قرضے، گوئٹے اور ہم

February 27, 2019

...oپاکستان 1956ء میں چار کروڑ ڈالر کا مقروض تھا، آزادی کے بعد سیاسی انتشار کے ہوتے ہوئے اقتصادی بدحالی کے یہ انتہائی سال کہے جا سکتے ہیں۔ ایوبی آمریت کے پہلے دو سالوں میں یہ قرض بڑھ کر دس کروڑ تک جا پہنچا، گویا ’’فوجی ویژن‘‘ نے اس قرض کو پہلے دو برس ہی میں اڑھائی گنا کر دیا۔

1972...oء تک یہ قرض بڑھ کر چار ارب ڈالر کے قریب ہو چکا تھا، گویا تیرہ برس میں یہ قرضہ چالیس گنا ہو گیا تھا، 1977ء تک یہ قرض 6ارب 34کروڑ دس لاکھ ڈالر تھا اور ضیاء صاحب کی ’’فوجی حکومت‘‘ کے دورانئے کے دوران میں یہ قرضہ 14 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔

دستیاب مزید تفصیل ترتیب وار، مندرجہ ذیل ہے:۔

7...1978-79...oارب 79کروڑ 20لاکھ ڈالر

8...1979-80...oارب 65کروڑ 80 لاکھ ڈالر

8...1980-81...oارب 76کروڑ 50 لاکھ ڈالر

8...1981-82...oارب 79کروڑ 90 لاکھ ڈالر

9...1982-83...oارب 31کروڑ 20 لاکھ ڈالر

9...1983-84...oارب 46کروڑ 90 لاکھ ڈالر

9...1984-85...oارب 73کروڑ 20 لاکھ ڈالر

11...1985-86..oارب 10کروڑ 80 لاکھ ڈالر

12...1986-87..oارب 2کروڑ 30 لاکھ ڈالر

12...1987-88..oارب91کروڑ 30 لاکھ ڈالر

14...1988-89..oارب91کروڑ ڈالر

15...1989-90..oارب9کروڑ 40 لاکھ ڈالر

15...1990-91..oارب47کروڑ 10 لاکھ ڈالر

17...1991-92..oارب36کروڑ 10 لاکھ ڈالر

19...1992-93..oارب4کروڑ 40 لاکھ ڈالر

20...1993-94..oارب 32 لاکھ ڈالر

22...1994-95..oارب11کروڑ 70 لاکھ ڈالر

22...1995-96..oارب27کروڑ 20 لاکھ ڈالر

23...1996-97..oارب1کروڑ 60 لاکھ ڈالر

32...1997-98..oارب3کروڑ 5 لاکھ ڈالر

41...1998-99..oارب70کروڑ 70کروڑ ڈالر

ooo

اعداد و شمار کی اس کہانی کو 2000تا 2019کے دورانئے تک لے آتے ہیں۔ ترتیب وار درج کرنے کے بجائے مجموعی صورتحال کا نتیجہ بیان کر کے اپنے احساسات کی صورت گری کا کشٹ اٹھائیں گے۔ 2000سے لے کر 2019تک آتے آتے ان قرضوں کا آج کے شب و روز کے مطابق نقشہ یہ ہے۔ ’’اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق موجودہ منتخب حکومت نے ابتدائی پانچ ماہ کے دوران میں 2240ارب روپے کا قرض لیا۔ ان اعدادوشمار میں چین سے لیا گیا 3ارب اور سعودی عرب سے دسمبر 2018میں موصول ہونے والی ایک بلین ڈالر والی آخری قسط شامل نہیں۔ متحدہ عرب امارات سے ملنے والا 3بلین ڈالر کا قرض ایک اور رقم ہے اور متحدہ عرب امارات سے 6ارب ڈالر کا ادھار لیا گیا تیل الگ سے ہے۔ ابھی آئی ایم ایف کا قرضہ موصول ہونے کو ہے جس کے لئے موجودہ منتخب حکومت نے ظاہراً ’’غیرت مندی‘‘ کا بیانیہ اور باطناً ’’منت و زاری‘‘ کا اشک بار ’’تمنانیہ‘‘ اپنایا ہوا ہے۔

پاکستان کے قرضوں اور اقتصادی دبائو کے سرخ نشان تک پہنچ جانے کا یہ مجموعی سا نقشہ، میں نے فضل محمود، محمد الیاس اور بلال غوری کی تحقیقات کی روشنی میں تیار کیا۔ اب ہم خود ون ملین ڈالر سوال کرتے ہیں، پاکستان نے یہ قرضے بلا ضرورت لئے اور اگر ضرورت موجود تھی تب پاکستان اور پاکستان کے عوام کو ان قرضوں سے کیا حاصل ہوا؟ ملک اور عوام دونوں کی زندگیوں میں قومی، ریاستی اور ذاتی سطحات پر کیا تغیرات رونما ہوئے اور اگر یہ تغیرات پاکستان اور اس کے عوام کی اجتماعی انفرادی تقدیر فیصلہ کن سطح پر نہیں بدل سکے تو کیوں نہیں بدل سکے؟

اس سوال کے جواب کا معاملہ جرمنی کے صوفی مفکر گوئٹے کے تذکرہ سے شروع کرتے ہیں، گو یہ ایک عجیب سی اپروچ ہو گی، بہرحال یہ ہے، کس طرح؟ آگے بڑھ کر دیکھتے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

