انجمن حیات اسلام کوماضی میں کروڑوں عطیات ملے، خرچ کا ریکارڈ ہی نہیں

February 17, 2019

کراچی (اسد ابن حسن) انجمن حیات اسلام کوماضی میں کروڑوںعطیات ملے تاہم خرچ کا ریکارڈ ہی نہیں،ادارے میں خورد برد کے لئے کمیٹی کے ارکان مشکوک الیکشن وسلیکشن کی بنیاد پر تعینات ہوتے رہتے ہیں،سابقہ انتظامیہ نے ایک دوسرے پربدعنوانی کے الزامات لگادیے جبکہ موجودہ ایڈمنسٹریٹر کا کہناہےکہ اب حالات بہتر ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے حکم کے بعد صوبے بھر کے تمام یتیم خانوں کو سندھ اور فینیج ایکٹ 1976کے تحت رجسٹرڈ کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے جس کے بعد سندھ سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ نے کارروائی کا آغاز کردیا ہے، اس فیصلے کی بنیاد اس وقت پڑی جب گزشتہ برس انجمن حیات اسلام کے زیرانتظام چلنے والے یتیم خانے کو چلانے والے ممبران میں پھوٹ پڑ گئی اور ایک گروپ نے دوسرے کے خلاف کروڑوں روپے خوردبرد کرنے کے الزامات سندھ سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ میں جمع کروائے جس کے بعد مذکورہ یتیم خانے کی آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ کروانے کا فیصلہ کیا گیا اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی ہدایت پر آڈٹ کیا گیا اور 17اعتراضات ثابت کیے گئے اور اس مد میں 9کروڑ سے زائد رقوم کا ریکارڈ ہی موجود نہیں پایا گیا۔ مذکورہ آڈٹ 2012ء سے 2017ء تک کا تھا اور اس وقت اس ادارے کو چلانے والے 52افراد تھے جن میں سے چار تو ادارے سے ہر ماہ خطیر اعزازیہ بھی لیتے تھے۔ ادارے میں کوئی الیکشن نہیں ہورہا تھا اور سلیکشن میں ایک ہی خاندان کے افراد ہی کلیدی عہدوں پر آجاتے تھے، ان میں صدر اطہر علی قریشی، ان کے بھائی اظہر علی قریشی بطور جنرل سیکریٹری، ان کا ایک بیٹا شاہ رخ قریشی نائب صدر اور دوسرا بیٹا محمد علی قریشی بطور خزانچی رہے جس کے بعد اس گروپ نے استعفے دے دیئے اور دوسرے گروپ جس کے سربراہ ابراہیم ممدانی اور دوسرے سرگرم کارکن ظفراقبال تھے ان کو صدر بنا دیا گیا۔ بعد میں اطہر قریشی نے خوردبرد کیے گئے 7کروڑ سے زائد کے پوسٹ ڈیٹڈ چیک جمع کروا دیئے جس میں سے ایک چیک 40لاکھ روپے مالیت کا گزشتہ دنوں کیش بھی ہوگیا، اطہرقریشی نے مستعفی ہونے کے بعد نئے سربراہ ابراہیم ممدانی کے خلاف بھی خوردبرد کے الزامات لگائے اور دونوں گروپوں نے جمشید کوارٹرز تھانے میں ایک دوسرے کے خلاف 2017ء میں پانچ ایف آئی آر درج کروائیں۔ سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ نے درخواستوں کے بعد ادارے کے ڈپٹی ڈائریکٹر انور حسین صدیقی کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا مگر مذکورہ افسر نے سابق سربراہ اطہر علی قریشی کے ساتھ مل کر 30نئے جعلی ممبران بنائے جس پر انور حسین صدیقی کو ہٹا کر ادارے کے ایک اور افسر نواب الدین کو نیا ایڈمنسٹریٹر 25؍مئی 2018ء کو مقرر کیا گیا جس کے بعد ادارے میں یتیم بچوں کی خصوصی دیکھ بھال شروع ہوگئی، 16بچوں کو انجمن حیات اسلام کے انگریزی اسکول میں داخل کروایا گیا ، 26بچے اگلے سیشن یعنی مارچ میں داخل کیے جائیں گے جبکہ 10بچوں کو ہنرمند بنانے کیلئے کاریگر فاؤنڈیشن میں بھیجا جاتا ہے، بچوں کو اسکول اور کاریگر فاؤنڈیشن سے لانے اور لے جانے کیلئے ایک ہائی روف وین بھی خریدی ہے۔ مذکورہ حوالے سے سندھ سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے سیکرٹری طحہٰ فاروقی نے عدالت میں رپورٹ جمع کروائی ہے کہ انجمن حیات اسلام سندھ اور فینیج ایکٹ 1976کے تحت رجسٹرڈ نہیں ، اس ادارے کا آڈٹ کیا گیا تو دس برس میں اس کو 23کروڑ 95لاکھ 7ہزار 998کے عطیات موصول ہوئے جس کے خرچ ہونے کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، ادارے کی ملکیت 4 قیمتی بلڈنگز ہیں جس میں سے دو بلڈنگز میں ادارے کا ایک اسکول، ایک کالج اور ایک یتیم خانہ ہے۔ یتیم خانے کے کچن کے اخراجات صدقات اور خیرات سے روزانہ کی بنیادپر وصول ہوتے ہیں، آمدنی کی مد میں شفافیت نہیں پائی گئی، ادارے کو چلانے کے لیے کمیٹی کے ارکان مشکوک الیکشن /سلیکشن کی بنیاد پر تعینات ہوتے رہتے ہیں۔ ادارے کی انتظامیہ نے تعلیمی ادارے کے لیے ایک وکیل کی غیر قانونی تعیناتی کی اور اس کو تنخواہ کی مد میں 5برس تک ماہانہ مشاہرہ دیا جاتا رہا۔ رپورٹ میں ادارے کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات اور آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سیکرٹری طحہٰ فاروقی نے ’’جنگ‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ انہوں نے تفصیلی رپورٹ عدالت میں جمع کروا دی ہے، رجسٹریشن کے حوالے سے اخبارات میں اشتہار شائع کروا دیئے ہیں، انجمن حیات اسلام کے لیے مزید ارکان کو بورڈ میں شامل کرنے کے لیے 250درخواستیں موصول ہوچکی ہیں، نئے ممبران کو شمولیت کے وقت 5ہزار روپے جمع کروانے ہوں گے اور وہ سالانہ 12ہزار بھی ادارے کو بطور چندہ دینے کے پابند ہوں گے جبکہ سندھ اور فینیج بورڈ تشکیل دے دیا گیا ہے جس کے سربراہ وزیر سوشل ویلفیئر ہوں گے جبکہ ممبران میں ریٹائرڈ ججز، وکلاء اور دیگر معزز شہری اور سرکاری افسران ہوں گے جو سندھ بھر کے یتیم خانے کے معاملات کو دیکھیں گے۔ انجمن حیات اسلام کے آخری و سابق سربراہ ابراہیم ممدانی نے ’’جنگ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کے پیش رو اطہر علی قریشی اینڈ کمپنی نے 9کروڑ کی نہیں بلکہ 15کروڑ کی خوردبرد میں ملوث ہیں، انہوں نےکہا کہ ان کے خلاف تین جعلی ایف آئی آر درج ہوئیں جن میں وہ بری ہوچکے ہیں، ان کی جانب سے خوردبرد کی ایف آئی آر زیرالتوا ہیں اور 30جعلی ممبران ان کے بعد ایڈمنسٹریٹر انور حسین صدیقی اور اطہر قریشی کی معاونت سے بنائے گئے۔ اسی حوالے سے خوردبرد کے الزامات کی زد میں آنے والے سابق سربراہ اطہر علی قریشی نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ ان کے خلاف دو ایف آئی آر درج ہوئیں جس میں ایک میں وہ بری ہوگئے اور ایک زیرالتوا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ان کے مخالف ابراہیم ممدانی بری نہیں ہوئے بلکہ کمپرومائز ہوگیا تھا، انہوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے 7کروڑ کے پوسٹ ڈیٹڈ چیکس عدالت میں جمع کروائے ہیں جبکہ آڈٹ پیرا 17نہیں8پر تحریر ہیں۔ اسی حوالے سے سابق ایڈمنسٹریٹر انور حسین صدیقی کا مؤقف تھا کہ ان پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد تھے اور ان کو ذاتی رنجش اور مالی معاملات پر ایڈمنسٹریٹر کے عہدے سے ہٹایا گیا، موجودہ ایڈمنسٹریٹر نواب الدین کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے چارج سنبھالا تو ادارے کے حالات بہت دگرگوں تھے، کچھ معلوم نہیں تھا کہ کتنا پیسہ آرہا ہے اور کہاں خرچ ہورہا ہے اور کتنا اکاؤنٹس میں موجود ہے، نواب الدین نے رمضان المبارک میں چارج سنبھالا اور صرف اسی ماہ یعنی رمضان المبارک میں ایک کروڑ 98لاکھ کا چندہ وصول کرکے ادارے پر خرچ کیا اور اب معاملات بہت حد تک بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ قانونی کارروائی کے حوالے سے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی آے خلیق الزماں کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے نے ماضی میں وفاق کی ہدایت پر مقدمات درج کیے ہیں اور اس معاملے میں بھی اینٹی کرپشن مالی خوردبرد کی ایف آئی آر زیر دفعہ 406، 409، 477-A، 470، 468 اور 471پی پی سی درج کرسکتی ہے۔ انجمن حیات اسلام یتیم خانے کے دورے کے موقع پر بچے بہت خوش نظر آئے، ایک بچے نے کہا کہ پہلے 400روپے ’’پاکٹ منی‘‘ ملتی تھی اور اب ایک ہزار روپے ملتے ہیں جس میں سے وہ تھوڑا سا خرچ کرکے باقی اپنی والدہ کو دے دیتا ہے، ایک اور بچے کا کہنا تھا کہ پہلے اُنہیں ناشتے میں باقرخانی اور چائے، دوپہر اور رات کے کھانے میں باہر سے آیا ہوا قورمہ یا بریانی ہی ملتی تھی مگر اب کچھ ماہ سے روزانہ الگ الگ ناشتہ، دوپہر اور رات کا کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ ادارے کے مہتمم ندیم کا کہنا تھا کہ اطہر علی قریشی نے 2011ء میں ادارے کا چارج زبردستی حاصل کیا اور ان کے چارج سنبھالنے کے بعد سے ہی مالی معاملات خراب ہونا شروع ہوگئے تھے، اس وقت ادارے میں 76بچے رہائش پذیر ہیں اور ان رہائش پذیر بچوں کے علاوہ 125بچے باہر سے آتے ہیں جنہیں اسی ادارے میں مفت تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