مسقط کے شاعر اور امریکا

December 22, 2018

امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں قطر اور عمان کا بہت اہم کردار ہے ۔طالبان کے حوالے سے امریکا ،چین ،افغانستان اور پاکستان کے مذاکرات کے کئی دور عمان کے شہر مسقط میں ہو چکے ہیں ۔امریکا اور طالبان میں گذشتہ ہفتے متحدہ عرب امارات میں ہونے والے مذاکرات میں بھی مسقط کےکردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کے سبب امریکا نے افغانستان سے بہت بڑی تعدادمیں فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا ہے ۔صدر ٹرمپ نے ا پنی انتخابی مہم کے دوران فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا تھا مگر انہیں یو ٹرن لینا پڑا تھا ۔ انہوں نے اپنے انتخابی وعدے کے برعکس افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا تھا۔کہتے ہیں کہ پینٹاگون نے انہیں مجبور کیا تھا کہ امریکاکےلئے اس کے سوائے اور کوئی چارہ نہیں مگر مسقط کے حکمران سلطان قابوس کی مسلسل یہی کوشش رہی کہ صدر ٹرمپ اپنے وعدے کا پاس کریں اور آخر کار وہ اس میں کامیاب ہو گئے ۔

میں اس وقت مسقط میں موجود ہوں۔مسقط عربی زبان مقام ِ نزول کو کہتے ہیں ۔یعنی الہام کی جگہ ۔اور اب تو دنیا میں صرف شاعرہی رہ گئے ہیں جنہیں جائے نزول کہا جا سکتا ہے ۔عربی زبان کے شاعر تو مسقط میں بہت سے ہیں مگر اس وقت اپنا موضوع مسقط میں رہنے والے اردو شاعر ہیں ۔گلف کے کسی اور شہر میں شاید ہی اتنے اردو کے شاعر ہونگے ۔مسقط کے سب سے بزرگ شاعر مروت احمد ہیں ۔ مسقط کی سب بڑی پاکستانی تنظیم’’ پاکستان سوشل کلب ‘‘ہے۔کسی زمانے میں مروت احمد بھی اس کا حصہ ہوتے تھے ۔پاکستان سوشل کلب کے زیر اہتمام سال بھر مختلف سوشل ایکٹوٹیز ہوتی رہتی ہیں آج کل مروت احمد کی جگہ ناصرمعروف نے سنبھالی ہوئی ہے ۔اس سوشل کلب کے بائیس سو ممبران ہیں ۔بارہ ڈائریکٹر ہیں جن میں چوہدری عباس ، چوہدری شوکت سے ملاقات نہ ہوسکی وہ مسقط میں موجود نہیں تھے ۔سوشل کلب کے چیئرمین میاں محمد منیر بھی پاکستان گئے ہوئے تھے ۔وائس چیئرمین شبیر احمد ندیم ہیں اُن سے گپ شپ ہوئی جنرل سیکریٹر ی محمد زعیم اختر ہیں ۔فنائس سیکریٹری چوہدری اصغر ہیں اُن دونوں صاحبان کے ساتھ ایک خوبصورت رات ’’مطرح ‘‘کے ساحل سمندر پر گزاری ،بہت ہی خوبصورت جگہ تھی ۔ ایک طرف پہاڑ تھا جس کی چٹانیں روشینوں سے بھر دی گئی تھیں ۔ ڈولفن کے ماڈل جگہ جگہ ایستادہ تھے ۔ جاگنے والے صرف ہم ہی نہیں تھے اور بھی بہت لوگ تھے ۔ایک ٹولی وہیں گھاس پر قالین بچھا کر تاش کھیل رہی تھی ۔ہم بھی بیٹھ گئے ۔ گپ شپ جاری رہی ۔پتہ چلا کہ گذشتہ حکومت سے تعلق رکھنے والوں میں سے کچھ لوگوں نے یہاں بھی کئی لوگوں کے ساتھ مل کر کاروبار شروع کررکھاہے۔یعنی یہاں بھی بے نامی اکاونٹ موجود ہیں ۔ایک شاعر کے متعلق بھی پتہ چلا کہ پہلے وہ چند سو ریال کی ملازمت کرتا تھا اب کروڑوں کے کاروبار کررہا ہے ۔