گوئٹے کا گھر وائمار میں 1709میں تعمیر کیا گیا تھا، وہ پچاس برس اس میں قیام پذیر رہا، 1886ء بعد از وفات یہ گھر جرمن قوم کا ایک ’’قومی میوزیم‘‘ قرار پایا۔ سات ہزار کے قریب کتابیں، لائبریری سے ملحق گوئٹے کا لکھنے پڑھنے والا کمرہ اس سے منسلک گوئٹے کی خواب گاہ، جرمن قوم کے اس صوفی مفکر کے ’’قومی میوزیم‘‘ کو 133برس ہونے کو آئے مگر یہ بعینہٖ اسی حالت میں دکھائی دیتا ہے جیسے گوئٹے اسے چھوڑ کر اس دنیا سے سدھارا تھا، جنگ عظیم دوم کے متوقع خطرات کے پیش نظر 1942ء میں اس میوزیم کی تمام یادگار اشیاء محفوظ مقام پر منتقل کر دی گئیں، بعد از جنگ 1949ء میں یہ میوزیم دوبارہ زائرین کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اتحادیوں کی گولہ باری سے عمارت کے جس جس حصے کو جو جو نقصان پہنچا اسے اسی سامان تعمیر سے ازسر نو تیار کیا گیا جو وہ 17ءکی تعمیر میں استعمال ہوا تھا۔ آج آپ گوئٹے کی رہائش گاہ اور اس میوزیم کو دیکھیں۔ آپ کو رتی بھر فرق محسوس نہیں ہو گا۔ جبکہ اس بمباری سے یہ عمارت جزواً ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی۔

جرمن صوفی مفکر گوئٹے کے مکان کی یاد ذہنوں میں مجسم اور ماحول میں رچانے کا یہ عمل شعور یا احساس کی حیات افزا بالیدگی سے مرکب ہے، ہاں! یہ سوچو کیا یہ محض شعور یا احساس کی پیدا کردہ باعزت حیرت ہے، ان دو حالتوں کے سوا کسی اور کیفیت کا جرثومہ بھی جرمن قوم کی اس عظیم سراپے کا ناگزیر جزو ہے، یہ تیسری حالت شعور و احساس کی دونوں حالتوں کے ساتھ اپنی قومی عزت نفس کے فیصلہ کن عزم و ارادہ کے نام سے عبارت ہے۔ چنانچہ جرمنوں نے اپنی شاعری کو، افواہ دہ کسی شعبے سے متعلق نہیں لیتے شعور، ادراک اور عزت نفس کو اپنی قومی سطح کی مثلث سے باہر نہیں نکلنے دیا۔

ہم نے اربوں ڈالرز کے قرضوں کا بوجھ اٹھایا، 1956ء سے 2019کی چھ سات دہائیوں پر مشتمل اس دورانئے میں ملک دو لخت ہوا، تین جنگیں لڑی گئیں، پاکستان کا انفرااسٹرکچر ہر شعبے میں حیران کن حد سے بھی زیادہ ارتقا پذیر ہوا۔ پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت کی مرعوب کن حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔ پاکستان میں تعمیرات و مواصلات اور ذرائع آمدورفت کی بھی ترقی یافتہ ملک کے قریب قریب کئے جا سکتے ہیں۔ اس سارے شاندار ’’قصہ چہار درویش‘‘ کے باوجود ہم عام پاکستانیوں کے شب و روز کیوں نہ بدل سکے؟

بدلنے کا بنیادی سبب جرمن اور دیگر ترقی یافتہ اقوام کے برعکس ہمارے ریاستی اور انفرادی سطحات پر ایسے رویئے تھے اورہیں جو بدنیتی کی پیداوار رہے، جرمن قوم نے اپنے ایک صوفی مفکر کے وجود کی ہمیشگی کے لئے اس کے مکان کی اینٹ اینٹ کی صورت شکل میں رتی بھر تبدیلی گوارا نہ کی، یہ ہوتا ہے ’’شعور، ادراک اور عزت نفس‘‘ کے احساسات کا راج، ہم نے اربوں ڈالرز کے قرضے لئے۔ ملک کے ہر شعبے میں ترقی بھی بے پناہ ہوئی مگر بطور قوم، خواہ وہ ریاستی امانت تھی یا سماجی ہماری ذہنی بدکرداری نے دونوں نوعیتوں کا حشر کر کے رکھ دیا، آج ہم ایک ایسی قوم ہیں جو ایک طرف مادی ترقی کے اہداف میں متاثر کرتی ہے، دوسری طرف ان اہداف کو ہم نے اپنی حد درجہ اخلاقی کرپشن سے مکمل طور پر بے وقعت اور غیر پیداواری کر کے رکھ دیا، استثناء کی مثالیں دینے کی ضرورت نہیں، معاملات زندگی روٹین میں دیکھے جاتے ہیں استثناء کے آئینے میں نہیں۔ ہم کس حد تک اعتدال کے دشمن ہیں، بقول ایک منفرد کالم نگار کے ’’ہمیں 2007ء میں اسٹیل مل کے 22ارب روپے مل رہے تھے لیکن ہم نے اپنی ضد کی وجہ سے اس پر مزید 50ارب روپے ضائع کر دیئے۔‘‘ چنانچہ آج پاکستان کو ہم نے اپنے ریاستی اور ذاتی طرز عمل سے ایک ایسے ملک اور معاشرے میں بدل کے رکھ دیا جہاں کمزور مکمل طور پر غیر محفوظ اور طاقتور مکمل طور پر محفوظ تاآنکہ کوئی بڑا شہ زور اس کی زندگی اجیرن نہ کر دے۔ سو مسئلہ قرضوں کا نہیں اخلاقیات کا ہے اور یہ سچائی دریافت کی ہے حسن نثار نے!