فہمیدہ ریاض کی جلاوطنی ختم ہوئی

November 24, 2018

فہمیدہ ریاض سگریٹ کا گہرا کش لگاتے ہوئے خلائوں میں گھورتیں تومٹی کی سوندھی خوشبو اور آسمان پر اُڑتے ہوئے آوارہ بادلوں کے درمیان ایک مکالمہ شروع ہو جاتا،پھر ہلکی ہلکی بوندا باندی ہونے لگتی اورفہمیدہ بارش کی ان بوندوں کو نظم کی لڑی میںپرونے لگ جاتیں۔نظمیں اُن پرساون بھادوں کی طرح اُترتی تھیں لیکن اُن کی روح پیاسی کی پیاسی تھی۔

زمانہء طالبعلمی میںطلبہ تحریکوں سے وابستہ رہیں۔یہ وہی زمانہ تھا جب طالبعلم اپنے گریبانوں کے پرچم لیے انقلاب کے خواب دیکھا کرتے تھے ۔فہمیدہ ریاض کی بڑی بڑی چمکتی آنکھوں میں بھی زمین وآسمان ہلادینے کےیہی خواب تھےجن کا اظہار وہ اپنی نظموں میںکرتی تھیں۔اُن کی پہلی ملازمت ریڈیو حیدرآباد میں ایک پریزینٹر کی حیثیت سے تھیںجہاں وہ فوجی بھائیوںکے لیے پروگرام پیش کرتی تھیں۔

وہ شاعرہ توباکمال تھیںہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک عالمہ بھی تھیں۔فارسی ادب پر اُن کی گہری نظر تھی۔سب سے پہلے ایران کی باغی شاعرہ فروغ فرخ زاد کی نظموں کا ترجمہ’’کھلے دریچے سے‘‘ کے عنوان سے کیا۔پھر وہ مولانا جلال الدین رومی کے عشق میں مبتلا ہو گئیں اور ان کی غزلوں کو اُردو کے قالب میں ڈھالتی چلی گئیں۔

فروغ فرخ زاد کی طرح فہمیدہ ریاض کےلیے بھی شاعری ایک دریچے کی طرح تھی جس کی جانب وہ جب بھی جاتیں وہ دریچہ خود بہ خود کھل جاتا تھا۔وہ اس دریچے میں بیٹھتیں، گردوپیش پر نظر ڈالتیں، آواز دیتیں، فریاد کرتیں، آنسو بہاتیں اور درختوں کے عکس میں گھل مل جاتیں۔ فروغ فرخ زاد کی طرح فہمیدہ بھی جانتی تھیں کہ اس دریچے کے اس پار ایک فضا ہے اور کوئی شخص ہے جو اُن کی بات سن رہا ہے۔ایک شخص جو ممکن ہےتین سو برس پہلے وجود رکھتا ہویا دوسوسال بعد پیدا ہوا ہو۔اس سےفروغ فرخ زاد کو کوئی فرق پڑتا تھا نہ فہمیدہ ریاض کو۔

فہمیدہ ریاض ایک احتجاجی اور مزاحمتی تحریک تھیں جس کا پرچم انہوں نے آخری سانس تک تھامے رکھا۔ہمیشہ نقصان کا سودا کرنے والی فہمیدہ نے کبھی حرف کی حُرمت پر آنچ نہیں آنے دی۔جسے حق پر سمجھتیں ، اُس کے ساتھ کھڑی ہو جاتیں۔جو اُنہیں باطل دکھائی دیتا اُس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہو جاتیں۔

یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات اُن پر غدای کے الزام لگے، انہیں دشمنوں کا ایجنٹ کہا گیا۔جلاوطنی کے زخم سہنے پڑے ، فوجی عدالتوں کا سامنا کرنا پڑالیکن فہمیدہ کا دل تو فیض احمد فیض کا وہ مصرع تھا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’’ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغِ ندامت‘‘۔ادبی ہو سیاسی ، معاشرتی ہو یا اقتصادی، فہمیدہ ریاض نے جو بھی لڑائی لڑی ، تنِ تنہا لڑی ۔خود کو غیروں کا ایجنٹ قرار دیے جانے کا قصہ وہ خود سنایاکرتی تھیں کہ پہلی بار انہیںکب کسی کا ایجنٹ کہا گیا اور پھر طعنہ زنوںکی کالی زبانوں سے نکلنے والے اس لفظ نے کب کب اور کہاں کہاں اُن کا پیچھا کیا۔

فہمیدہ ریاض بتایا کرتی تھیں کہ جب وہ لندن میںبرطانوی ریڈیو کے لیے کام کرتی تھیں۔سقوطِ ڈھاکہ کے زخم ابھی تازہ تھے۔ریڈیو کی بنگالی سروس کے ارکان کہیں میٹنگ کرنے جا رہے تھے۔میں نے بھی ان کے ساتھ جانا چاہا تو جواب ملا۔’’یہ بنگالیوں کی میٹنگ ہے۔ ہم پاکستانی ایجنٹوں کی اپنے درمیان اجازت نہیں دے سکتے۔‘‘

