آج کچھ حوصلہ بڑھاتی کہانیاں

February 03, 2019

آج اتوار ہے ۔ آپ گھر پر ہی ہوں گے۔

اپنے بیٹوں بیٹیوں اور پوتے پوتیوں کے درمیان۔ نواسے نواسیاں بھی آج کے دن ملنے آتے ہوں گے۔ معاف کیجئے۔ میں آپ کو اپنا ہم عمر سمجھ کر بات کررہا ہوں۔ حالانکہ قارئین میں تو ہر عمر کے کرم فرما ہوتے ہیں۔ بتائیے۔ کیسا گزر رہا ہے اتوار۔آج اپنا وقت گھر والوں کے ساتھ گزاریں۔ زندگی کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ وسیع حلقۂ احباب کے باوجود جب وقت آتا ہے ۔ علالت کا۔ مسائل میں الجھنے کا۔ یا جب آپ جیل میں ہوتے ہیں تو صرف گھر والے ہی رہ جاتے ہیں۔ جو آپ کا خیال رکھتے ہیں۔ آپ سے محبت۔ تعلق واسطے کے سب عہدیدار۔ رفتہ رفتہ دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔

آج ان لوگوں اور اداروں کی باتیں کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔جو حالات سے مایوس نہیں ہیں۔ اپنے انداز سے اپنے عظیم وطن کو آگے لے جانے میں مصروف ہیں۔ جمہوریت ہو یا مارشل لا معیشت مستحکم ہو یا ڈانواںڈول۔ وہ اپنے معمولات جاری رکھتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:

ہَوا ہے گو تند و تیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے

وہ مرد درویش جسکو حق نے دیے ہیں انداز خسروانہ

ایک بہت ہی دبلے پتلے مرنجاں مرنج عظمت علی خان تھے۔ جو ضعیف ہورہے تھے۔ مگر ارادے ہمیشہ جوان رہتے تھے۔ انہوں نے جذباتی اندازِ فکر رکھنے والے۔ ہر وقت جوشیلے نعروں کی زد میں رہنے والے اس معاشرے میں ’بزم سائنسی ادب‘ کی بنیاد رکھی۔ زحمت کرکے ’جنگ‘ کے دفتر آجاتے۔ یا آرٹس کونسل میں مل جاتے تو اس ماہ ہونے والی بزم سائنسی ادب میں شرکت کی دعوت دیتے۔ جہاں عام ادب کی تخلیق اور ترویج مشکل ہے۔ وہاں سائنسی ادب کے فروغ کے لیے کوشش کرنا ہمّت کی بات بھی ہے۔ اور اس ملک سے درد کا اظہار بھی۔ عظمت صاحب کے انتقال کے بعد ان کے جانشینوں نے اس سفر کو تسلسل دیا ہے۔ اس ماہ بزم سائنسی ادب کی 266ویں نشست ہورہی ہے۔ اب اس کا انعقاد ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی سائنس سینٹر۔ گلشن چورنگی گلشن اقبال کراچی میں ہوتا ہے۔

اس شہر قائد میں ایک ریڈرز کلب بھی ہے جہاں ہر ہفتے کسی ایک کتاب پر نشست ہوتی ہے۔ مصنّف اپنی تازہ کتاب کے بارے میں ایک گھنٹہ کچھ گفتگو کرتے ہیں۔ پھر ریڈرز کلب کے عہدیدار۔ ارکان اور دیگر شرکا مصنّف سے سوال جواب کرتے ہیں۔ میں بھی اپنی کچھ کتابیں یہاں پیش کرچکا ہوں۔ شرکا میں زیادہ تر ریٹائرڈ فوجی اور سول افسر ہیں۔ جنہوں نے ترکِ وطن نہیں کیا۔ یہیں اس وطن کو مستحکم بنانے میں عمر کا آخری حصّہ گزار رہے ہیں۔اب تو اس کلب کو قائم ہوئے 18سال گزر چکے ہیں۔ عیدین۔ محرّم کے ایّام میں ناغہ ہوتا ہے۔ ان ہفتوں کو چھوڑ کر بھی اگر کتاب شُماری کریں تو کم از کم 800کتابوں پر بات ہوچکی ہوگی۔اپنے مقامات آہ و فغاں بدلتے رہتے ہیں۔ مجبوراً۔ آج کل پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ نزد پارک ٹاور ہر جمعرات کو یہ محفل سجتی ہے۔

