حج ۔۔۔پارلیمنٹ کی سبسڈی کاخاتمہ بھی ضروری ہے

February 27, 2019

minhajur.rabjanggroup.com.pk

سابقہ حکمراں اتنا قرضہ نہ چھوڑتے تو " حج مفت کراتا" ۔یہ بیان سن کر اور پڑھ کر بڑا اچھا لگا۔ کہ واقعی ہماراحکمراں عوام کے جذبات کا خیال رکھتا ہے۔ اور جب اس کے پاس وسائل ہوں گے توعوام کے لیے آسانیاں بھی پیدا کی جائیں گی۔ ویسے بھی جب حج صرف ان لوگوں پہ فرض ہے جو اس کا خرچہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں ۔یعنی" صاحب استطاعت" ۔تو پھر مسئلہ کیا ہے؟ خیرات اور صدقہ سے حج کی فرضیت مکمل نہیں ہوتی۔ اسی طرح جو کام آپ پر فرض نہیں ہے اس کے لیے سبسڈی(خیرات) مانگنا ؟اور جو بغیر پیسے کے فرائض ہیں ان کے لیے وقت نہ ہونے کا بہانہ کرنا!یقیناً یہ حکومت وقت کا ایک اہم اور حقیقت پسندفیصلہ ہے۔ جسے ہمیں خوش دلی سے قبول کرناچاہیئے۔ اوراس یقین کے ساتھ کہ جب حالات اچھے ہوجائیں گے ، قرض اترجائے گا تو پھر حج سستا یا مفت کردیا جائے گا۔ لیکن افسوس پھر بھی لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کیا صرف حج میں سبسڈی(صدقہ وخیرات) غلط ہے؟ کیا صاحب حیثیت لوگوں کو کھانے پینے، بجلی گیس کے بل، پیٹرول اور گاڑیاں اور رہائش کے لیے سبسڈی(خیرات وصدقہ) وہ بھی اپنے سے غریب افراد سے ٹیکس لیکر حاصل کرنی چاہیئے؟کیا یہ مذہب کی تعلیمات کے خلاف نہیں ہے؟ کہنے کو یہ اپنے آپ کو " قوم کے خادم" کہلاواتے ہیں، ملک وقوم کی خدمت کا جوش لیکر میدان سیاست میں اترتے ہیں، الیکشن یا مخصوص سیٹوں (سلیکشن)کی بدولت ایوان بالایا ایوان زیریں(پارلیمنٹ) میں پہنچتے ہیں۔ پھر انہیں رہائش کے لیے پارلیمنٹ لارجزچاہیئے ہوتا ہے۔ جس کا کرایہ "فقیر کی کٹیا"سے بھی کم ہے۔ جہاں بجلی اور گیس کا بل پاکستان میں سب سے کم بل موصول ہونے والے شخص کے بل سے بھی کم ہوتا ہے۔ پھر کھانے پینے کے لیے کیفے ٹیریابھی موجود ہیں جو کراچی میں خیراتی کھانوں سے کچھ زیادہ قیمت پر شایدہی ملتا ہو (یعنی خیراتی کھانا) بجلی اورپانی کی فراہمی چوبیس گھنٹے بغیر کسی لوڈشیڈنگ کے۔ جب یہ سب " دشنام طرازی" اوہ معاف کیجئے گا۔ قانون بنانے کے لیے پارلیمنٹ جاتے ہیں تو وہاں بھی ٹھنڈی مشینوں کا بلاتعطل کام کرنا ہوتا ہے اور کیفے ٹیریا پھر امدادی قیمت پر ان کی " پیٹ پوجا " کے لیے ہر دم تیار ہوتا ہے۔ جاہل لوگ سوال کرتے ہیں کہ آخر اس ساری امدادی قیمتوں پر فراہم کی جانے والی ضروریات زندگی کے مکمل خرچ کا بوجھ کس کے کندھے پر آتا ہے؟ ظاہر سی بات ہے حکومت کے ذمہ ہوتا ہے۔ حکومت یہ ٹیکس لگاکر عام آدمی سے لیتی ہے اور پھر امیر ترین خاص آدمیوں وخواتین پر خرچ کرتی ہے۔ اور پھر دنیا سے قرضہ لیکر مزید ٹیکس بڑھاکر قرضے واپس کرتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ وزیراعظم صاحب یہ بھی اعلان کردیں کہ اب سے تمام "اراکین پارلیمنٹ " پوری (یعنی اصل) قیمت پر پارلیمنٹ لارجزکا کرایہ دیں گے۔ بجلی ، گیس اور پانی کاپورابل دیں گے، کیفے ٹیریا میں کھانا کھاکر مکمل بل دیں اور وزراء گاڑی اور پٹرول کی مدمیں ایک پائی نہ لیں گے" جب تک سابقہ حکمرانوں کا لیا ہوا قرض نہ اتر جائےـ "! کیونکہ ہم تو قرض لے ہی نہیں رہے ہیں۔ " سب سرمایہ کاری کرنے آرہے ہیں"۔۔۔۔۔۔بس عوام ہی مہنگائی کی وجہ سے مشکل اٹھارہے ہیں تو آج سے ممبران پارلیمنٹ وزراء میرے ساتھ ملکر وضعداری اختیار کرتے ہوئے " ساری امدادی قیمتوں " سے انکار کرتے ہوئے اپنا بوجھ اپنے کندھے کی حکمت عملی اپناتے ہوئے عوام کے بوجھ کو مکمل طور پر اپنا بوجھ سمجھیں گے۔ کیونکہ بقول وزیراعظم اور ان کے رفقاکار کہ پاس رب کا دیا بہت کچھ ہے۔ وہ صرف عوام کو انکا جائز حق دلوانے آئے ہیں تو پھر یہ ایک جائز خواہش ہے کہ امرا ء پرسب سے پہلے " سبسڈی" ختم کی جائے ۔ سبسڈی (خیرات) صرف مستحق کے لیے ہو۔