آندھی آئی، قیامت بھی آسکتی تھی

April 19, 2019

اِن دنوں جب ہر طرف طوفان باد و باراں ہے، گوجرانوالہ کے بزرگ میر عطا محمد مرحوم بہت یاد آرہے ہیں جواس روز مجھ سے باتیں کررہے تھے اور گزرے ہوئے زمانے کو مسلسل ہمارا زمانہ کہتے جاتے تھے۔میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے زمانے میں لوگوں کا آپس میں ملنا جلنا کیسا تھا۔ کہنے لگے’ نہایت پیار اور محبت کے ساتھ رہتے تھے، نہ کوئی لڑائی نہ جھگڑے۔اُس وقت حال یہ تھا کہ اگر کوئی قتل ہوگیا ہے تو آندھی آجاتی تھی۔ سب لوگ کہتے تھے کہ آج قتل ہوگیا ہے، آندھی آرہی ہے۔اب تو روزانہ کئی قتل ہوتے ہیں‘۔میر صاحب مرحوم یہ کہتے کہتے رہ گئے کہ آندھیوںنے بھی روز روز کی وارداتوں سے تنگ آکر آنا چھوڑ دیا ہے۔ہم بھی اوّل دن سے سنتے آئے ہیں کہ آندھی کا آنا محض موسم کی ایک شکل نہیں بلکہ موسم کی برہمی ہے۔کبھی محض خاک دھول اڑاتی آتی ہے تو کبھی رنگ بدل بدل کے نازل ہوتی ہے۔ گھر کے بزرگ بتاتے تھے کہ آندھیاں تین رنگ کی ہوتی ہیں، پیلی، کالی اور سرخ۔وہ یہ بھی بتاتے تھے کہ زرد آندھی پر کہنا چاہئے کہ خدا خیر کرے۔ آندھی سیاہ ہو تو اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہئے اور اگر سرخ آندھی ہو تو سمجھ لو کہ کوئی بڑی آفت آرہی ہے جس میں کسی کی جان محفوظ نہیں رہے گی۔ذاتی طور پر مجھے ایک بار زردآندھی کا آنا یاد ہے۔اس کےبعد بوندا باندی ہوئی تھی تو وہ بھی زرد تھی۔ گھر کی خواتین نے سر ڈھانپ کر کچھ دعائیں پڑھی تھیں۔ بس اتنا یاد ہے لیکن سرخ آندھی کے ایک چشم دید گواہ کی بات دہراؤں گا کہ اس کی یاد حال ہی میں تازہ ہوئی تھی۔ بر صغیر کی آزادی کی تحریک کے دنوں کی بات ہے،پورے سو سال پہلے امرت سر کے جلیانوالہ باغ میں انگریزوں کی غلامی کے خلاف بہت بڑا جلسہ ہورہا تھا جس میں علاقے کے ہندو اور مسلمان سب ہی شریک تھے۔ اس روز علاقے کے انگریز حکمراں اپنی سپاہ لے کر آگئے اور باغ سے نکلنے کے واحد راستے کو مسدود کرکے جوشیلے نعرے لگانے والے مجمع پر اندھا دھند گولیاں برسانے کا حکم دے دیا۔ سپاہیوں کے پاس نہ صرف عام رائفلیں بلکہ گولیوں کی باڑھ چلانے والی مشین گنیں بھی تھیں۔ اس روز لوگ یوں مارے گئے جیسے انسان نہ ہوں، مکھی مچھر ہوں۔لوگوں نے جانیں بچانے کے لئے بھاگنا چاہاتو بھاگنے کی راہ ہی نہ ملی۔کتنے ہی لوگ باغ کے بیچ بنے ہوئے کنویں میں کود گئے اور مرگئے۔ کچھ لوگوں نے باغ کے دوسرے کنارے پر کھڑی اونچی دیواروں پر چڑھنا چاہا تو سپاہیوں نے انہیں تاک تاک کر مارا۔ دیواروں میں پیوست ہونے والی گولیوں کے نشان آج تک موجود ہیں۔ میںاپنے پروگرام ’جرنیلی سڑک‘ کی تیاری کے لئے امرت سر گیا تو جلیاں والا باغ دیکھنے خاص طور پر گیا۔ اس کا ایک سبب اور بھی تھا۔ سنہ باسٹھ تریسٹھ کی بات ہے ، میں کراچی کے ایک روزنامے سے وابستہ تھا۔ ان ہی دنوں پتہ چلا کہ امرت سر کے قتل عام میں زندہ بچ جانے والے ایک بزرگ کراچی میں موجود ہیں اور لوگوں کواپنی یاد داشتیں سناتے ہیں۔میں اخبار کے لئے ان کا انٹرویو لے رہا تھا۔ انہوں نے ایک عجیب بات سنائی۔ کہنے لگے کہ ماحول میں کشیدگی تھی اور کچھ خوف وہراس کا عالم بھی تھا کہ علاقے میں غضب کی آندھی اٹھی۔ وہ سرخ آندھی تھی جس میں لوگوں نے ایک عجب منظر دیکھا۔ آسمان کو ڈھانپ لینے والی سرخ گرد کے درمیان یوں نظر آیا جیسے کوئی بہت بڑا اژدھا ہوا میں لہراتا جا رہا ہے۔آندھی کے جھکّڑ چلتے رہے اور وہ سیاہ اژدھے کی شکل میں جو کچھ بھی تھا ، دور تک اڑتا رہا ۔ سہمے ہوئے لوگ حیرت سے ایک دوسرے کی شکل دیکھتے رہے اور سو لوگ سو طرح کی باتیں کرتے رہے۔ اس کے بعد امرت سر میں ایسی خوں ریزی ہوئی کہ تاریخ نے کم ہی دیکھی ہوگی۔ضعیف الاعتقاد لوگ ہر زمانے میں ہوتے ہیں۔ سورج یا چاند کو گرہن لگے یا زلزلہ آئے، ان لوگوں کے ٹوٹکے زور پکڑتے ہیں، کسی شاعر نے کہا:

