’’پاکستان قائم رہنے کیلئے بنا ہے اور قائم رہے گا‘‘

March 23, 2019

ڈاکٹر طاہر حمید

آج پاکستانی قوم یوم پاکستان ان حالات میں منا رہی ہے کہ پاکستان کے دشمن اس کی سالمیت اور آزادی کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اور وہ اسے ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ لیکن فرمودات بانیٔ پاکستان اور پاکستانی عوام کے عزم و حوصلہ کے پیش نظر یہ حقیقت عیاں ہے کہ پاکستان کو دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ اللہ کے فضل و کرم اور کروڑوں پاکستانیوں کی جدوجہد سے اس صفحہ ہستی پر وجود میں آیا ہے اور ان شاء اللہ یہ ہمیشہ قائم رہے گا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے پہلے اور قیام پاکستان کے بعد مختلف مواقع پر جو فرمایا وہ قیام پاکستان پر ان کے غیر متزلزل اعتماد کا مظہر ہے بالخصوص قیام پاکستان کے بعد اکتوبر 1947ءمیں مزنگ لاہور میں ایک جلسہ عام میں جو فرمایا اس سے بعض مایوس حلقوں میں اعتماد اور ولولہ کی ایک نئی لہر دوڑ گئی کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب لٹے پٹے قافلے ہندوستان سے آ رہے تھے اور مسلمانوں میں ایک ڈپریشن کی سی صورتحال تھی۔ ایسے میں قائد اعظم کی تقاریر حوصلہ افزا ثابت ہوئیں۔

مستقبل پر یقین

’’پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور قائم رہے گا۔کرئہ ارض پر کوئی طاقت ایسی نہیں جو پاکستان کو ختم کر سکے۔‘‘عزم مصمم، استقامت ایمانی اور پاکستان کے مستقبل پر یقین کا مظہر یہ جملہ قائداعظم محمد علی جناح نے رائٹر کے نمائندے سے کراچی میں گفتگو کرتے ہوئے 25اکتوبر 1947کو ارشاد فرمایا۔ قیام پاکستان کے بعد ابتدائی ایام میں یہ وہ ماحول تھا جب ہندوستان کی طرف سے پاکستان کے لئے طرح طرح کی مشکلات پیدا کی جا رہی تھیں اور کانگریسی لیڈروں کی طرف سے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں مایوسی اور غلط فہمیاں پیدا کرنے کے ساتھ پاکستان کو مسلسل دھمکیاں بھی دی جا رہی تھیں۔ قائداعظم نے رائٹر کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم دو آزاد اور برابر کے خودمختار ملکوں کی حیثیت سے ہندوستان کے ساتھ کوئی معاہدہ اور مفاہمت کر سکتے ہیں جس طرح ہم کسی بھی دوسری قوم کے ساتھ دوستی یا معاہدہ کر سکتے ہیں۔ لیکن وہ پروپیگنڈہ جو ہماری مکمل آزاد اور خودمختار مملکت کے خلاف کانگریسی رہنماؤں کی طرف سے کیا جا رہا ہے اور ہندو رہنماؤں کی طرف سے پاکستان کو جو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اس ماحول میں دونوں ملکوں کے درمیان خیرسگالی کا جذبہ اور دوستانہ تعلقات بحال نہیں ہو سکتے۔ ہندوستان کی عداوت اور پاکستان دشمنی جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی کا جواب قائداعظم نے جس جذبہ یقین سے دیا وہ یقین ہمیں قائداعظم کی پوری جدوجہد آزادی کے دوران نظر آتا ہے۔ 23مارچ 1940کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں قائداعظم کا خطاب اسی یقین کا مظہر ہے حالانکہ اس وقت کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ سات سال کے قلیل عرصے میں مسلمانانِ ہند قائداعظم محمد علی جناح کی مدبرانہ قیادت میں ایک آزاد وطن حاصل کرلیں گے۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور میں ہونے والے ستائیسویں سالانہ اجلاس میں 22 مارچ 1940کو قائداعظم نے خطبہ صدارت دیتے ہوئے جب مسلمانانِ برصغیر کے لئے الگ وطن کا مطالبہ کیا تو اس کی بنیاد بھی ملت اسلامیہ کے مستقبل اور مسلمانانِ ہند کی اجتماعی قوت پر قائداعظم کا اعتماد تھا۔ اس خطاب میں قائداعظم نے فرمایا یہ مسلمانانِ ہند کی طاقت ہی ہے کہ اب انگریز حکمران بھی ہمارے وجود کا اعتراف کرنے لگے ہیں کیونکہ اس سے پہلے جب تاج برطانیہ نے 1939میں اعلانِ جنگ کیا تو اس وقت انہیں ہمارا خیال تک نہ آیا اور برصغیر میں وہ صرف گاندھی پر اعتماد کر رہے تھے حالانکہ میں کافی عرصہ مجلس قانون ساز میں ایک اہم پارٹی کا قائد رہا اور وہ پارٹی مسلم لیگ سے بڑی جماعت تھی جس مسلم لیگ کی قیادت کا اعزاز آج مجھے حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود وائسرائے کو میرا خیال اس وقت نہیں آیا۔ لیکن اب مشاورت کے لئے وائسرائے نے گاندھی کے ساتھ مجھے بھی مدعو کیا ہے جس کا سبب صرف یہ ہے کہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر ہوں۔ یہ صورتحال کانگریس ہائی کمان کے لئے بدترین دھچکا ہے کیونکہ اس سے ان کا یہ دعویٰ باطل ہو گیا ہے کہ برصغیر کی ترجمانی کا واحد اختیار کانگریس کو حاصل ہے۔ قائداعظم نے مسلمانانِ ہند کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ لوگ خود کو منظم کرنے کی قیمت، اہمیت اور افادیت کو سمجھیں کیونکہ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ مجھے یقین ہے جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اس سے اور جو سن رہا ہوں اس سے مسلم ہند کو یہ احساس ہو گیا ہے اور اب وہ بیدار ہے اور مسلم لیگ اس وقت اس قدر مضبوط ادارہ بن گئی ہے کہ اب کوئی شخص اسے تباہ نہیں کرسکتا خواہ وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو۔ لوگ آتے رہیں گے اور لوگ جاتے رہیں گے لیکن مسلم لیگ ہمیشہ قائم رہے گی۔

