مودی جی۔ پاکستان کے محسن مگر کیسے؟

March 02, 2019

پلوامہ میں کشمیری نوجوان کی فدائی حملے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک تو کیا چین اور سعودی عرب نے بھی شدید الفاظ میںاس کی مذمت کی اور پوری دنیا بھارت کی غمخوار نظر آئی۔ دوسری طرف گزشتہ چند سالوں کے دوران پاکستان میںاسی طرح کے سینکڑوںخودکش حملے ہوئے جن میںہزاروںانسان لقمہ اجل بنے لیکن دنیا ٹس سے مس نہ ہوئی۔ بھارت کے پاس پلوامہ حملہ میںپاکستان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیںجبکہ پاکستان کے پاس کلبھوشن یادیو کی صورت میں بھارتی مداخلت کازندہ ثبوت موجود ہے لیکن اس معاملے میںدنیا کے کسی ملک کی طرف سے بھارت کی مذمت ہمیںدیکھنے کو نہیں ملی۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بھارت دنیا کے سامنے خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور سیکولر ازم کی علامت کے طور پر پیش کرتا رہا جبکہ پاکستان کو اس کی ماضی کی پالیسیوں کی وجہ سے مذہبی انتہاپسندی کا گڑھسمجھا جاتا تھا۔ پاکستان پر نان اسٹیٹایکٹرز کے ذریعے کشمیر اور افغانستان میںمداخلت کا الزام لگتا رہا۔ جنرل پرویز مشرف کی کارگل مہم جوئی کی وجہ سے بھی پاکستان ایک جنگجو ریاست کے طور پر مشہور کیا گیا تھا لیکن نریندر مودی نے جنگجویانہ سیاست سے کام لیتے ہوئے پاکستان کے خلاف جس جنونیت کا مظاہرہ کیا اور ا س کے جواب میںپاکستان نے جس عاقلانہ رویے کا ثبوت دیتے ہوئے، جو صلح جویانہ سیاست کی، اس سے دنیا کے نظروں میں دونوں ممالک کا امیج الٹہونے لگا۔ پاکستان کا چہرہ ایک امن پسند جبکہ بھارت کا چہرہ ایک جنگجو ریاست کے طور پر سامنے آیا۔ یہ احسان نریندر مودی نہ کرتے تو ہم دنیا کے نظروںمیںاپنا یہ امیج کبھی تبدیل نہیںکر سکتے تھے۔ تبھی تو میری رائے ہےکہ دشمن ہو کر بھی نریندر مودی پاکستان کے محسن ثابت ہو رہے ہیں اور تب ہی تو ان دنوںمیری زبان پر بار بار یہ الفاظ آ رہے ہیںکہ شکریہ مودی جی۔

بھارت کو زعم تھا کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت ہے جہاںمذہب اور نسل کی تفریق سے بالاتر ہو کر سب شہری برابری کے بنیاد پر زندگی گزار رہے ہیں۔ امریکہ کے بعد دنیا کی دوسری فلم اور میڈیا انڈسٹری کی طاقت کے ذریعے اس نے اس تاثر کو مبالغے کے ساتھ دنیا میںپھیلا دیا تھا لیکن گزشتہ چند روز بھارت میںکشمیریوں پر جس طرح حملے ہوئے اور جس طرح معمولی اختلاف کا اظہار کرنے والوںکے منہ بند کردیئے گئے، اس نے نہ صرف بھارت کے اصل چہرے سے نقاب ہٹا دیا بلکہ ریاست کے اندر موجود فالٹ لائنز کو تازہ اور گہرا کردیا۔ پاک بھارت کشیدگی جلد یا بدیر ختم ہو جائے گی لیکن مودی کی پالیسیوںنے خود بھارت کے اندر جن نفرتوںکو جنم دیا ہے، وہ لمبے عرصے تک اس ریاست کے لئے سوہان روح بنی رہیںگی۔ دوسری طرف مودی کی مہم جوئی سے قبل پاکستان میںسیاسی، نسلی اور علاقائی کشیدگی عروج پر تھی۔ پختونوں، بلوچوں، گلگت بلتستان والوں، سندھیوںاور مہاجروںکی محرومیاںاپنی جگہ پہلی مرتبہ پنجاب میںبھی پی ٹی ایم کی طرح کے خیالات جنم لے رہے تھے لیکن جوں ہی بھارتی جارحیت کا واقعہ ہوا، وہ سب پس منظر میںچلے گئے۔ نہ کوئی بلوچ رہا، نہ سندھی، نہ پنجابی، نہ پختون، نہ مہاجر۔ سب پاکستانی بن گئے اور یک زبان اپنی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ اسی طرح گزشتہ انتخابات کے بعد سول ملٹری قیادت کچھ حوالوں سے ایک پیج پر نہیں تھی اور گزشتہ چھماہ کے دوران اپوزیشن جماعتوںکو عسکری قیادت کے ساتھ بیٹھنے کا کوئی موقع میسر نہیںآیا تھا۔ مودی صاحب کی مہربانی سے پاکستان کی تمام سول قیادت کو اپنی عسکری قیادت کے ساتھایک کمرے میںبیٹھنے اور تبادلہ خیال کرنے کا موقع میسر آیا۔ گزشتہ دس دنوںکے دوران نہ تو کسی ناراضتنظیم کی طرف سے اپنے اداروںکے خلاف کوئی نعرہ لگا، نہ کسی اپوزیشن رہنما نے اشاروںکنایوںپر مبنی بیان دیا اور نہ کسی ادارے کی طرف سے ان کی کردارکشی کی کوئی ہدایت جاری ہوئی۔ تبھی تو میری رائے ہےکہ دشمن ہو کر بھی نریندر مودی پاکستان کے محسن ثابت ہو رہے ہیں اور تبھی تو اِن دنوںمیری زبان پر بار بار یہ الفاظ آرہے ہیںکہ شکریہ مودی جی۔

