مصرعے جو زبان زد عام ہوئے

February 06, 2019

خلیق الزماں نصرت بھوینڈی

زمانہ قدیم سے اردو نثر کی یہ خصوصیت رہی ہے کہ مقررین، مصنفین اور مقالہ نگار اپنی تحریر اور تقریر اور گفتگو پر اثر اور مدلل بنانے کے لیے اشعار، مصرعوں کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ اشعار یا مصرعے بظاہر آسان اور سیدھے لیکن انسانی تجربات کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار کا فسانہ آزاد اور رجب علی بیگ سرور کا فسانہ عجائب برمحل اشعار کی روشن مثالیں ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد کی ہر تقریر تحریر خوبصوت اشعار اور مصرعوں سے مزین ہوا کرتی تھی۔عام بول چال میں بھی بہت سے مصرعے، اشعار محاورے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں برمحل اشعار بھی کہہ لیجیے۔ایسے اشعار کے استعمال سے تقریر و تحریر کا اثر سننے والوں اور پڑھنے والوں پربراہ راست ہوتا ہے ۔ کچھ لوگ اپنی علمی قابلیت کے اظہار کے لیے بھی برمحل اشعار کا استعمال کرتے ہیں بطا اوقات ان اشعار، مصرعوں کا استعمال کی وجہ سے بڑے بڑے افکار و خیالات چند جملوں میں ادا ہوجاتے ہیں گویا سمندر کوزے میں بند ہوگیا۔ یوں طویل تحریر و تقریر کی ضرورت باقی نہیں رہتی اور ایک مصرعے، شعر کی وجہ سے پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ ذیل میں ایسے ہی چند زبان زد عام مصرعے پیش خدمت ہیں۔

اب جگر تھام کے بیٹھو میری باری آئی

……………………

پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

……………………

پھول کھلے ہیں گلشن گلشن

ان مصرعوں کے اشعار کی ضرورت عام بول چال میں نہیں ہوتی، صرف ایک ہی مصرعہ کافی ہے ۔ مصرعوں کے برعکس مکمل اشعار بھی تحریر و تقریر اور گفتگو میں استعمال ہوتے ہیں۔ مثلاً:

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے

مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

……………………

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

(اقبال)

گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آئو کہ گلشن کا کاروبار چلے

(فیض)

مرجائیے کسی سے الفت نہ کیجیے

جان دیجیے تو دیجیے پر دل نہ دیجیے

(سودا)

اٹھ گئی ہیں سامنے سے کیسی کیسی صورتیں

روئیے کس کے لیے،کس کس کا ماتم کیجیے

(آتش)

……………………

یہ بزم مے ہے یہاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کے اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے

(شاد عظیم آبادی)

اس قسم کے اشعار، مصرعے بڑے سلیس اور برجستہ ہوتے ہیں۔ مزید براں ان میں دنیا جہان کا فسفیانہ انداز نہایت سلیس انداز میں ملتا ہے۔