مسلمانوں کا مستقبل کس طرح محفوظ ہو سکتا ہے اپنے اسی خطاب میں قائد اعظم نے فرمایا میں آپ سے اپیل کرتا ہوں پوری متانت سے جس قدر میرے اختیار میں ہے کہ آپ اپنے آپ کو منظم کریں اور کسی پر تکیہ نہ کریں سوائے اپنی طاقت کے۔ یہی آپ کا واحد تحفظ ہوگا اور بہترین تحفظ۔ خود پر انحصار کیجیے اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسروں کے بارے میں برا سوچیں یا برا چاہیں یا ان سے دشمنی رکھیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے حقوق اور مفادات کی حفاظت کے لئے خود میں وہ قوت پیدا کریں کہ آپ اپنا دفاع خود کرسکیں۔ بس یہی کچھ ہے جو میں آپ سے اپنے دفاع کےضمن میں پُرزور طریقے سے کہنا چاہتا ہوں۔

آل انڈیا مسلم لیگ کے اس تاریخی اجلاس میں قائداعظم محمد علی جناح نے اپنے خطاب کا اختتام جن الفاظ پر کیا وہ آج بھی پاکستانی قوم کے ہر فرد کے لئے مینارئہ نور اور رہنما اصولوں کی حیثیت رکھتا ہے۔ قائداعظم نے فرمایا دنیا کے تمام ملکوں میں دانشور ہی آزادی کی تحریکوں کے رہنما ہوتے ہیں۔ مسلمان دانشوروں کو کیا کرنا چاہیے اس ضمن میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ جب تک آپ مطالبہ پاکستان کو اپنے خون میں دوڑا نہ دیں گے، جب تک آپ آستینیں چڑھانے پر آمادہ نہیں ہو جائیں گے، جب تک آپ وہ سب کچھ قربان کر دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے جو قربان کرسکتے ہیں، جب تک آپ اپنی قوم کے لئے بے لوثی اور خلوص کے ساتھ کام نہیں کریں گے آپ کبھی بھی اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکیں گے۔ حضرات بس میں چاہتا ہوں کہ قطعی طور پر آپ اپنا ذہن تیار کرلیں اور پھر لائحہ عمل سوچیں، عوام کو منظم کریں، اپنی تنظیم کو مضبوط بنائیں اور پورے ہندوستان میں مسلمانوں کو متحد کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ اب پوری طرح بیدار ہیں۔ انہیں صرف آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اسلام کے خادم کی حیثیت سے آگے بڑھیں اور اپنے لوگوں کو اقتصادی، معاشرتی، تعلیمی اور سیاسی طور پر منظم کریں۔ مجھے یقین ہے آپ ایسی طاقت بن جائیں گے جسے ہر شخص تسلیم کرے گا۔

