معاشی خود کفالت ہی واحد حل

January 12, 2019

اسلام آباد میں پاک چین پبلک آڈٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ آڈٹ کے ادارے کا مضبوط ہونا معاشی ترقی اور استحکام کے لئے ضروری ہے۔ عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کو ایمانداری، شفافیت اور دانش مندانہ طریقے سے خرچ کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور اس حوالے سے آڈیٹر جنرل کا کردار اہم ہے، سرکاری فنڈز کے بہتر استعمال کو یقینی بنانے اور آڈٹ نظام کی بہتری کے لئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان اپنی بھرپور صلاحیت سامنے لائیں۔ سینئر صحافیوں سے گفتگو میں وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں، آئی ایم ایف سے رابطہ ہے اور مسلسل مذاکرات جاری ہیں جیسے ہی اچھا پروگرام فائنل ہوگا معاہدہ کرلیں گے، ان کے بقول دوستوں سے لئے گئے قرض پر سود دینا ہوگا۔ یہ حقیقت حکمران جماعت سے بہتر کو ن جان سکتا ہے کہ عوام نے انہیں ملک کی باگ ڈور کیوں سونپی ، یقیناً اسے ملکی دولت واپس لانے کے نعرے اور عوام کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے انتخابی دعوے بھی یاد ہوںگے، یہ بھی کہ عوام نے نئی حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کا نہایت صبر واستقامت سے وقت دیا اور کسی طرف سے بھی حکومت پر تنقید نہ کی گئی۔ دریں حالات حکومت کو یہ حقیقت بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ابہام کی فضا سے بدگمانیوں اور مشکلات کے بگولے ہی برآمد ہوا کرتے ہیں اور صبر کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ عوام کے نزدیک تبدیلی بنیادی اشیائے ضروریہ کی فراوانی اور ارزاں دستیابی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت نے مالیاتی بحران سے نکلنے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی، آئی ایم ایف کو بطور آخری آپشن رکھا اور دوست ممالک سے رجوع کرنے کا احسن فیصلہ کیا۔ آئی ایم ایف سے بلاشبہ یکمشت بیل آئوٹ پیکیج مل سکتا تھا لیکن اس کےلئے کچھ ایسے فیصلے کرنا پڑتے کہ مہنگائی، جو پہلے ہی عام آدمی کو نڈھال کئے ہوئے ہے، بے لگام ہو جاتی۔ علاوہ ازیں آئی ایم ایف کو پاک چین معاہدوں کی تفصیل بھی دینا پڑتی کہ اسے خدشہ تھا کہ پاکستان اس سے مالی امداد لے کر چین کا قرضہ یا سود ادا کرے گا۔ اس پر پاکستان کی بجائے چین نے جواب دیا، دسمبر 2018کے اوائل میں کراچی میں تعینات چینی قونصل جنرل لانگ ڈنگ بن نے پاکستان سے معاشی روابط کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چین ، پاکستانی معیشت کے استحکام کے لئے قرض فراہم کرنے کے بجائے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ بعد ازاں چینی سفارتخانے نے مغربی پروپیگنڈا کا جواب دیا کہ پاکستان پر40ارب ڈالر کا قرضہ نہیں، قرضہ صرف 6ارب ڈالر ہے جو 2فیصد کی شرح سے 30برس کے اندر واپس کیا جاسکے گا باقی رقوم چینی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ کاری ہے۔ پاکستان کی دوست ممالک سے تعاون کی کوششیں بھی رنگ لائیں اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ترکی پاکستان سے معاشی روابط میں منسلک ہوئے، اس پر امریکہ اور اس کے ہمنوائوں نے تو کیاخود پاکستان کے کچھ حلقوں نے تشویش کا اظہار کرنا شروع کردیا کہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ اس قدر بڑھ جائے گا کہ اتارنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ سعودیہ اور متحدہ عرب امارات کے تعاون کی تفصیل بھی بیان کی گئی لیکن ابہام جوں کا توں رہا ۔ اس خبر نے تو عوام کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ حکومت نے 5ماہ میں 2240 ارب روپے قرضہ لیا۔ منفی کی بجائے اگر مثبت سوچیں تو کیا یہ اچھی بات نہیں کہ اقتصادی بحران سے نکلنے کی راہ ہموار ہو رہی ہے اور اس کے سوا چارہ بھی کیا ہے؟ اس سلسلے میں شفافیت کی بات خود وزیرخزانہ نے کردی ہے۔ کس ملک نے کتنا قرضہ اور کن شرائط پر دیا عوام کو یہ ساری تفصیلات بتانا خود حکومت کے لئےبہتر ہے۔ دوسری جانب اب ہمیں معاشی خودکفالت کے لئے سی پیک کی تکمیل و فعالیت کے لئے شبانہ روز محنت کرنا ہوگی اور ملک کے تمام تر دیگر وسائل کو بھی بروئے کار لانا ہوگا۔؎