے مزاج میں نرمی، گرمجوشی اور بے ساختہ پن تھا جو اجنبیوں کو بھی ان کی طرف راغب کرتا، ان کو دوست بنانے اور دوست بن جانے میں ملکہ حاصل تھا۔ دوستوں کو دیکھ کر کھل اٹھنے کا محاورہ تو سن رکھا تھا لیکن دوستوں کو دیکھ کر کھلتے اور کھلے رہنے کی تجسیم سمیع الحق کی شکل میں دیکھی۔ وہ چپ رہتے تو بھی ان کی آنکھیں بولتی اور ہنستی بھی تھیں۔

ہوتا ہے راز عشق و محبت انہی سے فاش

آنکھیں زباں نہیں ہیں مگر بے زباں نہیں

ان کی آنکھوں کی بولی اور ہنسی کا آہنگ بھی بلند تھا۔ ہر کوئی دیکھنے کے ساتھ سن بھی سکتا۔

ان میں حاسدوں کے لگائے زخم چھپانے کی خوبی تو تھی لیکن ذاتی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کا ہنر نہ تھا۔ سادہ اور خوش مزاج سمیع الحق اپنے خیالات اور جذبات چھپانے کے فن سے نا آشنا تھے۔ دل کی بات ان کی آنکھوں میں ظاہر اور چہرے پر نقش ہوتی، بولتے تو وہی باہر آتا جو دل میں ہوتا۔ کدورت نہ تھی مگر دوستی اور دشمنی میں دو ٹوک، دوعملی اور منافقت انہیں چھو کر نہ گئی تھی، مصنوعی سنجیدگی نہ جعلی تفکر، نہ زعم تقویٰ میں تیوری چڑھی ہوئی۔ عام آدمی کی عام سی زندگی ہنستی مسکراتی۔

مولانا زاہد تو تھے مگر خشک نہ تھے۔ ان کی مجلس پُرلطف ہوتی، وہ اپنے ساتھ مؤدب شاگردوں کا گروپ لئے پھرنے کے عادی نہ تھے۔ صرف ایک دوست ان کے ہمراہ ہوتے، وہی ان کے ہمراز اور سیکرٹری بھی تھے، مدرسے کے معاملات، طالب علموں کے مسائل، علاقے کی ترقی کے پروگرام، سینیٹ بزنس سے متعلقہ سوالات، قومی سیاست کے معاملات سب ان کی ڈائری میں دھرے ہوتے، گفتگو برمحل، مدلل، مختصر اور دوٹوک۔

مولانا سمیع الحق سے پہلی ملاقات آج سے تینتیس برس پہلے مارچ 1985ء میں ہوئی، جب منتخب ہونے والی سینیٹ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا۔ افغانستان کا مسئلہ، شریعت بل اور کشمیر کے بارے موقف میں ہم آہنگی کی وجہ سے ابتدائی ملاقات گہری دوستی میں بدل گئی۔

16جولائی 2018ء کے انتخاب سے صرف ایک ہفتہ پہلے مولانا سے آخری ملاقات ہوئی، انتخابی جائزے اور پشاور میں ہارون بلور کی وفات پر فاتحہ خوانی سے واپسی پر براستہ جی ٹی روڈ لاہور کیلئے روانہ ہوئے۔ ڈیلی یارن کے حاجی اسلم اور خالد بھائی ہمراہ تھے۔ اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق سے ملاقات کیلئے ٹھہر گئے۔ خوش قسمتی سے مولانا مدرسے میں اپنے دفتر کے اندر موجود تھے۔ ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے گرمجوشی سے ملے۔ ان کا اصرار تھا کہ کھانا ساتھ کھائیں اور رات قیام بھی ہو، تاکہ کھل کے گپ شپ ہو سکے۔ چنانچہ ان کے ساتھ وعدہ کیا کہ انتخاب کے بعد چند دنوں کیلئے امریکہ جانا ہے واپسی پر ان شاء اللہ حاضر ہوں گے۔ افسوس کہ ارادے ٹوٹ گئے، وعدہ وفا نہ ہوا اور مولانا سب کو اداس چھوڑ کر رخصت پر چلے گئے۔

