ـ’’فقط وڈے ماسٹر ہی ہونا‘‘

January 30, 2019

مجھے بچپن سے ہی استاد بننے کی تمنا تھی اور اسی لئے میں نے سائنس کے اساتذہ کے اصرار کے باوجود ایف ایس سی میڈیکل چھوڑ کر فلسفہ، اعلیٰ انگریزی ادب اور معاشیات پڑھنے کو ترجیح دی تھی۔ میری فلسفے سے گہری محبت تھی اور ہے، اور اسی لئے جب ایم اے فلسفہ کرنے کے بعد مجھے پنجاب یونیورسٹی میں پڑھانے کا اعزاز ملا تو یہ میرے دیرینہ خواب کی تعبیر تھی۔ گاؤں جاکر جب میں نے اپنے والد صاحب کو فخر یہ اس بارے میں بتایا تو ان کا جواب تھا کہ ’’وڈا ماسٹر ہی ہو گیاں ہیں نا‘‘ (آخر کار تم بڑے اسکول ماسٹر ہی بن گئے ہو نا)۔ اُس وقت مجھے ان کے جواب سے بہت مایوسی ہو ئی تھی لیکن آج میں سمجھ سکتا ہوں کہ ان کے نقطہ نظر کے مطابق میرا یونیورسٹی میں استاد بن جانا کیوں کوئی بڑا کارنامہ نہیں تھا۔ ان کو جن حکومتی اہلکاروں، پٹواری، تحصیلدار، ڈپٹی کمشنراور آبپاشی اورسیر، سے واسطہ پڑتا تھا میں ان میں شامل نہیں ہو سکا تھا اور یہ بھی سچ تھا کہ جب میں نوکری کرنے کے باوجود گاؤں پہنچ کر تانگے کا کرایہ ان سے مانگ کر دیتا تھا تو وہ مجھے معمولی اسکول ماسٹر کے علاوہ اور کیا سمجھتے؟

میرے والد صاحب پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن ان کوٹھوس زندگی کے تجربے نے جو سکھایا اس کے مطابق وہ میری نوکری کو کمتر سمجھنے میں حق بجانب تھے۔ انہوں نے یہ دیکھا تھا کہ گاؤں میں ان کے قریب ترین دوست جن کے پاس بہت ہی تھوڑی زمین تھی (ہماری زمین کا پانچواں حصہ) ان کے بیٹے ہائی اسکول کے بعد تین سال کا ڈپلومہ لینے کے بعد نہری پانی کے اورسیر بن گئے تھے ۔ وہ اپنی ’کمائی‘ سے زمینیں بھی خرید رہے تھے اور گاؤں کے امیر ترین خاندان نے ان کو اپنی لڑکیوں کے رشتوں سے بھی نوازا تھا۔ یہ رسم آج بھی جاری ہے اور میں نے بھی دیکھا ہے کہ ہمارے گاؤں کے جو غریب لڑکے امریکہ پہنچ گئے ہیں ان کو گاؤں کے نمبرداروں نے اپنی لڑکیوں کے رشتے دئیے ہیں۔ گویا کہ ہر رشتے میں معاشی عنصر غالب تھا اور ہے۔ بلھے شاہ نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں آشکار کیا ہے:

جد آپو اپنی پے گئی

دھی ماں نوں لٹ کے لے گئی

(جب سب کو اپنی اپنی پڑ گئی تو بیٹی ماں کو لوٹ کر لے گئی)

الٹے ہور زمانے آئے

پیو پتراں اتفاق نہ کوئی، دھیاں نال نہ مائے

(زمانے اس طرح سے بدلے ہیں کہ باپ بیٹے میں اتفاق نہیں اور مائیں بیٹیو ں کا ساتھ دینے سے انکاری ہیں)

میں جانتا ہوں کہ آپ میں سے بہت سے لوگ معاشیات کو بنیادی طاقت ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سماجی روایات اور خونی رشتے مادی حقیقتوں سے بالا تر ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے تجربات کے حوالے سے آپ کو بتایا ہے کہ آخرکار معاشی طاقت ہی قوموں اور افراد کی حیثیت کا تعین کرتی ہے۔ امریکہ اس لئے روس کو مات دینے میں کامیاب ہوا کیونکہ وہ معاشی لحاظ سے بہت مضبوط تھا۔

معاشیات کی اہمیت کے بارے میں اتنی لمبی تمہید اس لئے باندھی گئی ہے کہ یہ بتایا جا سکے کہ پاکستان میں کافی معاشی ترقی ہوئی ہے اور اس کو مختلف ٹھوس اشیاء کے حصول کے حوالے سے ہی ماپا جا سکتا ہے۔ چند برس پہلے تک میں خود بھی اس سلسلے میں ابہام کا شکار تھا کیونکہ مجھے یاد ہے کہ جب معیشت دان شاہد جاوید برکی نے ٹیلیوژن اور اس طرح کی اشیاء کی بڑھتی تعداد سے پاکستان کی معاشی ترقی کو ماپنے کی کوشش کی تھی تو مجھے کافی کوفت ہوئی تھی لیکن اب میں بھی سمجھتا ہوں کہ اگرمعاشی ترقی (روحانی اور سماجی نہیں) کو ماپنا ہے تو اسے مادی اشیاء کے حصول کے پیمانے پر ہی ماپا جا سکتا ہے۔

اگرپچھلے چالیس سالوں میں پاکستان میں شہروں سے لے کر گاؤں تک بننے والی سڑکوں ، پلوں، انڈر پاسز کو ہی دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان میں کئی سو نہیں بلکہ کئی ہزار گنا اضافہ ہوا ہے جو کہ قومی دولت میںاضافے کاثبوت ہے۔ شہروں میں بڑھتی ہوئی کاروں کا سڑکیں جیم کردینے والا ہجوم معاشی ترقی نہیں تو اور کیا ہے؟ اب تو گاؤں میں کچے مکان پکے مکانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں، موٹر سائیکلوں اور کاروں کی تعداد میں بھی کئی گنا اضافہ نہیں ہوا بلکہ اب وہاں بھی ہر گھر میں ٹی وی، کپڑے دھونے اور دودھ بلوہنے کی مشینیں عام ہو چکی ہیں ۔ ان سب اشاریوں سے یہ ثابت ہے کہ چار دہائیوں میں معاشی ترقی کی وجہ سے پورے معاشرے کی ہیئت ترکیبی بدل چکی ہے۔

اس پس منظر میں کچھ سیاسی حلقوں کا یہ ڈھول پیٹنا کہ ساری دولت لوٹ کر ملک سے باہر بھیجی جا چکی ہے اور اس وجہ سے ملک میں کوئی ترقی نہیں ہوئی سراسر غلط بیانی ہے۔ چین اور ہندوستان سمیت معاشی ترقی کرنے والے ہر ملک میں بد عنوانیاں بھی ہیں اور بہت سا سرمایہ بھی بیرون ملک منتقل ہوا ہے۔ اب امیر چینیوں کی یورپ اور امریکہ میں جائیدادوں میں کئی ہزار گنا اضافہ ہوا ہے۔ غرضیکہ معاشی ترقی کا بدعنوانیوں اور سرمائے کے باہر منتقل ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اس لئے موجودہ حکومت جن مفروضوں کو لے کر اقتدار میں آئی تھی وہ مستقبل سنوارنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ نہ تو باہر منتقل کیا ہوا سرمایہ واپس آسکتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی خاص فرق پڑتا ہے۔ موجودہ حکومت کوان غلط مفروضوں کو ترک کرکے معاشی ترقی کے لئے نئی حکمت عملی تیار کرنا چاہئے۔