حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

December 16, 2018

اسلام کے بالکل ابتدائی زمانے کی بات ہے۔ اُس وقت قریش کے دیگر قبائل کی طرح بنو اُمیّہ بھی مسلمانوں کے سخت ترین دشمن تھے۔ جو اسلام قبول کرتا، اُس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے۔ اسی بنو امیّہ میں عثمان نامی ایک حَسین و جمیل نوجوان تھے، جو شرم و حیا کا پیکر، بے حد رحم دِل، نہایت شریف النّفس اور پاکیزہ اوصاف کا مالک تھے۔ پاک دامنی، نازک مزاجی، نفاست پسندی، صلۂ رحمی، ظلم سے نفرت، فیّاضی و سخاوت اُن کا طرۂ امتیاز تھی۔ بزرگوں کے چہیتے اور قبیلے کی آنکھ کا تارا تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اُن کے دوستوں میں سے تھے۔ نیکی سے محبّت اور برائی سے نفرت دونوں میں مشترک تھی۔ دونوں کی دوستی مثالی تھی، گھنٹوں خانۂ کعبہ میں بیٹھے اپنے قبیلے اور عربوں کے غلط رسم و رواج پر سوچ بچار کرتے اور بہتری کے لیے دُعاگو رہتے۔ عثمان کئی دنوں سے حضرت ابوبکرؓ کی غیرحاضری محسوس کر رہے تھے اور اُن کے نظر نہ آنے پر تشویش میں مبتلا تھے۔ ایک دن ابوبکرؓ کے گھر جا پہنچے اور شکایتی لہجے میں گویا ہوئے’’بھائی ابوبکرؓ! آج کل کہاں غائب رہتے ہیں؟‘‘ ابوبکرؓ نے سوچ میں ڈوبی گہری نگاہوں سے عثمان کی طرف دیکھا۔ خود حضرت ابوبکرؓ بھی کسی مناسب موقعے کی تلاش میں تھے اور آج عثمان کے سوال نے وہ موقع فراہم کر دیا۔ بولے’’بھائی عثمان! مَیں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور تمہیں بھی اسلام کی دعوت دیتا ہوں‘‘۔ عثمان، رسول اللہﷺ کی دعوتِ اسلام سے واقف تو تھے، لیکن اس پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا تھا۔ ابھی وہ حضرت ابو بکرؓ کی دعوت پر کوئی فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اچانک سرکارِ دوعالمﷺ، حضرت علیؓ کے ساتھ وہاں تشریف لے آئے اور پھر اللہ نے اپنے محبوبؐ کے لیے ایک اور پاک دامن، سخی اور غنی کا انتخاب کر لیا۔ یکایک حضرت عثمانؓ اٹھے اور رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر بیعت کر کے سرفروشانِ اسلام کی صفوں میں داخل ہو گئے۔

جگر گوشۂ رسولﷺ، حضرت رقیہؓ کے ساتھ نکاح

اُن ہی دنوں ابولہب کے دونوں بیٹوں نے حضورﷺ کی صاحب زادیوں کو طلاق دے دی تھی۔ حضرت عثمانؓ نے حضورﷺ سے حضرت رقیہؓ کا رشتہ مانگا اور نبی کریمﷺ نے اپنی لختِ جگر کا اُن سے نکاح کر دیا۔ دونوں مثالی میاں، بیوی تھے اور دونوں ہی اسلام کے شیدائی اور اقامتِ دین کے پُرجوش داعی۔

راہِ حق میں تکالیف

حضرت عثمانؓ نے قبیلے اور خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود راہِ حق کے پُرخار اور کٹھن راستے کو اپنے لیے پسند کیا۔ چچا، حکم بن ابوالعاص آپؓ کو رسّی سے باندھ دیتا، پھر اہلِ خانہ شدید تشدّد کا نشانہ بناتے۔ یہ روز کا معمول تھا۔ ظلم و ستم اور تشدّد کا ہر حربہ آزمایا گیا، لیکن آپؓ کے پائے استقلال میں کوئی جنبش نہیں آئی، بلکہ دین سے محبّت شدید سے شدید تر ہوتی چلی گئی۔ آپؓ کہتے تھے کہ’’تم لوگ میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو، تب بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبّت سے منہ نہ موڑوں گا۔‘‘