پاکستان الحمدللہ ایٹمی طاقت ہے۔ اس ایٹمی صلاحیت نے پاکستان کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے میںبنیادی کردار ادا کیا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے اندر انتہاپسند اور عسکری تنظیموںکی وجہ سے بسا اوقات یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ صلاحیت غنیمت کم اور مصیبت زیادہ ہے۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل جیسی طاقتیںیہ تاثر دیا کرتی تھیں کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار انتہاپسندوںکے ہاتھوں میںجانے کا خطرہ ہے۔ اس کی بنیاد پر یہ طاقتیں اور بالخصوص امریکہ وقتاً فوقتاً پاکستان کو بلیک میل کرتا رہا۔ اب جبکہ ایک طرف الحمدللہ پاکستان نے بڑی حد تک دہشت گردی کے مسئلے پر قابو پا لیا ہے تو اس نازک اور جذباتی موقع پر تحمل اور امن پسندی کا مظاہرہ کر کے پاکستان نے ثابت کر دیا کہ اس کے ایٹمی ہتھیاروںکے بارے میںسارے شکوک بے بنیاد ہیں۔ دوسری طرف دنیا پر واضح ہو گیا کہ نہ صرف اس وقت پورا بھارت ایک مذہبی جنونی کے ہاتھ میںہے بلکہ اس کے ایٹمی پروگرام کے بٹن پر بھی ایک انتہاپسند جنونی کی انگلی ہے۔ اب پاکستان اس پوزیشن میںآگیا ہے کہ دنیا کو بتا دے کہ اسے پاکستان نہیںبلکہ بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میںفکر مند ہونا چاہئے۔ تبھی تو میری رائے ہےکہ دشمن ہو کر بھی نریندر مودی پاکستان کے محسن ثابت ہورہے ہیں اور تبھی تو ان دنوںمیری زبان پر بار بار یہ الفاظ آرہے ہیںکہ شکریہ مودی جی۔

مودی صاحب نے ایک بڑا احسان ہم پر یہ کیا کہ انہوںنے پاکستان کی حکمراں جماعت کو حقیقت پسند بنا دیا۔ ماضی میںجب یہی مودی صاحب خود چل کر میاںنوازشریف کے پاس آئے تو ان کو ویلکم کرنے کے جرم میںاس وقت کے وزیراعظم میاںنوازشریف کا جینا حرام کردیا گیا۔ ان کو غدار تک کے القاب سے نوازا گیا۔ اس الزام تراشی میںعمران خان صاحب اور ان کے غمخوار سب سے آگے تھے۔ چنانچہ میاںنوازشریف مفاہمت کے سلسلے کو آگے ہی نہ بڑھا سکے۔ اسی طرح جو بھی پاکستانی سیاستدان یا صحافی پاکستان ریاستی پالیسیوں سے رتی بھر اختلاف کی جرات کرتا تو اسے غدار ڈیکلیئر کر دیا جاتا لیکن الحمدللہ اب یہ کام پاکستان میںنہیںہوگا کیونکہ جو لوگ غدار غدار کا ورد کیا کرتے تھے، خود انہوںنے مودی کی ہٹ دھرمی اور جارحیت کے باوجود اسے مذاکرات کی پیشکشکی۔ الحمدللہ جب پاکستان میںغدار غدار کا یہ کھیل ختم ہونے کو ہے تو بھارت میںوہ زور پکڑ رہا ہے اور ہم پاکستانیوںسے بڑھ کر کوئی نہیںجانتا کہ حب الوطنی کے پاک نام پر پروان چڑھائے جانے والے اس گندے کھیل کا نتیجہ کن خطرناک شکلوںمیںنکلتا ہے۔ صرف دو ہفتے قبل کی بات ہے کہ میرے ٹی وی پروگرام جرگہ میںوفاقی وزیر علی امین گنڈاپور نے کلبھوشن یادیو کے معاملے پر میاںنوازشریف کو غداری کے سرٹیفکیٹ سے نوازا۔ اگلے دن ایک اور وفاقی وزیر نے اپنے لیڈر کی خوشنودی کے لئے اسی کلبھوشن یادیو کی آڑلے کر میاںنوازشریف کو غدار قرار دے دیا۔ میاںنوازشریف کی حکومت نے تو پھر بھی کلبھوشن یادیو کو دو سال تک قابو کئے رکھا اور ان کی حکومت میںہی اس کو سزائے موت بھی ہوئی لیکن اب جب عمران خان صاحب نے صرف دو دن بعد بھارتی پائلٹکو بھارت کے حوالے کرنے کا اعلان کیا تو ان وزرا کو پتہ لگ گیا ہو گا کہ سفارتی مجبوریاںکیا ہوتی ہیں۔ اب اگر وہ میاںنوازشریف سے معافی نہ مانگیں تو کم ازکم مستقبل میںاس الزام کو نہیں دھرا سکیںگے۔ اسی طرح پارلیمنٹکے فورم پر عمران خان صاحب کے اس اعلان کہ وہکل رات سے کوشش کر رہے ہیںلیکن مودی صاحب سے بات نہیںہو پا رہی، کے بعد اب پاکستان کے سیاسی نابالغوںکی بھی آنکھیںکھل گئی ہوںگی کہ حقائق کی دنیا کیا ہوتی ہے۔ تبھی تو میری رائے ہےکہ دشمن ہو کر بھی نریندر مودی پاکستان کے محسن ثابت ہو رہے ہیں اور تبھی تو ان دنوںمیری زبان پر بار بار یہ الفاظ آرہے ہیںکہ شکریہ مودی جی۔