انسانی اسمگلنگ کی روک تھام وزیر اعظم کیلئے بڑا امتحان

January 19, 2019

مظہرعباس
کراچی:…منی لانڈرنگ سے نمٹنےاور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنےکیلئےپاکستان نےکئی سخت اقدامات کیےہیں۔ ان کوششوں کےبہترنتائج نکلے ہیں کیونکہ ایف اے ٹی ایف نے آسٹریلیامیں ہونے وا لےحالیہ اجلاس میں پاکستان کے اِن اقدامات کی تعریف کی ہے۔ اب وقت ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت ’انسانی اسمگلنگ‘ کےخلاف بھی فیصلہ کُن اقدامات کرے، اس کے باعث ماضی میں کافی رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے کیونکہ کچھ دہشتگرد پاکستانی ایئرپورٹس سے جعلی دستاویزات پرسفرکرتے ہوئےپائےگئے۔ آج اسلام آباد اِن سرگرمیوں کا گڑھ سمجھاجاتاہےاور چاررکنی ہائی پروفائل ایف آئی اےکی ٹیم نےچندایف آئی اےاورایک دوسری انٹلیجنس ایجنسی جو وزارتِ داخلہ کے ماتحت ہے، کے اہلکا ر و ں کے مبینہ طورپر ملوث ہونےکی تصدیق کی ہے، یہ لوگوں کو جعلی دستاویزات اور جعلی پاسپورٹ پر بیرونِ ملک بھیجتے تھے۔ وزیراعظم عمران خان، جن کےپاس وزارتِ داخلہ کا قلمدان بھی ہے، کو اب حتمی فیصلہ کرناہوگا کہ کس طرح اس سےنمٹنا ہے۔ اس فائل کو چھپایا اس لیے بھی نہیں جاسکتا کیونکہ یہ معاملہ برطانوی انتظامیہ کے علم میں بھی ہے، جو اس معاملے پر کافی حساس ہیں کیونکہ انھوں نےپہلی بار 4سال قبل اوربعد میں بھی کئی بارہماری ایجنسیوں کوخبردار کیاتھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہواہے کہ صرف اسلام آباد ایئرپورٹ سے جعلی دستاویزات پر باہر جانےوالوں کی تعدادتقریباً 10ہزارہے۔ ایف آئی اے ذرائع نے تصدیق کی کہ جس طرح سے لوگ جعلی دستاویزات پر باہر جاتے ہیں اورجس طرح ایف آئی اے کےلوگ امیگریشن کائونٹر سے طیارے میں سوار ہونے تک ان کی مددکرتے ہیں، وہ حیران کن ہے۔ ایک ذرائع نے کہاکہ، ہم جانتے ہیں اور سی سی ٹی وی فوٹیج سمیت تمام شواہد ہمارے پاس ہیں۔‘‘ ان تحقیقات کا سب سے زیادہ خوفناک حصہ یہ ہے، جس کا آج ایف آئی اےکو سامناہے۔ انسانی سمگلنگ سے نٹمنے میں یہ مرکزی ایجنسی ہے اور دعویٰ کرتی ہے کہ اس نے چند اہلکاروں کی گرفتاری کیلئے کافی ثبوت جمع کرلیےہیں لیکن افسران میں سے ایک اعلیٰ افسر کی گرفتاری کیلئےوزیراعظم کی منظوری چاہیئے۔ چونکہ اس بات کا امکان ہے کہ اس سے دو ایجنسیوں کے درمیان تنازع پیدا ہوسکتا ہے لہذا وزیراعظم کے حکم کی ضرورت ہے۔ ایک ایماندار ذریعے نے انکشاف کیاکہ وزیراعظم ہائوس میں ایک لابی تحقیقات کی نوعیت اورچند سینئراہلکاروں کے ملوث ہونے سے متعلق وزیراعظم کو گمراہ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ وزیراعظم کا فیصلہ بھی اہم ہے کیونکہ متعلقہ برطانوی انتظامیہ تمام سکینڈل سے باخبرہوگی کیونکہ وہ اس کیس کی پیروی 2004سے کررہے ہیں اور برطانوی عدالت پہلے ہی ایک پاکستانی کو چار سال قید کی سزا سناچکی ہے۔ تاہم برطانیہ کی جانب سے انسانی سمگلنگ کیخلاف مضبوط اقدامات کرنے سےمتعلق کئی بار بتانے کے باوجود زیادہ کچھ نہیں کیاگیا، اگرچہ چند لوگوں کو گرفتارکیاگیاہے۔ لہذا ایک ایسےوقت میں جب پاکستان اور برطانیہ نے قیدیوں کے تبادلے اورمنی لانڈرنگ جیسے معاشی جرائم کوروکنے کیلئےقریبی تعاون کیلئےمیمورنڈم پردستخط کیے ہیں تو انسانی سمگلنگ برطانیہ سمیت کئی ممالک کیلئےایک حساس مسئلہ ہے۔ ایف آئی اے ذرائع نے تصدیق کی ہےکہ انھیں تحقیقات کی مزید پیروی نہ کرنے کیلئے دبائو کا سامناہے لیکن اس کی ٹیم پہلے ہی ملوث افراد کی گرفتارکیلئے کافی ثبوت جمع کرچکی ہے لیکن اس کیلئے منظوری کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں کچھ بڑے نام شامل ہیں۔ ذرائع کہتے ہیں کہ معاملہ پہلے وزیراعظم کے علم میں ہے اورفیصلے کیلئے فائل ان کے سامنے ہے کیونکہ ایف آئی اے حتمی فیصلے کیلئے ان کی منظوری لیتی ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ذرائع کہتے ہیں معاملہ وزیراعظم کے پاس ہے اور وزیرداخلہ برائے مملکت شہریار خان آفریدی کے علم میں بھی ہے، مرکزی ملزمان میں سے ایک کی گرفتاری کافیصلہ جلد ہی متوقع ہے۔ اتنے بڑے سکینڈل کی تحقیقات سے تصدیق ہوئی ہے کہ 2014سے 2018تک 10ہزار6سوافغان اور پاکستانیوں نے جعلی پاسپورٹ اور ویزہ پر برطانیہ اور سپین کاسفرکیا۔ یہ 2014 کی بات ہے جب برطانوی انتظامیہ نے پی کے 785سے باربار آنے والے چند لوگوں سے متعلق پاکستان کوخبردارکیا اور بعد میں ایک پاکستانی اور چند افغانیوں کی گرفتاری کی تصدیق کی، جو پاکستانی پاسپورٹ پر سفرکرچکے تھے۔ کئی بار وارننگ دینے کے باوجود 2017تک زیادہ کچھ نہیں کیاگیا تھا جب ایف آئی اے نےمعاملے کی تحقیقات کیلئےایک چار رکنی کمیٹی بنائی، اس کے باعث کچھ ٹریول ایجنٹس اور انسانی سمگلرز کی گرفتاری ہوئی۔ ایک سینئرایف آئی اے اہلکار نے مجھے بتایاکہ یہ اس مرحلے پر تھا کہ ہمیں سکینڈل میں کچھ ایف آئی اے انسپکٹرز اور اہلکاروں کے ملوث ہونے کا پتہ لگا۔