ہجرتِ حبشہ و مدینہ

جب ظلم و تشدّد تمام حدود پار کر گیا، تو اللہ کے حکم سے نبی کریمﷺ نے ان مظلوم لوگوں کو ہجرت کی اجازت دے دی۔ چناں چہ نبوّت کے پانچویں سال، حضرت عثمانؓ اپنی اہلیہ اور15دیگر افراد کے ساتھ حبشہ ہجرت کر گئے۔ اس موقعے پر رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ حضرت لوطؑ اور حضرت ابراہیمؑ کے بعد یہ پہلا جوڑا ہے، جس نے اللہ کی راہ میں اپنا وطن چھوڑا‘‘ (ابنِ ہشام)۔ کچھ عرصے بعد قریش کے اسلام لانے کی غلط اطلاع پر واپس مکّہ تشریف لائے، لیکن یہاں کے ابتر حالات دیکھ کر دوبارہ حبشہ چلے گئے۔ اسی دوران آپؓ کے صاحب زادے، عبداللہ کی ولادت ہوئی۔ حبشہ میں کئی سال قیام کے بعد ایک بار پھر واپس مکّہ آئے ،لیکن یہاں کے مخدوش حالات کی وجہ سے حضورﷺ کی اجازت سے مدینہ ہجرت کر گئے۔

حسب ونسب

آپؓ کا شجرۂ نسب کچھ یوں ہے۔ عثمان بن عفّان بن ابوالعاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب القرشی الاموی ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں آپؓ کی کنیت ابو عمرو تھی، لیکن مسلمان ہونے کے بعد حضرت رقیہؓ کے بطن سے ایک صاحب زادے پیدا ہوئے، جن کا نام ’’عبداللہ‘‘ رکھا گیا، چناں چہ آپ ؓکی کنیت’’ابو عبداللہ‘‘ ہو گئی۔ حضرت عثمانؓ کی نانی، حضور نبی کریمﷺ کے والد، عبداللہ بن عبدالمطلب کی حقیقی بہن تھیں۔

حلیۂ مبارک

حضرت عثمانؓ کا قد درمیانہ، چہرہ سُرخ و سفید تھا، جس پر چیچک کے ہلکے داغ تھے۔ داڑھی گھنی تھی، جسے حنا سے رنگ لیا کرتے۔ سر کے بال خُوب صورت گھونگھریالے اور کانوں سے نیچے تک آتے تھے۔ جسم کی ہڈیاں چوڑی اور شانوں کے درمیان فاصلہ زیادہ تھا۔ پنڈلیاں بَھری ہوئی تھیں۔ دانت خُوب صورت تھے، جنہیں مضبوطی کے لیے سونے کے تاروں سے باندھ رکھا تھا۔ آپؓ شکل و شمائل میں حضورﷺ سے مشابہ تھے۔

شرم و حیا

حضرت عثمانؓ شرم و حیا کے پیکر تھے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا کہ ’’جس طرح عثمانؓ، اللہ اور اُس کے رسولﷺ سے حیا کرتے ہیں، اسی طرح فرشتے اُن سے حیا کرتے ہیں۔‘‘

کاتبِ وحی

حضرت عثمانؓ کی تحریر بہت پختہ، صاف اور خُوب صورت تھی۔ نیز، انتہائی راست باز اور دیانت دار بھی تھے۔ سو، آنحضرتؐ نے آپؓ کو’’ کاتبِ وحی‘‘ جیسے عظیم منصب پر فائز فرمایا۔ نیز، آپؓ کا شمار قرآنِ کریم کے اوّلین حفّاظ میں بھی ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک کی اتنی عمدہ قرأت کرتے کہ سُننے والے مدہوش ہو جاتے۔ آپؓ نے اُمّ المومنین، سیّدہ حفصہؓ سے قرآنِ مجید کا وہ اصل نسخہ منگوایا، جو خلافتِ صدیقیؓ میں حضرت زید بن ثابتؓ اور دوسرے صحابہؓ نے مرتّب کیا تھا۔ آپؓ نے اس نسخے کی بہت سی نقول کتابت کروا کر تمام شہروں میں روانہ کیں۔یوں مسلمانوں کو قرآنِ پاک کی ایک ہی قرأت پر جمع کرنا آپؓ کا بڑا کارنامہ ہے۔

