پاکستانی سیاحت کا خلاصہ

February 24, 2019

پچھلی گرمیوں میں مظفر آباد جانے کا اتفاق ہوا، وہاں ایک ہی اچھا ہوٹل ہے اسی میں ہم ہمارا قیام تھا، اس ہوٹل سے پورا مظفر آباد نظر آتا ہے، شام کو خاص طور سے یہ نظارہ اور بھی دلکش ہو جاتا ہے، جب پورے شہر کی روشنیاں جگمگا اٹھتی ہیں، یوں لگتا ہے جیسے آسمان سے ستارے وادی میں اتر آئے ہوں۔ اس کے علاوہ مظفرآباد شہر میں کوئی خاص جگہ نہیں جہاں آپ تفریح کے لیے جا سکیں، میں نے ہوٹل والوں سے پوچھا کہ آس پاس کون سی جگہ دیکھنے لائق ہے جہاں دن ہی دن میں واپس آیا جاسکے، جواب ملا، پیر چناسی۔ اگلی صبح ہم نے گاڑی نکالی اور ڈرائیور کو کہا لے چلو، یہ تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت تھی، سڑک بالکل نئی تھی، راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی، اطراف میں خشک پہاڑ تھے جنہیں آپ خوبصورت تو نہیں البتہ قبول صورت کہہ سکتے ہیں۔ پوچھتے پچھاتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جس کے آگے یکدم سڑک ختم ہوگئی، ہم نے مقامی لوگوں سے پوچھا کہ پیر چناسی کہاں ہے، جواب میں انہوں نے پوچھا’’کیا آپ پاکستان سے آئے ہیں؟‘‘ یہ سن کر بہت عجیب لگا کہ کیا یہ علاقہ پاکستان میں نہیں ہے، مگر پھر یہ سوچ کر چپ رہا کہ مقامی لوگ اپنے آپ کو ایسے ہی ’’خود مختار‘‘ سمجھتے ہیں، انہوں نے بتایا کہ آپ پیر چناسی پہنچ چکے ہیں اور وہ سامنے جو مزار نظر آرہا ہے وہ پیر چناسی کا مزار ہے۔ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی، جس جگہ کو میں ٹورسٹ سپاٹ سمجھ کر آیا تھا وہاں آٹھ دس پکوڑوں کی دکانیں تھیں، دو تین چائے کے کھوکھے تھے، جس کے کنارے کوڑے کے ڈھیر لگے تھے، ایک جگہ واش روم کا بورڈ لگا تھا مگر بورڈ کی حالت بتا رہی تھی کہ’’اب یہاں کوئی نہیں آئے گا‘‘، پرے ایک مزار پر جھنڈا لہرا رہا تھا اور ساتھ ہی ایک چھوٹی سی عمارت تھی جس پر پولیس گارڈ روم لکھا تھا۔ میں نے عمارت کا دروازہ کھٹکھٹایا، تھوڑی دیر بعد ایک چوکیدار نما شخص برآمد ہوا، رات کا وقت ہوتا تو یقیناً اس کے ہاتھ میں ایک لالٹین بھی ہوتی مگر اس وقت وہ خالی ہاتھ تھا، مہربانی اس نے یہ کی کہ ہمارے لیے گارڈ روم کا دروازہ کھول دیا، اندر دو کمرے تھے جن پر پرانے بستر سلیقے سے بچھائے ہوئے تھے، ساتھ ہی ایک واش روم تھا جس میں چیونٹی کی رفتار سے پانی آرہا تھا، ہم نے اس کی مہمانداری کا شکریہ ادا کیا اور باہر آگئے۔ سوچا کہ کچھ تصاویر بنا لی جائیں، ادھر ادھر دیکھا، کوئی منظر ایسا نہیں لگا جو دل موہ لے مگر پھر بھی ریکارڈ کے لیے کچھ تصویریں لیں، ایک کھوکھے سے چائے پی، دو چار سگریٹ کے کش لیے اور واپس ہو لیے۔ اگلے روز میں نے ہوٹل والوں سے کوئی مشورہ نہیں کیا، ڈرائیور کو کہا کہ سیدھا چکوٹھی بارڈر پر لے چلو، یہ دو اڑھائی گھنٹے کا سفر تھا، راستے میں دریا آپ کے ساتھ ساتھ چلتاہے، پہاڑوں کے درمیان بل کھاتا ہوا، یہ نظارا خاصا دلکش ہے، سڑک صاف ستھری اور پختہ ہے، ٹریفک کی روانی ہے۔ بارڈر سے پہلے چیک پوسٹ پر ہمارے شناختی کارڈ رکھ لیے گئے، بارڈر پر پاک فوج نے ایک ہال نما کمرہ بنایا ہوا ہے، وہاں سے آپ ہندوستان کا علاقہ دیکھ سکتے ہیں، ایک مستعد جوان نے ہمارا استقبال کیا اور دس منٹ کی بریفنگ دی، شاید یہ بریفنگ وہاں آنے والے تمام مہمانوں کو دی جاتی ہے کیونکہ ہم بھی عام مہمانوں کی طرح گئے تھے اور کسی کو پیشگی اطلاع نہیں دی تھی۔ واپسی پر ہم نے سوچا کہ دریا کے کنارے بیٹھ کر چائے پی جائے، بہت مشکل سے ایک جگہ ملی مگر وہاں کوئی بھی موجود نہیں تھا، پورے راستے میں کوئی ڈھنگ کا کیفے ملا اور نہ ریسٹ روم، ایک بھی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں آپ آرام سے بیٹھ کر صاف ستھرا کھانا کھا سکیں۔ مظفرآباد پہنچ کر کسی نے ہمیں ایک اور ریستوران کا پتہ بتایا جو دریائے نیلم کے کنارے واقع تھا، وہاں بھی چلے گئے، بس گزارا ہی تھا۔

یہ ہے خلاصہ ہمارے ملک کی سیاحت کا۔ ہمارے پاس ٹکڑوں میں بٹے ہوئے خوبصورت مقامات ہیں جو بلاشبہ بہت دلکش ہیں، مگر ان مقامات تک جانا جوئےشیر لانے کے مترادف ہے، کشمیر کی بہت سی وادیاں یقیناً بہت خوبصورت ہوں گی مگر وہاں تک جانا ایک مشن ہے اور پہنچنے کے بعد بھی وہاں کوئی ایسی تفریح نہیں جس میں بڑے تو کیا بچے ہی خوش ہوجائیں، خالی خولی پہاڑوں کو کتنی دیر تکا جاسکتا ہے۔ سرما میں برف باری کی خبریں سن کر دل بہت مچلتا ہے کہ کہیں پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر پھسلا جائے،(skiing)کی جائے مگر ساتھ ہی خبر آتی ہے کہ کالام میں برف باری سے سڑکیں بند، ہزاروں سیاح پھنس گئے تو دل بیٹھ جاتا ہے۔ سوات، مالم جبہ، دیر، چترال، گلگت، ہنزہ، سکردو، یہ سب دیکھنے لائق ہیں، لوگ خنجراب تک جاتے ہیں، لطف بھی اٹھاتے ہیں، مگر اس کے لیے انہیں بہت سے پاپڑ بیلنا پڑے ہیں۔ موٹر وے اور بڑی شاہرائوں پر واش روم بھی ہیں، کار مکینک بھی، کھانے پینے کے صاف ستھرے ریستوران بھی ہیں اور چھوٹے موٹے تفریح کے مواقع بھی، انٹرنیٹ کام کرتا رہتا ہے، مگر جونہی آپ مری سے آگے نکلتے ہیں یہ سہولتیں کم ہونا شروع ہوجاتی ہیں، رہنے کے لیے ڈھنگ کا کمرہ نہیں ملتا جس میں تیز گرم پانی دستیاب ہو۔ سیاحت صرف ویزے کھولنے سے ترقی نہیں کر سکتی، یہ ایک پورا پیکج ہے، ہمارے شمالی علاقہ جات بہت حسین ہیں مگر ایسی جگہیں دنیا کے پاس بھی ہیں، دور کیوں جائیں، بھارت میں ہیں، نیپال میں ہیں، سری لنکا میں ہیں، غیر ملکی سیاح وہاں جائے گا جہاں اسے آزادی ہوگی، یہاں نہیں آئے گا جہاں وہ کھل کر کچھ کر بھی نہ سکے اور غیر ملکی سیاح تو بعد کی بات ہے، اپنے ملک کے لوگ ہی ان جگہوں پر نہیں جاپاتے، رو پیٹ کر چلے جائیں تو موبل آئل میں تلے ہوئے پکوڑے اور کڑاھی گوشت کھا کر واپس آجاتے ہیں کہ اور کرنے کو کچھ بھی نہیں ہوتا۔

حل اس کا یہ ہے کہ ایک ٹوارزم ایکٹ پاس کیا جائے جس کے تحت ملک کے مختلف علاقوں کو سیاحت کے لیے مخصوص کر دیا جائے، ان شمالی علاقہ جات سے ابتدا کی جاسکتی ہے جہاں لوگوں کا آنا جانا کم ہے، ایسے علاقوں میں سرکار زمین حاصل کرے، وہاں ترقیاتی کام کروائے، جیسے سڑکیں بنوانا، پانی کی فراہمی، نکاسی آب کا انتظام، ہوٹل، ریستورانوں، سوینیئر شاپس، چیئر لفٹس اور مختلف تفریحات کے لیے جگہیں مختص کرنا وغیرہ۔ یہ کام کرنے کے بعد ان جگہوں کی قیمت میں کم ازکم دس گنا اضافہ ہو جائے گا جس کے بعد حکومت انہیں منافع پر نجی کمپنیوں کو لیز پر دے گی جو وہاں ہوٹل، دکانیں، کیفے، skiing resortبنائیں گے(بالکل اسی طرح جیسے بھوربن کی زمین کی قیمت محض ایک ہوٹل کی وجہ سے زیادہ ہے جبکہ اسی طرح کے سپاٹ اور بھی ہیں مگر وہاں اراضی سستی ہے)۔ ٹوارزم ایکٹ کے تحت ایک اتھارٹی قائم کی جائے ۔ جس کی اپنی پولیس ہوگی جس کا کام سیاحوں کی حفاظت اور ان کی مدد کرنا ہوگا، موٹر وے پولیس کی طرح یہ پولیس کا علیحدہ ونگ ہو جس کا روایتی پولیس سے کوئی تعلق نہ ہو، ٹورسٹ تھانہ اس کی حدود میں ہو، یہ سیاحتی اتھارٹی جنگلات اور ماحولیات کی ذمہ دار بھی ہوگی، اس کے دائرہ کار میں جو سیاحتی علاقہ دیا جائے گا اس میں کوئی مداخلت نہ ہو، اس علاقے کی ثقافت کی حفاظت کرنا اور اس کی ترویج کرنا بھی اسی کا کام ہو، اس علاقے میں سیاحت کے فروغ سے جو آمدن ہو اس کا پچیس فیصد مقامی لوگوں پر خرچ کیا جائے۔ حکومت ایسے صرف پہلے منصوبے پر پیسے لگائے گی، اس کی آمدن سے دوسرا سیاحتی مقام منتخب کرکے ترقیاتی کام شروع کیا جائے گا اور پھر چل سو چل، مگر خاطر جمع رکھیں، ان میں سے کوئی کام نہیں ہوگا، پاکستان کی خوبصورتی دیکھنے کے لیے ہمیں خود ہی ہمت کرنا ہوگی۔