آصف علی زرداری سے واجد شمس الحسن تک

March 09, 2016

پاکستانی سیاست میں ’’مائنس ون‘‘ فارمولا جن بھی زرخیز ذہنوں کی پیداوار ہے وہ کوئی غیر معمولی دانش یا علم کے پیکر کبھی نہیں تھے، نہ آج ہیں، بالکل میری آپ کی طرح عامی وسائل قانونی طاقت اور پیسے پر دسترس کے باعث ہمیشہ اس قسم کے فارمولوں کی پیداوار ان کی روزمرہ مصروفیت کا ناگزیر حصہ ہے، وسائل اور پیسہ ہے ہی اتنا جس کے بعد پہاڑ سا دن یونہی ٹامک ٹوئیاں مارے گزار دینا عقل سے بالکل ہی فارغ ہونے والی حرکت ٹھہرتی ہے، چنانچہ ان حضرات کے روز مرہ پروگراموں میں ایک نہایت ہی مقبول عام پروگرام ’’مائنس ون‘‘کی تھیوری ہے! مائنس ون کی یہ تھیوری ایوب خان کے دور سے شروع ہوئی تھی، ماشاء اللہ ہر موقع کے آخری نتیجے میں ہمیشہ ناکامی و نامرادی اس کی قسمت میں لکھی گئی، پھر بھی، اس نسخۂ کیمیا کے اکسیر ہونے میں رتی بھر فرق نہیں پڑا، ان کا کام بھی آن ہے، عوام بھی ذہناً متوجہ رہتے ہیں، سیاست اور صحافت کے بازاروں میں بھی تند رو سیلابی بہائو نے بھونچال برپا کر رکھا ہے، حضرت جوش کے اسلوب میں ’’لپاڈگی، دھول دھپے، پکڑ دھکڑ اور غل غپاڑے‘‘ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی! چنانچہ عزیزان گرامی قدر! مصطفیٰ کمال، انیس قائم خانی اور ڈاکٹر صغیر اس کلاسیک تاریخی ایکٹ کے تازہ ترین شاہکار ہیں۔ دیکھتے ہیں نوٹنکی کتنا عرصہ کھڑکی توڑ ہفتے مناتی ہے؟
خوشگوار اتفاق ہی ہے جو پاکستان پیپلز پارٹی کی صفوں سے ’’مائنس ون‘‘ کا یہ مجرب نسخہ مہربانوں نے چند ماہ پیشتر تقریباً آٹھویں یا نویں دفعہ برآمد کروایا۔ انکشاف کا لمحہ وہ تھا جب پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے شریک چیئرپرسن آصف علی زرداری نے ادھر بلاول ہائوس لاہور کے ہال میں پی پی کارکنوں کے اجتماع کے موقع پر ایک فیصلہ کن بلند آہنگی کے ساتھ خبردار قسم کا اعلان کیا، نقارئہ الفاظ یہ تھا ’’جو جانا چاہتا ہے ابھی اسی وقت چلا جائے‘‘ دراصل ان دنوں ’’گینگ آف فور‘‘ کے مجرب نسخہ کا چورن کھٹالی میں پیسا جا رہا تھا، نسخے کے اجزاء کا بنیادی ’’ست‘‘ (ESSENCE) آصف علی زرداری کو پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کی صدارت سے فارغ کر کے ’’رہبر‘‘ کی مقدس کلغی لگا کر ایک جانب بٹھانا تھا، پارٹی کی مرکزی قیادت سے ملک کی سیاسی گلیاں ویران ہوتیں جہاں ’’گینگ آف فور‘‘ کے رانجھے فراٹے بھرتے، ٹی وی کی اسکرینوں پر ان کے فلسفوں سے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی غلطیوں کی نشاندہی کا قرض ادا کیا جاتا۔ جو لوگ کبھی شہرت اور اقتدار کے ایوان میں شاید میونسپل کمیٹی کی انسپکٹری کے لئے بھی لکڑیاں لیتے رہتے، وہ پورے پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بحالی جدوجہد میں پتہ ہلائے بغیر ٹاک شوز کے پرنس کہلاتے، یہ پرنس پنجاب کے عوام کو تحریک انصاف سے اتحاد کی فلاسفی پر غور کرنے کی دعوت دیتے وہ قومی سیاسی جماعت جس نے برصغیر کی رجعت پسند تاریخ کا نقاب الٹ دیا، اسے ایسی فلاسفی کے تذکرہ پر یہ مثالیں سننے کا سزا وار بنایا جاتا: ’’گھر وچ آٹا نئیں تے ماں پیہن گئی!‘‘