’’ ذوالنّورین‘‘ کا تاریخ ساز لقب

رمضان2ہجری میں مسلمان معرکۂ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ حضرت رقیہؓ کو چیچک نکل آئی۔ آنحضرتؐ نے آپؓ کو غزوۂ بدر میں شرکت سے روک کر اہلیہ کی تیمارداری پر مامور فرمایا، لیکن سیّدہ رقیہؓ جانبر نہ ہو سکیں۔ جس وقت حضرت زید بن حارثہؓ فتح کی خوش خبری لے کر مدینے پہنچے، اُس وقت حضرت رقیہؓ کی تدفین کی جا رہی تھی۔ آنحضرتﷺ نے حضرت عثمانؓ کو مالِ غنیمت میں سے حصّہ عطا فرمایا، چناں چہ آپؓ کا شمار اہلِ بدر میں ہوتا ہے۔ حضرت رقیہؓ کے انتقال کے بعد حضرت عثمانؓ غمگین اور اداس رہنے لگے تھے۔ آنحضرتﷺ کو حضرت رقیہؓ سے آپؓ کی محبّت کا علم تھا، چناں چہ آپؐ نے اپنی دوسری صاحب زادی، اُمّ ِ کلثومؓ کا نکاح اُن سے کر دیا۔ اس نسبت سے آپؓ ’’ذوالنّورین‘‘ یعنی’’ دو نور والے‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کے علاوہ، دنیا میں کوئی دوسرا شخص ایسا نہیں گزرا، جس کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آئی ہوں۔ 9ہجری میں سیّدہ اُمّ ِ کلثومؓ بھی اللہ کو پیاری ہو گئیں، تو حضورﷺ نے فرمایا’’ اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو ایک، ایک کر کے اُنہیں عثمان ؓکے نکاح میں دے دیتا۔‘‘

سخاوت و فیّاضی

زمانۂ جاہلیت میں حضرت عثمانؓ اور آپؓ کے خاندان کا شمار مکّہ کے انتہائی صاحبِ ثروت افراد میں ہوتا تھا۔ مال و دولت کی افراط کے ساتھ ہی اللہ نے دِل بھی غنی دیا تھا۔ حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے’’جیش ِعسرہ‘‘ میں امداد کے لیے حضرت عثمانؓ کے پاس پیغام بھیجا۔ آپؓ نے اُسی وقت دس ہزار دینار لا کر آپﷺ کے قدموں میں ڈال دیئے۔ اس کے بعد مزید ایک ہزار اونٹ، ستّر گھوڑے اور ایک ہزار دینار آپﷺ کی خدمت میں پیش کیے۔ حضور اکرمﷺ نے اس موقعے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا’’آج کے بعد عثمانؓ کا کوئی عمل اُنہیں ضرر نہیں پہنچائے گا۔‘‘ علاوہ ازیں، مسلمان جب ہجرت کر کے مدینہ آئے، تو یہاں میٹھے پانی کا صرف ایک ہی کنواں تھا اور وہ بھی ایک یہودی کی ملکیت تھا، جو نہایت گراں قیمت پر پانی فروخت کیا کرتا تھا۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو پانی کی بڑی تکلیف تھی۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا’’ جو اس کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دے، اس کے لیے جنّت لازم ہو گئی۔‘‘ حضرت عثمانؓ نے اس کنویں کو یہودی سے خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔نیز، جنگِ تبوک میں آپؓ نے650اونٹ، 50گھوڑے آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کیے۔ مسلمان ہونے کے بعد آپؓ کثرت سے غلاموں کو آزاد کرتے، غریب غربا کی مالی امداد کرتے۔ اسی سخاوت و فیّاضی کی وجہ سے آنحضرتﷺ نے آپؓ کو ’’غنی‘‘ کا لقب عطا فرمایا۔