اس بار ریڈرز کلب نے دن بھی بدلا اور مقام بھی۔ کچھ اپ گریڈ ہوگیا۔ ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں کتاب پیش کی گئی۔ ڈاکٹر جنید احمد اب تک اَن گنت کتابیں قوم کی نذر کرچکے ہیں۔ رشک آتا ہے کتنی محنت کرتے ہیں۔ تحقیق میں راتیں گزارتے ہیں۔ کتاب انگریزی میں ہو یا اُردو اس کی ترتیب۔ صفحہ بندی۔ حوالہ جات۔ کتابیات اور انڈیکس میں بین الاقوامی معیار ملحوظ رکھتے ہیں۔ بنگلہ دیش پر ان کی تصنیف نے برسوں سے پھیلائی گئی بہت سی غلط فہمیوں کو حقائق اور دستاویزات سے غلط ثابت کیا اب ان کی تصنیف India- an appartheid State ۔ بھی انگریزی میں مستند حوالوں سے آئی۔ یہ اس کے اُردو ترجمے۔ ’بھارت ۔ جہاں کوئی نہ سر اٹھاکے چلے‘۔ کی تقریب رُونمائی تھی۔ ریڈرز کلب کی صدر سبوحہ خان مسند صدارت پر تھیں۔ حاضرین میں ہر عمر کے پاکستانی موجود تھے۔

ریڈیو پاکستان کے سینئر پروڈیوسر۔ ہفتۂ طلبہ کے ذریعے کئی نسلوں کی تربیت کرنے والے یاور مہدی بھی کسی نہ کسی درد مند پاکستانی کے ساتھ نشست کا اہتمام کرتے ہیں۔ وہ اپنی ذات میں انجمن ہیں۔ اس نشست کو اب ’بزم یاور مہدی‘ کا نام دے دیا گیا ہے۔ یاور صاحب پُر تکلف عشائیے سے شرکا کی تواضع بھی کرتے ہیں ان کے اس شوق کی سرپرستی امریکہ میں مقیم ان کے صاحبزادے کرتے ہیں۔گزشتہ دنوں نیلوفر عباسی۔ ان کے کالم نویس صاحبزادے وجاہت علی عباسی کی پاکستان آمد پر یاور مہدی نے جو محفل سجائی وہ 137ویں تقریب بتائی جارہی تھی۔

آپ کے شہر ۔ قصبے میں بھی ایسی تقریبات ہوتی ہوں گی۔ نسلوں کی ذہن سازی اسی سے ہوتی ہے۔ مجھے گورنمنٹ کالج جھنگ کی بزم ادب یاد آتی ہے۔ کچھ احباب نے ’بزم فروغ ادب‘ کی بنیاد ڈالی تھی۔ خیر الدین انصاری۔ حنیف باوا۔ شارب انصاری یاد آتے ہیں۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور کی مجلس اقبال اور سوندھی ٹرانسلیشن سوسائٹی۔ ترجمے کا ہمارے ادب اور زندگی میں بہت دخل ہے۔ لیکن اسے با ضابطہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

ترجمے کی طرف توجہ اسی ہفتے آئی اے رحمن صاحب نے دلائی ۔عوام کے درد پر تڑپنے والے احباب نے ایک تحقیقی ادارے انسٹی ٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈاکٹر طارق سہیل اس کے چیئرمین ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید جعفر احمد جو اپنے تحقیقی مقالات اور لیکچرز کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ مرکز پاکستان کے عوام کی زندگی۔ مشکلات اور مسائل پر آزادانہ تحقیق کرے گا۔ آئی اے رحمن ۔ ڈاکٹر مبارک علی۔ ڈاکٹر ہارون احمد۔ زاہدہ حنا۔ غازی صلاح الدین بورڈ آف گورنرز میں ہیں۔ یہ ایک نوعیت کا تھنک ٹینک ہوگا۔

تواتر۔ ترتیب۔ تنظیم۔ اور تربیت زندگی کو خوبصورت بنادیتے ہیں۔ سوشل سیکورٹی کے سابق ڈائریکٹر منفرد مزاح نگار ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی ہر سال جنوری کے دوسرے ہفتے میں پائے کی دعوت کا اہتمام کرتے ہیں۔ شعری نشست کے ساتھ ایک فکری نشست بھی ہوتی ہے۔ سینیٹر عبدالحسیب خان۔ جنرل(ر) معین الدین حیدر ۔ سردار یٰسین ملک ۔ میاں زاہد حسین پر مشتمل مجلس صدارت ہوتی ہے۔ اور قومی یکجہتی موضوع۔ اس سال یہ ان کی 37ویں نشست تھی۔ ایسی محفلیں پاکستان کے ہر کونے ہر شہر میں سجتی ہیں۔ یہ جو کچھ سکون اور ترقی ہے وہ ایسی نشستوں کی پابندی سے ہی ہے۔