سمیع الحق کے والد مولانا عبدالحق دیوبند میں تعلیم سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور مولانا عبدالحق دیوبند کو خیرباد کہہ کر آبائی وطن اکوڑہ خٹک واپس آئے اور اسی جگہ مدرسہ اکوڑہ خٹک کی بنیاد رکھی جہاں کبھی شہدائے بالاکوٹ کا پڑائو تھا۔ جامعہ شہدائے بالاکوٹ کے پہلو میں بننے والے اسلامی تعلیم کے اس ادارے کی قسمت میں تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر اہم کردار ادا کرتا تھا اور افغانستان میں کمیونسٹ یلغار کو روکنے کیلئے صف اوّل کے صف شکن مہیا کرنے کا فریضہ اس ہی کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔ مولانا عبدالحق اپنے دور کے بڑے صاحب علم استاد اور باعمل صوفی تھے۔ انہیں سیاست سے کوئی رغبت نہ تھی لیکن 70ء کے انتخابات میں ابھرنے والی کشمکش کے دوران مفتی محمود نے انہیں انتخاب میں حصہ لینے کی ترغیب دی۔ ان کا مقابلہ بہت بڑے اور مالدار قبیلے خٹک کے جناب اسلم خٹک سے تھا۔ اسلم خٹک پاکستان کی سیاست کا بہت بڑا نام تھے جبکہ مولانا عبدالحق نے اپنی مسجد اور مدرسے سے کبھی باہر جھانک کر نہ دیکھا، انتخاب میں مولانا عبدالحق بھاری اکثریت سے جیت گئے تو اسلم خٹک نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’میں کسی بڑے سے بڑے لیڈر کو ہرا سکتا ہوں لیکن فرشتے کا مقابلہ کون کرے؟‘‘

مولانا عبدالحق کے مخالف بھی انہیں کامل ولی اور فرشتہ صفت گردانتے تھے۔ مولانا عبدالحق نے اسمبلی میں قادیانی مسئلے کے حل کیلئے اہم علمی خدمات انجام دیں۔ پاکستان سے زیادہ افغانستان میں اسلام اور کمیونزم کی نظریاتی کشمکش کے دوران ان کے مدرسہ سے تعلیم حاصل کرنے والے افغانیوں کا اہم کردار ہے۔ حقانی نیٹ ورک جس سے آج امریکہ لرزہ براندام ہے، انہی کی ضرب کاری نے روس کو افغانستان میں دھول چٹا دی۔

مولانا عبدالحق کے بیٹے اور ہمارے دوست سمیع الحق نے باپ کے مقدس مشن کو جاری رکھا اور قائم کردہ ادارے کے معیار اور کردار کو نہ صرف بنائے رکھا بلکہ اسے غیر معمولی وسعت دی۔ روس کی افغانستان آمد مولانا سمیع الحق کے والد نے اپنے افغانی شاگردوں کو اپنے ملک واپس جانے اور آزادی کی جدوجہد کا حکم دیا، تو بیٹے سمیع الحق نے امریکہ کے افغانستان در آنے پر امریکہ کی کھل کر مذمت کی، پاکستان میں اس کے خلاف تحریک چلائی، افغانستان میں طالبان کی جدوجہد آزادی میں ان کا پورا پورا ساتھ دیا۔ پاکستان میں ڈکٹیٹر مشرف سے ہرگز مرعوب نہ ہوئے۔ سمیع الحق کا موقف دوٹوک اور واضح تھا کہ افغانستان میں کمیونسٹ روس کی موجودگی پاکستان کیلئے جغرافیائی اور نظریاتی خطرہ تھی تو یہاں امریکہ کی موجودگی بھی پاکستان کیلئے اتنی ہی خطرناک ہے، چنانچہ ہمارے مؤقف اور طرز عمل میں یکسانیت ہونی چاہیے۔ ہمیں امریکہ کو افغانستان سے بے دخل کرنے کیلئے ویسا ہی کردار زیبا ہے جو روس کے درآنے پر تھا۔ سمیع الحق کا پارلیمنٹ میں بطور سینیٹر کردار بڑا متحرک اور جاندار تھا۔ وہ مباحث میں پوری تیاری کے ساتھ شرکت کرتے، شریعت بل تو خالصتاً ان کا اور ان کی جماعت کا کارنامہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے مقابلے میں آئی جے آئی کا وہ اہم حصہ تھے۔ حالیہ انتخاب میں سمیع الحق نے عمران خان کا ساتھ دیا۔

مولانا سمیع الحق کے بیٹے حامد الحق اور بھتیجے عرفان الحق جو سمیع الحق کے داماد بھی ہیں، ان دونوں کو جامعہ کا دورہ کرنے کیلئے ہمراہ بھیجا۔ ان کے چار سالہ نواسے سے بھی ملاقات ہوئی۔ حامد الحق نے جو ادارہ ہمیں دکھایا وہ ہمارے تصور اور خیال سے بھی بہت بڑا تھا۔ نئی تعمیرات اور وسعت میں اس نے کسی بھی سرکاری یونیورسٹی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ادارے کے تعمیراتی کام، تعلیمی سرگرمیاں، طالب علموں کی تعداد، مولانا کا درس و تدریس، سیاسی سرگرمیاں، ملی یکجہتی کونسل کا قیام اور ان کی تصانیف نے ہمیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا، اس دھان پان مولوی کی ذات میں کیا کیا کمالات اور صفات پوشیدہ تھیں جو ہماری نظروں سے اوجھل رہیں۔

اللہ تعالیٰ اس شہادت کو ان کے لئے اور اچانک صدمے کو اقربا اور لواحقین کیلئے آخری زندگی میں بخشش کا ذریعہ بنائے، ان کی بہترین مساعی کو قبول فرمائے، بشری کمزوریوں سے درگزر کرتے ہوئے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔(آمین)