عالمی مالیاتی ادارے کی حالیہ رپورٹ

December 18, 2012

عالمی مالیاتی ادارے نے اپنے ایگزیکٹو بورڈ کی پاکستان پر ’فرسٹ پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ‘ رپورٹ پر نظرثانی کے بعد ایک پریس نوٹ جاری کیا ہے۔ اس پریس نوٹ میں گزشتہ چار سالوں کے دوران پاکستانی معیشت کے متعدد پہلوؤں کا بے باک تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس پریس نوٹ کے اجراء کا وقت بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اسے اس وقت جاری کیا گیا جب فنانس منسٹر اور ان کی ٹیم امریکہ کے ساتھ تذویراتی مذاکرات کے لئے واشنگٹن ڈی سی میں تھے۔ کیا آئی ایم ایف ’جس پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہو‘ کا پیغام دینا چاہتا تھا؟ اگرچہ پریس نوٹ کے مندرجات کچھ نئے نہیں کیوں کہ بشمول میرے متعدد مبصرین گزشتہ چار/پانچ سالوں سے پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجوں کو اجاگر کرتے اور ان سے نبردآزما ہونے کے قابل عمل حل تجویز کرتے رہے ہیں مگر بدقسمتی سے حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کو یاد دہانی کرانے کی ہماری تمام تر کوششیں نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوئی ہیں۔ حکومت باخبر مبصرین کی آراء کو تو نظر انداز کر سکتی ہے مگر آئی ایم ایف کے سامنے یہ ڈھٹائی کارگر نہیں ہو گی کیوں کہ آئی ایم ایف اپنی معیشتوں کے نظم و نسق میں ناکام ہو جانے والے ممالک کو قرض دینے والا آخری ادارہ ہے۔ پریس نوٹ میں آئی ایم ایف نے توجہ مبذول کرائی ہے کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران پاکستان کی معاشی نمو 3.0فی صد سالانہ کے اوسط سے کم ہو چکی ہے اور اندازہ ہے کہ2012-13ء میں کم و بیش یہی شرح برقرار رہے گی۔ نمو کی اتنی کم شرح حتیٰ کہ جاب مارکیٹ میں نئے داخل ہونے والوں کو جذب کرنے کے لئے ناکافی ہے جب کہ ان افراد کو روزگار فراہم کرنے کا تذکرہ ہی کیا جو کافی عرصے سے بے روزگار ہیں۔ ملکی آبادی میں2.2 فی صد سالانہ کی شرح سے اضافے کے ساتھ اتنے کم درجے کی نمو پاکستانی عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لئے بھی ناکافی ہے۔ اسی وجہ سے آئی ایم ایف نے معاشی نمو کو پروان چڑھانے کے لئے بنیادی ساختیاتی اصلاحات اور سرمایہ کاری کے ماحول میں بہتری لانے پر زور دیا ہے۔ آئی ایم ایف ملک میں بڑھتے ہوئے مالی عدم نظم و نسق سے ناخوش ہے جہاں2011-12ء میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کی8.5فی صد کی بلند ترین شرح کو چھو رہا ہے اور خدشہ ہے کہ یہ2012-13ء میں 6.5فی صد کی مزید بلند سطح پر ٹھہرا رہے گا۔ محصولات اور اخراجات میں زیاں سمیت غلط سمت میں تشکیل کردہ مالی غیر مرکزیت نے مالی خسارے کے اضافے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ آئی ایم ایف کی نظر میں میکرو اکنامک استحکام کی بحالی کے اقدامات میں مالی خسارے میں کمی کو بنیادی اہمیت دینی چاہئے جس کے بعد نمو کے فروغ اور غربت میں کمی کی کوشش کی جائے۔ آئی ایم ایف نے ایک طرف ٹیکس کے نظام اور ٹیکس محکمے میں جامع اصلاحات کی تجویز دی ہے اور دوسری طرف اخراجات کو معقول حد میں رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ٹیکس بیس کو وسیع کرنا، اصلاح شدہ جی ایس ٹی متعارف کرانا، انکم ٹیکس کے شعبے کو مضبوط کرنا، سبسڈی میں کمی لانا، نج کاری کا عمل تیز کرنا اور مالی غیر مرکزیت (نیا این ایف سی ایوارڈ) کا نظم سنبھالنا بامعنی مالی اصلاحات کے اہم ترین عناصر ہیں۔ آئی ایم ایف ٹیکس چھوٹ کے نظام پر ناخوش ہے جسے حکومت جلد ہی نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اگر حکومت عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے ایسی اسکیموں سے باز رہنا ہو گا۔ ٹیکس ایمنٹی اسکیم مالی این آر او کے سوا کچھ اور نہیں اور نافذ ہونے کی صورت میں یہ دیانتدارانہ طور پر ٹیکس ادا کرنے والوں کے ساتھ عظیم ناانصافی ہو گی۔ آئی ایم ایف مرکزی بنک کی مالی پالیسیوں کے جاری طریق کار پر بھی ناخوش ہے بطور خاص اس طریق کار پر جس کے ذریعے مرکزی بنک نے بڑے مالی خسارے کو کھپایا، ریورس اوپن مارکیٹ آپریشنوں کے ذریعے رقم داخل کی اور کمرشل بنکوں کو سرکاری کاغذات میں سرمایہ کاری کرنے کی سہولت فراہم کی ہے۔ یہی وہ سبب ہے جس کے باعث آئی ایم ایف رواں مالی سال کے اختتام تک ملک میں افراط زر کی شرح کو بلند ہوتے دیکھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی مرکزی بنک کی مالی پالیسی پر تنقید اس بنیاد پر درست ہے کہ مرکزی بنک ایک ’سیاسی/انتخابی مالی پالیسی‘ پر عمل پیرا ہے۔ ایک جارحانہ وسعت پذیر مالی پالیسی کی موجودگی میں افراط زر میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ گزشتہ5مہینوں میں افراط زر میں4.4پوائنٹ تک کمی ہوئی ہے اور افراط زر جو جون 2012ء میں11.3فی صد تھی نومبر میں کم ہو کر6.9فی صد رہ گئی۔ دوسری طرف اسی عرصے کے دوران رقم کی فراہمی اور داخلی کریڈٹ بالترتیب17اور23فی صد کے حساب سے بڑھ چکے ہیں۔ مرکزی بنک نے اپنے ڈسکاؤنٹ ریٹ میں بھی200بیسس پوائنٹ تک کمی کی ہے۔ وسعت پذیر مالی پالیسی کے ماحول میں افراط زر اتنی تیز رفتار کے ساتھ آخر کس طرح کم ہو سکتی ہے؟ کیا مرکزی بنک اور حالیہ معاشی ٹیم افراط زر کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں کہ ایک وسعت پذیر مالی پالیسی کے ذریعے کوئی ملک افراط زر میں غیر معمولی کمی کر سکتا ہے؟ مالی ماہرین کو غلط ثابت کرنے کے ’کارنامے‘ پر ملٹن فرائیڈمین کو دیا گیا نوبل پرائز واپس لے کر مرکزی بنک کے گورنر اور فنانس منسٹر کو مشترکہ طور پر دیا جانا چاہئے۔ اگرچہ آئی ایم ایف کو خدشہ ہے کہ جون 2013ء کے اختتام تک افراط زر نچلی دو ہندسی شرح کے ساتھ پلٹ آئے گی تاہم میرا ماننا ہے کہ جب تک گیس کی قیمت میں تصوراتی کمی کے ذریعے افراط زر کے تخمینے میں ہیر پھیر کو درست نہیں کیا جائے گا جون2013ء کے اختتام تک افراط زر میں2.5-3.0فی صد کی حد میں کمی آئے گی۔ آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ پاکستان کا ادائیگیوں کا توازن بری طرح کمزور ہو چکا ہے، بیرونی آمد زر کے سوتے خشک ہیں اور مرکزی بنک میں زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک سطح …$8.7billion on November30,2012 … تک کم ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف قرضوں کی ادائیگیوں کے ابھرتے ہوئے بحران کی وجہ سے بھی متفکر ہے۔ حالیہ مہینوں میں مجھ سمیت دیگر کئی افراد اس ایشو پر مفصل مضامین رقم کر چکے ہیں کہ اس کا روپے کی قدر پر کتنا مہلک اثر پڑے گا۔ پاکستان کے لئے بہترین مشورہ یہی ہے کہ وہ ایک مکمل معاشی بحران سے بچنے کے لئے جلد از جلد آئی ایم ایف سے مدد حاصل کرے تاہم دہرا المیہ یہ ہے کہ جب تک پاکستان گہری ساختیاتی اصلاحات کی اہمیت کو تسلیم کرنے اور پریس نوٹ میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں اپنا اصلاحاتی ایجنڈا تشکیل دینے کے علاوہ ٹیکس نظام میں اصلاحات سمیت اپنے اصلاحاتی پروگرام کے لئے وسیع تر سیاسی حمایت حاصل نہیں کرے گا آئی ایم ایف امکانی طور پر وطن عزیز کے لئے کسی بیل آؤٹ پروگرام پر بات چیت کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا اور مقام افسوس یہ ہے کہ ہم موجودہ حکومت سے ان اقدامات کی توقع نہیں کر سکتے۔ کیا عام انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت مالی نظم و نسق کو یقینی بنانے اور دشوار اصلاحات کا بیڑا اٹھانے کی استعداد اور عزم سے بہرہ ور ہو گی؟ اس کا جواب تو صرف وقت ہی دے گا مگر اس وقت تک سیاست دان معیشت کو پیچھے دھکیلتے رہیں گے اور پاکستان کے عوام کا پستی کی طرف سفر جاری رہے گا۔