بیعتِ رضوان

کفّارِ مکّہ نے حضور نبی کریمﷺ اور صحابہ کرامؓ کو عُمرے سے روکا، تو آپؐ نے حضرت عُمر فاروقؓ کے مشورے پر حضرت عثمانؓ کو سفیر کے طور پر مکّہ سے روانہ کیا، کیوں کہ اہلِ مکّہ حضرت عثمانؓ کی بڑی عزّت کیا کرتے تھے۔ قصّہ مختصر، کفّار نے حضرت عثمانؓ کی بات تسلیم نہ کی اور جب وہ واپس آنے لگے، تو اُنھیں روک لیا، جس پر اُن کی شہادت کی افواہ پھیل گئی۔ اس موقعے پر حضور ﷺ نے فرمایا’’ اگر ایسا ہے، تو عثمانؓ کا قصاص لینا فرض ہے۔‘‘ یہ فرما کر ایک درخت کے سائے میں تشریف لے گئے اور آواز دی”بایعوا علی الموت” ( سر دھڑ کی بازی لگانے پر بیعت کرو )، رسولﷺ کی آواز سُنتے ہی تمام صحابہؓ بیعت کے لیے ٹوٹ پڑے۔ سورۂ فتح میںاللہ تعالیٰ نے اسی بیعت سے متعلق فرمایا’’بے شک، اللہ ان مسلمانوں سے خوش ہوا، جب کہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے۔‘‘ اسی سے متعلق ترمذی شریف میں حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا’’جن لوگوں نے (حدیبیہ میں) درخت کے نیچے بیعت کی، اُن میں سے کوئی بھی جہنّم میں داخل نہیں ہو گا۔“ حضرت عثمانؓ وہاں موجود نہیں تھے، چناں چہ آپؐ نے اپنے داہنے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا’’یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے‘‘، پھر اس کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا ’’یہ عثمانؓ کی بیعت ہے‘‘ (بخاری)۔ اس میں یہ لطیف اشارہ بھی تھا کہ حضرت عثمانؓ زندہ ہیں۔صحابۂ کرامؓ کی یوں دیوانہ وار بیعت کی اطلاع قریشِ مکّہ تک پہنچی، تو وہ خوف زَدہ ہو کر معاہدے پر مجبور ہوگئے۔

بیعتِ خلافت

حضرت عُمر فاروقؓ کی تدفین کے تیسرے روز، 4محرم الحرام24ہجری کو حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے طویل مشاورت کے بعد منبرِ رسولﷺ پر بیٹھ کر آپؓ کی خلافت کا اعلان کیا۔ آپؓ نے سب سے پہلے عصر کی نماز پڑھائی۔ اُس وقت آپؓ کی عمر70سال تھی۔

انگشتری مبارک

حضرت عثمانؓ کے خلیفہ بننے کے بعد رسول اللہﷺ کی انگشتری( مُہر) ان کو ملی۔ ایک مرتبہ حضرت عثمانؓ ایک کنویں’’بیر اریس‘‘ پر تشریف لے گئے، جس میں وہ انگوٹھی گر گئی اور لاکھ کوشش کے باوجود نہ مل سکی۔ حضرت عثمانؓ کو اس کا بڑا ملال تھا۔

شہادت کی بشارت

حضرت ابنِ عُمرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے فتنوں کی خبر دی اور حضرت عثمانؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ’’ ایک فتنے میں یہ بھی شہید ہوں گے۔‘‘