میں ندیم بھابھہ کے ساتھ ایک مشاعرہ میں شریک ہونے کےلئے یہاں آیا تھا۔جہاں بہت سے شعرائے کرام سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کے ساتھ ادبی موسموں کے مرثیے کہے ،شوکت فہمی کے ساتھ ہارون الرشید کی محبت بھری رتوں کا ذکر ِ خیر رہا۔ظہیر مشتاق کی صورت میں اردو زبان کا ایک نیا افق مجھ پر طلوع ہوا،نوید ہاشمی ، قیصر وجدی، خالد سجاد ، ریاض شاہد ،وحیداسد ،شکیل شہاب ، وجاہت حسین ، عابد مغل ، عمران اسد، رانا سرفراز طاہر ، سید رضوان حیدر ، موسیٰ کشمیری ،قمر ریاض ، محمد علی فضل اور مقبول شیخ کے ساتھ اردو شاعری کی نئی بستیوں سے نکلتی ہوئی تابناک روشنی موضوع گفتگو رہی ۔

سیاسی موضوعات پر کاشف احمد سے لمبی ڈسکشن ہوئی ، پی ٹی آئی کی حکومت سےتبدیلیوں کی یقین بھری امید مجھے ہر لمحہ اُس کی آنکھوں میں دکھائی دی۔ صرف کاشف پر کیا موقوف دیارِ غیرمیں رہنے والے تمام پاکستانی عمران خان پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ضرور نئے پاکستان کی تکمیل کا عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیں گے ۔مسقط میں رہنے والے پاکستانیوں کی بین الاقوامی معاملات پر بھی بہت گہری نظر ہے ۔ایک شاعر کی نظم میرےلیے بڑے تعجب کا سبب تھی کہ

’’امریکا ہار گیا اور افغانستانی جیت گٗئے

یعنی روپ بدل کر اپنے پاکستانی جیت گئے

میں نے اُس شاعر سے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی افغانستان میں ناکام ہو چکی ہے ۔ موجودہ حکومت ویسے انڈین نواز ہے وہ پاکستان کے حق میں ہو ہی نہیں سکتی اور طالبان ہمارے خلاف ہیں تو اچھے اور برے طالبان کا ذکر خیر ہوا۔ہاں تو بات ہورہی تھی کہ امریکا افغانستان سے واپس جارہا ہے ۔ابھی تک کچھ لوگ اس امریکی اعلان پر یقین نہیں کر رہے ۔اس وقت افغانستان میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب امریکی فوجی موجود ہیں ۔تقریباً اسی ہزار کے قریب نیٹو کے ممالک کے فوجی بھی افغانستان میں موجود ہیں اس کے باوجود افغانستان کے ستر فیصد حصے پر افغان گورنمنٹ کی عمل داری نہیں ہے ۔صدراوباما کے دور میں بھی افغانستان سے فوجیں واپس بلانے کی ایک کوشش کی گئی تھی مگر پیٹاگون اس میں کامیاب نہیں ہوا تھا ۔اس مرتبہ تقریباً پچاس ہزار فوجی واپس چلے گئے تھے مگر پھر فوجیں نکالنے کا عمل روک دیا گیا تھا ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی فوجیوں کے انخلا کی صورت میں افغان حکومت افغانستان پر اپنا تسلط برقرار رکھ سکے گی ۔دوہزار پندرہ سے لے کر اس وقت تک تقریباً تیس ہزار افغان فوجی ہلاک ہو چکے ہیں اورساٹھ امریکی فوجی بھی ۔طالبان کی طرف سے مسلسل یہی مطالبہ کیا گیا کہ افغانستان میں اسی وقت امن قائم ہو گا جب غیر ملکی فوجی افغانستان سے نکل جائیں گے ۔ اب دیکھئے کیا ہوتا ہے کہ مسقط کے شاعرکی دوررس نگاہ کہاں تک درست کام کرتی ہے۔