پنجاب یونیورسٹی سٹیڈیم لاہور میں 30اکتوبر 1947کو ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا کام کی زیادتی سے مت گھبرائیے۔ نئی اقوام کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جنہوں نے محض عزم اور کردار کی قوت سے اپنی تعمیر نو کی۔ آپ وہ قوم ہیں جس کی تخلیق ایسے جوہر آبدار سے ہوئی ہے کہ آپ کسی سے بھی کم نہیں۔ دوسروں کی طرح بلکہ خود اپنے آباؤاجداد کی طرح آپ بھی کیوں کامیاب نہ ہوں گے آپ کو اپنے اندر صرف مجاہدانہ جذبے کو پروان چڑھانا ہوگا۔ آپ ایسی قوم ہیں جن کی تاریخ قابل صلاحیت اور کردار کے حامل بلند حوصلہ عظیم شخصیتوں سے بھری پڑی ہے۔ اپنی روایات پر قائم رہیے اور اس میں عظمت کے ایک اور باب کا اضافہ کیجیے۔ ہر شخص یہ عہد کرے کہ وہ پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانے اور اسے دنیا کی عظیم ترین قوموں کی صف میں شامل کرنے کیلئے بوقت ضرورت اپنے سب کچھ قربان کردینے پر آمادہ ہو گا۔

جب لندن مسلم لیگ نے قیام پاکستان کی خوشی میں ایک تقریب کے انعقاد کا فیصلہ کیا تو 7جولائی 1947کو صدر مسلم لیگ لندن کے نام اپنے پیغام میں قائداعظم نے فرمایا ابھی تو تعمیر پاکستان کا عظیم تر کام باقی ہے۔ جس کے لئے ہمیں اپنی تمام تر توانائیوں کی ضرورت ہوگی۔ لیکن خدا کے فضل و کرم سے ہم دنیا میں اس نئی عظیم خودمختار اسلامی ریاست کی مکمل اتحاد، تنظیم اور ایمان کے ساتھ تعمیر کر سکیں گے۔ مسلمانانِ ہند پوری صلاحیت سے اپنی ذمہ داری پوری کریں گے اور امن عالم کیلئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ قائداعظم کے فرامین اور پاکستانی قوم کے لئے طے کردہ رہنما اصول پاکستان کو ایک عظیم اور مستحکم مملکت بنانے کی اساس ہیں جو ہر آنے والے دن قائداعظم کی اس فرمان پر مہر تصدیق ثبت کرتے رہیں گے کہ پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور ہمیشہ قائم رہے گا۔

قرارداد لاہور 23مارچ1940ء

اس تاریخی قرار داد میں کیا گیا ’’نہایت غور و خوض کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی پختہ رائے یہ ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی آئینی منصوبہ قابل عمل اور مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہ ہو گا جب تک وہ مندرجہ ذیل اصولوں پر وضع نہ کیا گیا ہو۔ یعنی جغرافیائی حیثیت سے متعلقہ علاقوں کی حد بندی، مناسب علاقائی ردوبدل کے ساتھ ایسے خطوں میں کی جائے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہو۔ مثلاً ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی حصے۔ ان کی تشکیل ایسی آزاد ریاستوں کی صورت میں کی جائے جس میں شامل وحدتیں خود مختار اور مقتدر ہوں۔ نیز ان وحدتوں اور خطوں میں اقلیتوں کے مذہبی ثقافتی معاشی سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کا مناسب موثر اور حکمی تحفظ ان کے مشورے سے آئین میں صراحت کے ساتھ پیش کیا جائے۔