شبِ فرقت میں بلائیں ہوئی نازل کیا کیا زلزلہ آگیا، آندھی چلی ،تارا ٹوٹااس بار بھی سوشل میڈیا میں لوگوں نے آندھی کا زور توڑنے کی دعائیں شائع کیں۔پرانے وقتوں میں تیز آندھی آتی تو لوگ یہ ورد کرتے تھے:آندھی، حضرت بی بی کے دامن میں باندھی۔ انہیں یقین تھا کہ یہ صدا بلند کریں تو آندھی کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔ایک زمانے میں کوئی منتر تھا ، آندھی شدید ہوتی تو وہ منتر پڑھ کر ہوا میں انگلی یوں چلاتے تھے جیسے چاقو یا چھری سے آندھی کو کاٹ رہے ہوں۔کہتے ہیں کہ آندھی کی شدت کم ہو جاتی تھی۔آندھی کی عجب شان ہے کہ عین ان دنوں آتی ہے جب آم کے درخت پر کیریاں لدی ہوتی ہیں۔باغباں سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں کیونکہ ان کی نگاہوں کے سامنے آم کی فصل تباہ ہوجاتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ پھر یہ کیریاں ڈھیروں کے حساب سے بازار میں آتی ہیں ،خیر اب تو نہیں لیکن ایک زمانے میں پھر یہ کوڑیوں کے بھاؤ فروخت ہوتی تھیں۔اسی زمانے میں یہ محاورہ رائج ہوگیا تھا کہ اگر کسی چیز کی قدر جاتی رہے تو اس چیز کو آندھی کے آم کہنے لگتے تھے۔وہی موسم ہوتا ہے آم کا اچار ڈالنے کا اور پھرپنساری کی دکان پر اچار کے مسالے مہنگے ہو جاتے ہیں مگر گھر کے اچار کی بات ہی اور ہے۔یہ آندھی سے حاصل ہونے والا واحد فیض ہے، اب اگر لذیذ آم نہیں تو اچاریوں میں بھرا اور تیل میں ڈوبا ہوا تازہ تازہ اچار بھی کسی نعمت سے کم نہیں۔

ہم پھر لوٹتے ہیں میر عطا محمد کی بات کی طرف۔ یہ سچ ہے، آندھی آتی تھی تو لوگ کہا کرتے تھے کہ خدا خیر کرے، شگون اچھا نہیں۔ کچھ لوگ تو بڑے یقین سے کہتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہیں کسی کا قتل ہوا ہے۔ پھر شام تک خبر آجاتی تھی کہ کسی نے کسی کی جان لی ہے۔ اس بار بھی حالات اچھے نہیں، کہیں کچھ بے گناہ، بے قصور اور معصوم لوگوں کا خون بہایا گیا ہے، اس بار کوئٹہ خون میں نہایا ہے۔ اس کے بعد غنیمت ہے بات آندھی پر ٹل گئی ورنہ قیامت آجاتی تو حیرت نہ ہوتی۔