آصف علی زرداری کو رہبری کے دائرے میں مقید کرنے کا آئیڈیا ’’مائنس ون‘‘ کے موجدوں کی ویسے بڑی پُرکار کارستانی تھی، ظاہر ہے آصف صاحب کو ’’عوامی امیج‘‘ کی محافظت کے نام پر ایک طرف کر کے پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے چیئرمین کا قرعہ فعال مہربانوں کی چوائس کا مرہون منت ہوتا، پھر قومی اسمبلی اور چاروں اسمبلیوں پر ’’نئی قیادت‘‘ راج کرتی، آئندہ قومی انتخابات کے لئے انتخابی ٹکٹوں کی قومی اور صوبائی تقسیم اس کے اشارہ ابرو کی محتاج رہتی، بلاول بے بسی سے ہاتھ ملتے رہ جاتے کہ وہ اس وقت تک پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمینٹرین کے نہیں ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘‘ کے چیئرمین جبکہ آصف علی زرداری یہاں ’’شریک چیئرپرسن‘‘ ہیں، ’’مائنس ون‘‘ کی چھتری تلے ویسے یہ ممکنہ کامیاب ترین سیاسی شب خون تھا، درمیان میں بلاول بھٹو زرداری کے پریس سیکرٹری بشیر ریاض کی مداخلت سے اس منصوبے کا سارا حسن ہی غارت ہو گیا۔ ’’گینگ آف فور‘‘ میں کون کون اور کیا کیا تھا، انہوں نے اس سے تو تعرض نہیں کیا، ہاں دو تین بار ایسے مضامین اخبارات میں شائع کرائے جن میں انہوں نے ’’پورس کے ہاتھیوں‘‘ کی اصطلاح استعمال کی، نقشہ گروں نے اپنی حرکات و سکنات سے فوراً ہی ہاتھ کھینچ لیا، اب پیپلز پارٹی کے حوالے سے ’’مائنس ون‘‘ کی ہنڈیا ’’فارورڈ بلاک‘‘ کے مسالے سمیت فی الحال ٹھنڈی سی ہو گئی ہے۔
اور اب تذکرہ کرتے ہیں برطانیہ میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کے بیان کے اس بقیہ تکمیلی حصے کا جس کے مطابق ’’ان پر خفیہ فنڈز میں جعلسازی اور خورد برد کے حالیہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ 14لاکھ 37ہزار پائونڈ اسٹرلنگ (6کروڑ 34 روپے) مالیت کا چیک، فروری 1997 میں دفتر خارجہ کو واپس کر دیا، چیک کہاں گیا، تحقیقات کرنا نیب کا کام ہے۔‘‘
سابق پاکستانی ہائی کمشنر نے اس کہانی کو اپنے تکمیلی بیان میں اس طرح مکمل کیا ہے ’’جیریز کوریئر سروس کو ویزہ درخواستیں پہنچانے کا ٹھیکہ دینے کے ضمن میں تمام اسٹیک ہولڈرز نے قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پیپلز پارٹی کے سابق دور حکومت میں جیریز کو برطانیہ میں ویزہ درخواستیں پہنچانے کا ٹھیکہ دیئے جانے میں ہونے والی (مبینہ) بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کو ہدایات جاری کیں لیکن اس ضمن میں کسی بھی مرحلے پر کوئی غلط کام نہیں ہوا کیونکہ ٹھیکہ دینے کا عمل شفاف تھا اور ہر سطح سے اس حوالے سے کلیئرنس لی گئی، اس سلسلے میں باقاعدہ اشتہاربھی دیا گیا تھا، اس ٹھیکے کے حصول کے لئے نادرا نے بھی کوشش کی تھی لیکن جیریز نے سب سے کم نرخ کی پیشکش کی جس پر وزارت داخلہ اور تمام خفیہ ایجنسیوں سے کلیئرنس کے ساتھ وزارت خارجہ سے بھی منظوری لی گئی، اس عمل میں ایک سال صرف ہوا، یہ فیصلہ صرف ہائی کمشنر یا چند افراد نہیں کر سکتے تھے، دیگر پیشکش کرنے والے کئی اداروں کو خفیہ ایجنسیوں کی سیکورٹی کلیئرنس نہ ملنے پر ان کی درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔‘‘
بیانیہ مکمل ہوا، اس کے ساتھ ہی اس داستان کا اختتامی حصہ بھی، گزشتہ ہفتے جس کی باٹم لائن یہ تھی:۔
’’واجد شمس الحسن سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی ہیں!‘‘