گھر کا محاصرہ اور شہادت

آپؓ کی خلافت کے ابتدائی چھے سال نہایت پُرامن اور پُرسکون تھے، لیکن پھر سازشوں کا ایک نہ رُکنے والا سلسلہ شروع ہو گیا، جس میں یہود و نصاریٰ کی پشت پناہی میں منافقین اور عبداللہ بن سبا پیش پیش تھے۔ بالآخر35ہجری، شوال میں ایک ہزار کے قریب کوفہ اور بصرہ کے باغی اور اسلام دشمن بھیس بدل کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے اور آپؓ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ان دنوں صحابۂ کرامؓ کی بڑی تعداد حج کے لیے مدینۂ منورہ سے روانہ ہوچُکی تھی، جس سے باغیوں نے فائدہ اٹھایا۔ یہ محاصرہ چالیس روز تک جاری رہا۔ اُمّ المومنین، حضرت اُمّ ِ حبیبہؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ سمیت دیگر صحابہؓ نے باغیوں کو سمجھانے اور محاصرہ ختم کروانے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنی اس کوشش میں کام یاب نہ ہو سکے۔ حضرت علیؓ اور حضرت ابوہریرہؓ، حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور باغیوں سے جنگ کی اجازت چاہی۔ آپؓ نے فرمایا کہ’’ مَیں نہیں چاہتا کہ میرے لیے کسی کا خون بہایا جائے اور وہ بھی رسول اللہؐ کے محبوب شہر مدینے میں۔‘‘ صُورتِ حال کی سنگینی کے پیشِ نظر حضرت علیؓ نے اپنے نورِ نظر حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو آپؓ کے گھر کے پہرے پر مامور کر دیا۔ اسی طرح حضرت زبیرؓ اور حضرت طلحہؓ نے بھی اپنے صاحب زادوں کو پہرے پر مقرّر کیا۔ محاصرے کے آخری دنوں میں بہت سختی کر دی گئی۔ اہلِ مدینہ اپنے گھروں میں محصور ہو چُکے تھے، جو بھی مداخلت کرتا، باغی اُسے شہید کر دیتے۔ حضرت عثمانؓ کے گھر کا پانی تک بند کر دیا گیا۔18ذی الحجہ35ہجری بروز جمعہ ،آپؓ روزے سے تھے، اسی حالت میں غشی طاری ہوئی، تو دیکھا کہ سرکارِ دوعالمﷺ، سیّدنا ابوبکرؓ اور سیّدنا عُمر فاروقؓ کے ساتھ موجود ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ’’اے عثمانؓ! آج کا روزہ ہمارے ساتھ افطار کرنا۔‘‘ آنکھ کُھلی، تو زوجہ سے فرمایا’’آج ہماری شہادت کا دن ہے۔ رسول اللہﷺ ہمارے منتظر ہیں۔‘‘ بیس غلام آزاد کیے، نیا جامہ زیبِ تن کیا اور قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے بیٹھ گئے۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ بلوائیوں نے مرکزی دروازے کو آگ لگا دی۔ پہرے دار آگ بجھانے میں مصروف تھے کہ اسی اثناء میں محمّد بن ابوبکرؓ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ پچھلی جانب سے ایک انصاری، عمرو بن حزم کے مکان کی کھڑکی سے حضرت عثمانؓ کے گھر کے اندر داخل ہو گیا۔ آپؓ نے فرمایا’’ بھتیجے! اگر تمہارے والد زندہ ہوتے، تو تمہاری اس حرکت کو ہرگز پسند نہ کرتے۔‘‘ یہ سُن کر محمّد بن ابوبکرؓ پیچھے ہٹ گیا، لیکن اس کے ساتھی بے قابو ہو گئے۔ کنانہ بن بشیر نے لوہے کی بھاری سلاخ آپؓ کے سر پر ماری، جس سے خون کا فوّارہ پھوٹ پڑا۔ سودان بن حمران نے تلوار کا وار کیا۔ آپؓ کی زوجہ نے اسے اپنے ہاتھ پر روکا، جس سے اُن کی تین انگلیاں کٹ کر الگ ہو گئیں۔ اتنے میں عمرو بن الحمق آپؓ کے سینے پر چڑھ بیٹھا اور پے در پے نیزے کے نو وار کیے، اس پر بھی بس نہیں چلا، تو اُس نے تلوار کا وار کر کے آپؓ کو شہید کر دیا۔ دنیا کی عظیم اسلامی سلطنت کے سربراہ، دامادِ رسولﷺ، شرم و حیا کے پیکر کے جسمِ اطہر سے جاری ہونے والے خون سے قرآن پاک کے اوراق تر ہو چُکے تھے۔ آپؓ کے گھر کو لُوٹ لیا گیا۔ جہنّم کے سوداگر، گھر سے باہر ننگی تلواریں لیے فتح کا جشن منا رہے تھے۔ ایسے میں حضرت عثمانؓ کو جو کپڑے آپؓ نے زیبِ تن کیے ہوئے تھے، اسی میں نمازِ جنازہ کے بعد جنّت البقیع میں سُپردِ خاک کر دیا گیا۔ حضرت عثمانؓ کی مظلومانہ شہادت اسلامی تاریخ کا ایک اندوہ ناک اور تاریک باب ہے، جس کے بعد مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا آغاز ہوا اور اُمّت پھر کبھی متحد نہ ہو سکی۔ شہادت کے وقت آپؓ کی عُمر82سال تھی۔ بعض کتب میں90سال درج ہے۔ آپؓ نے12دن کم12سال، خلافت کے فرائض انجام دیئے۔

قاتلوں کا انجام

یزید بن حبیب سے روایت ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کیا تھا، اُن میں سے اکثر دیوانے (پاگل) ہو کر جہنّم رسید ہوئے‘‘ (ابنِ عساکر)۔