تنقیدی نظریات

February 24, 2019

مصنّف: کرامت بخاری

صفحات: 152،قیمت: 500 روپے

ناشر:بُک ہوم،بُک اسٹریٹ،46،مزنگ روڈ، لاہور

کرامت بخاری ادبی حلقوں میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ کئی شعری مجموعوں کے خالق ہونے کے علاوہ انہوں نے نثرسے بھی اپنا تعلق استوار کیا ہے،جو کہیں انٹرویوز کی شکل میں، تو کہیں تنقید کی شکل میں نظر آتا ہے۔ زیرِنظر کتاب ’’تنقیدی نظریات‘‘ اپنے نام ہی سے یہ واضح کرتی ہے کہ اس میں مختلف تنقیدی نظریات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ وہ ایک مقام پر (صفحہ نمبر21 )تنقید کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں،’’تنقید ذوق کا معاملہ ہے، جو صدیوں کے مشاہدے، سوچ اور غور و فکر کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ تنقید، ادب کی کسی شاخ میں سال ہا سال کی پُر عزم عرق ریزی کا نام ہے۔‘‘ کتاب میں تنقید کے علاوہ چند شخصیات پر بھی اظہارِخیال کیا گیا ہے۔’’ترقّی پسند تحریک اور نظریات‘‘ کے عنوان سے مصنّف نے (صفحہ نمبر51)پر تحریر کیا ہے،’’سب سے بڑھ کر، بہت سے بڑے بڑے لکھاری پیدا ہوئے، جنہوں نے اُردو ادب کو اپنی علمی اور تخلیقی کاوشوں سے مالا مال کر دیا۔ان میں سجاد ظہیر، احتشام حسین، سبطِ حسن، علی سردار جعفری، فیض، ساحر، مخدوم محی الدین، راجندر سنگھ بیدی، فراق، جذبی، مجاز، کیفی، جانثار اختر، جوش ملیح آبادی، عاشور کاظمی اور احمد ندیم قاسمی تک ایک لمبی فہرست ہے۔‘‘ فہرست میں درج تقریباً سارے ہی نام دُرست ہیں۔ تاہم، جوشؔ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ترقّی پسند تحریک کے ذریعے سامنے آئے، بالکل نامناسب ہے۔ جوشؔ کا اوّلین مجموعہ ’’روحِ ادب‘‘1920ء- 1921ءمیں سامنے آیا۔بھارت میں1931ء میں ’’سانحۂ مسجدِ کانپور‘‘ ہوا، جس میں دو ہزار کے لگ بھگ لوگ مارے گئے اور جوش نے ’’مقتلِ کانپور‘‘ کے عنوان سے انتہائی سخت نظم کہی، جس میں فرنگی سرکار کو للکارا گیا تھا۔بہرحال، تنقید کی مختلف شاخوں سے دِل چسپی رکھنے والوں کے لیے خصوصی طور پر اور ادب سے عمومی دِل چسپی رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب غور و فکر کے کئی دریچے وَا کرتی ہے۔