اصل مجرم کون…

May 15, 2019

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے ہیرو اور ولن بھی بدلتے رہتے ہیں: ہر زمانے کا فکری رجحان اِن معاملات کو طے کرتا ہے مثلاً اب بھی محمود غزنوی، نادر شاہ اور احمد شاہ ابدالی کو پاکستان کے نظریاتی ڈھانچے میں ہیرو مانا جاتا ہے جبکہ بہت سے حلقے اُنہیں حملہ آور ولن کا نام دیتے ہیں۔ آج کی جوان ہونے والی نسل کو شاید اندازہ بھی نہ ہو کہ پاکستان کے ابتدائی بیس تیس سالوں میں ہر معاشی اور سیاسی برائی کا ذمہ دار انگریزوں کو سمجھا جاتا تھا۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر تک آتے آتے انگریزوں کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج کو مہا ولن سمجھا جانے لگا تھا: بلکہ امریکی سامراج سے جنگ کرنا اولین ترجیح سمجھی جاتی تھی۔ پاکستان میں امرا اور اشرافیہ کو پہلی اور آخری بار پاکستان پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کی بد حالی کا ذمہ دار قرار دیا اور اُس کا صلہ پھانسی کی شکل میں پایا۔ اَسی اور نوے کی دہائی سے امریکہ اور عالمی ادارے بالخصوص انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک پاکستان کے رقیب روسیاہ قرار پائے۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے شروع ہوتے ہوتے پرانے ولن بے معنی لگنے لگے اور یہ طے پایا کہ تمام مصائب کا سبب کرپٹ سیاستدان ہیں جو ملکی دولت لوٹ کر باہر لے جا رہے ہیں۔ اِن سب دعوئوں میں کچھ نہ کچھ سچائی کا عنصر موجود تھا لیکن کلی طور پر اُن کو کالج کے زمانے کے مباحثوں میں کثرت سے پڑھے جانے والے ایک عامی سے شعر کے ذریعے بیان کیا جا سکتا ہے:

ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آتا ہے

مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے

پیپلز پارٹی کے اولین دور کو چھوڑ کر باقی تمام تر ولنوں کی نشاندہی حکمران طبقے کی بقا اور غیر منصفانہ نظام کو جاری رکھنے کے لئے استعمال ہوئی۔ پہلے تو غیر ملکی طاقتوں اور عالمی اداروں کو وجہ خرابی بسیار بتا کر مقامی حکمرانوں اور اشرافیہ کو بری الذمہ قرار دے دیا گیا اور پھر آخر میں چند سیاستدانوں کو کانٹوں کا یہ ہار پہنا دیا گیا۔ اِس سارے عمل میں اپنے ناسور زدہ سماج کے اندرونی ڈھانچے کی پردہ پوشی کے لئے بڑی سادگی سے کسی ایک عنصر کے منفی پہلوئوں کو ہی ساری کہانی بنا دیا گیا۔ انگریز کو ہی لے لیجئے، جس نے لوٹا بھی لیکن ترقیاتی کام بھی کئے اور پاکستان تو بنا ہی اُن کے راج کی وجہ سے، وگرنہ آج بھی شہروں پر ہندو اشرافیہ کا قبضہ ہوتا۔ پاکستان کی ترقی میں منگلا اور تربیلا ڈیم کا کلیدی کردار ہے جو کہ ورلڈ بینک کی مدد سے تعمیر ہوئے۔ امریکیوں نے بھی پاکستان پر قبضہ نہیں کیا تھا بلکہ خود حکمران طبقے نے اُن کے تلوے چاٹنا شروع کئے تھے اور رضاکارانہ طور پر اُن کی افغان جنگ میں شمولیت اختیار کر کے اربوں ڈالر بٹورے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ بات کہ اگر بیرونی طاقتیں ہی ہماری قسمت کے فیصلے کر رہی تھیں تو پچھلے چالیس سالوں میں لاکھوں کی تعداد میں کروڑ اور ارب پتی کیسے پیدا ہو گئے۔ اب یہ لاکھوں کروڑ اور ارب پتی اور اُن سے ملحقہ درمیانہ طبقہ، سارا بوجھ چند سیاستدانوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی مفاد پرستانہ سوچ کا مظہر بنا ہوا ہے۔

یہ سب باتیں اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ آجکل پاکستان آئی ایم ایف کے ساتھ قرضے کے لئے مذاکرات کر رہا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف ضروریات زندگی پر ٹیکس بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ وزیراعظم اس کی مزاحمت کر رہے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ پاکستان کو قرضہ لینے کے لئے آئی ایم ایف کی شرائط منظور کرنا پڑیں گی اور عوام پر ٹیکسوں کا ایک نیا بوجھ لد جائے گا۔ پچھلی کچھ دہائیوں کی طرح ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف سفاک ولن سمجھا جائے گا اور ہمارا وسیع و عریض امیر اور درمیانہ طبقہ خوشحالی کی بنسی بجاتا رہے گا۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی اپنے گریبان میں جھانک کر یہ نہیں سوچے گا کہ اگر وہ اپنی آمدن اور جائیدادوں پر ٹیکس نہیں دے گا تو حکومت کیسے چلے گی اور آئی ایم ایف کیسے اپنا قرض وصول کرے گا۔ اگر پاکستان میں کسی کو امیر طبقے کے کئی ہزار گنا اضافے پر شک ہے تو ہم آپ کو ذاتی تجربے سے بتا سکتے ہیں کہ لاہور کے ایک معمولی محلے میں ایک حجام کروڑ روپے میں اڑھائی مرلے کا مکان خرید سکتا ہے۔ صرف اس مثال سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کروڑوں اور ارب پتیوں کی تعداد کیا ہوگی۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ ان لاکھوں نئے امیروں میں اکثریت نادہندہ ٹیکس ہیں۔ اِس نئے امیر طبقے اور اُن کی نمائندہ سیاسی پارٹیوں کا سماجی شعور بہت ہی پسماندہ ہے: وہ ذاتی خوشحالی اور سماجی ترقی کے درمیان کسی بھی طرح کا تعلق دیکھنے سے عاری ہیں۔ یہ طبقہ زندگی کے ہر پہلو میں مغرب اور امریکہ کی نقل کر رہا ہے لیکن ان کے اجتماعی نظام کو سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔

پاکستان میں جس سماجی اور سیاسی انقلاب کی ضرورت ہے اُس کا نشانہ امیروں کے علاوہ درمیانے طبقے کا بہت بڑا حصہ بھی ہوگا: ان سب کو سماجی ترقی کے لئے ٹیکس دینے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کرنا پڑے گا۔ پاکستان کی تمام تر سیاسی پارٹیاں یہ سب کچھ اِس لئے نہیں کرتیں کیونکہ وہ ٹیکس کا نظام سخت کر کے اپنے ووٹوں سے محروم نہیں ہونا چاہتیں۔ اس لئے جب تک ان طبقات کے اپنے بطن سے نئے معاشرے کی تعمیر و ترقی کے بیج نہیں پھوٹیں گے تب تک ہم نئے نئے ولنوں اور گنہگاروں کی تلاش اور نشاندہی میں سرگرداں رہیں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)