کچھ دن بعد ن م راشد لندن آئے۔ وہ اپنی ایک نظم سنا رہے تھے ۔میں نے پوچھا ،آپ نے بنگالیوںکےلیے بھی کچھ لکھا۔اس پر وہ نالاں ہوئے اور حیرت سے پوچھنے لگے۔’’تم انڈین ایجنٹ تو نہیں ہو؟‘‘ جنرل ضیاء کےدور میں بھارت میں جلاوطنی اختیار کی تو ’’انڈین ایجنٹ‘‘ہونے کا الزام سند کے طور پر پیش ہونے لگا۔واپس آئیں تو سندھیوں کی ایجنٹ کہلائیں۔سندھیوں کی کسی بات پرخفگی کا اظہار کیا تو مہاجروںکی ایجنٹ بن گئیں۔پرویز مشرف پسند آئے تو فوجی ایجنٹ ہونے کا الزام لگ گیا۔بھارت میں پاکستانی ایجنسی کی ایجنٹ ہونے کا الزام لگتا رہا۔بھارتی مسلمانوں نے کانگریس کا ایجنٹ کہا۔مودی سرکار آئی تو فہمیدہ ریاض نے ’’تم بالکل ہم جیسے نکلے‘‘ جیسی نظم لکھ دی جسے نیو دہلی میںہندو انتہاپسندوں نے سننے سے انکار کر دیا۔فہمیدہ ریاض اپنے اوپر لگنے والے ان الزامات پر محض مسکرا کر رہ جاتی تھیں۔وہ فیض احمد فیض کو بہت مانتی تھیں۔احمد فراز سے انہیںخصوصی لگائو تھا۔جالب کی پیروکار تھیں۔فراز صاحب کے انتقال پر جب میں نے انہیں پُرسے کے لیے فون کیا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔

جواں سال بیٹے کبیر کے جانے کا دُکھ انہیں اندر سے کھائے جا رہا تھا ۔جس کا اظہار انہوں نے ایک طویل نظم کی صورت میں کیا ہے۔نظم کے ساتھ ساتھ نثرنگاری بھی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔افسانے لکھےتو لاجواب ، ناول لکھنے کی طرف آئیں تو لگا جیسے وہ اسی کام کے لیے پیدا ہوئی تھیں۔محکوموں کی ساتھی تھیں۔حاکموں کو اُن کی اوقات یاد دلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتیں۔ پیپلزپارٹی سے البتہ انہیں ایک قلبی لگائو تھا۔پیپلز پارٹی نے بھی جب تک بے نظیرحیات تھیں ،فہمیدہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ بے نظیر کی پہلی حکومت کے دوران انہیں نیشنل بک کونسل کی سربراہ مقرر کیا گیا۔پی پی کی آخری حکومت میں وہ اُردو ڈکشنری بورڈ کی مدیر اعلیٰرہیں۔

کچھ عرصہ قبل کتابوں کے ایک بڑے اشاعتی ادارے کے ساتھ منسلک تھیں جہاں اُن سے ماہانہ پچاس ساٹھ ہزار روپوں کے بدلے خوب مشقت لی جاتی تھی۔اور اگر اُن کی طبیعت ناساز ہوتی یا بیرونِ شہر سفر درپیش ہوتا تو اُن دنوں کی تنخواہ کاٹ لی جاتی تھی۔پچھلے کئی سال سے کراچی سے لے کر اسلام آباد تک اُردو کے نام پر بڑی بڑی عالمی کانفرنسیں ہونے لگی ہیں لیکن کسی بھی کانفرنس میںفہمیدہ ریاض کے ساتھ کوئی سیشن نہیں رکھا گیا۔کسی نے کبھی ان کی ادبی خدمات کا جشن منانے کا نہیں سوچا۔کراچی کے مشاعروں میںجہاں وہ منصبِ صدارت کی حقدار تھیں ۔انہیں ایک شاعر کے طور پر بھی نہیں بلایا جاتا تھا۔ اب یہی کانفرنسیں کرنے والے لوگ فہمیدہ ریاض کا سوگ منائیں گے۔اُن سے اپنے دیرینہ تعلق کے قصے سنائیں گےلیکن فہمیدہ کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ وہ تو ناقدریء دوراں کا گلہ کرنے والوں میں سے نہیں تھیں۔ادب کے نام پر دُکانیں سجانے والوں پر ہنستی ہوئی آئی تھیں،ہنستی ہوئی چلی گئی ہیں۔

پتھریلے کہسار کے گاتے چشموں میں

گونج رہی ہے ایک عورت کی نرم ہنسی

دولت طاقت اور شہرت سب کچھ بھی نہیں

اس کے بدن میں چھپی ہے اس کی آزادی

دنیا کے معبد کے نئے بت کچھ کر لیں

سن نہیں سکتے اس کی لذت کی سسکی

اس بازار میں گو ہر مال بکاؤ ہے

کوئی خرید کے لائے ذرا تسکین اس کی

اک سرشاری جس سے وہ ہی واقف ہے

چاہے بھی تو اس کو بیچ نہیں سکتی

وادی کی آوارہ ہواؤ آ جاؤ

آؤ اور اس کے چہرے پر بوسے دو

اپنے لمبے لمبے بال اڑاتی جائے

ہوا کی بیٹی ساتھ ہوا کے گاتی جائے