منافرتوں کی سوداگری کب تک؟

May 16, 2019

داتا دربار خود کش حملے میں 6پولیس والوں سمیت تیرہ بے گناہ شہید جبکہ 30کے قریب زخمی ہوئے۔ اِس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم حزب الاحرار نے قبول کر لی۔ حملہ آور کے متعلق بیان کیا گیا کہ اُس کی عمر 15سے16 سال کے قریب تھی، جس نے ایلیٹ فورس کی گاڑی کے قریب خود کو دھماکے سے اُڑا لیا۔ جائے وقوعہ سے حملہ آور کے جسمانی اعضاء بھی ملے۔ اِس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں امید یہی ہے کہ حسبِ روایت اِسے غیر ملکی سازش قرار دیتے ہوئے ملک دشمنی پر مبنی کارروائی قرار دیا جائے گا۔

ہمارا روایتی عمومی بیانیہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان ایسی گھناؤنی کارروائی کر ہی نہیں سکتا ہے کیونکہ اسلام ہمیں اِس کی اجازت نہیں دیتا ۔ کتابِ مقدس میں یہ لکھا ہے کہ جس کسی نے کسی ایک بے گناہ انسان کی جان لی، اُس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی اُس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا۔ اتنی واضح ہدایت موجود ہے، مہینہ بھی رمضان المبارک کا ہے اور مزار بھی حضرت داتا گنج بخشؒ جیسے عظیم صوفی بزرگ کا۔ ایسے میں بھلا کوئی مسلمان چاہے وہ کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو، ایسی گھناؤنی حرکت کیسے کر سکتا ہے؟ اِس کے ساتھ ہی ایک دوسرا بیانیہ یہ ہے کہ اپنے مقدس مشن کی تکمیل کے لئے جانوں پر کھیل جانے کا جو عظیم جذبہ ہماری قوم میں ہے، کوئی دوسری قوم ہمارے اِس جذبے کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ رہ گئی یہ بات کہ مقام کتنا مقدس ہے، حضرت داتا سید علی بن عثمان ہجویریؒ کا دربار ہے، ایسی مقدس ہستی جس کا احترام مسلمان کیا غیر مسلم بھی کرتے ہیں بلکہ ہمارے اہل تصوف یا صوفیاء کرام کا احترام تو ہندو، سکھ، مسیحی سب بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں۔ درویش کی نظر میں دوسروں پر الزامات لگانے سے قبل جذبہ خود احتسابی کے تحت اپنی صفوں پر بھی ایک تنقیدی نظر ڈال لینا چاہئے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم بہت زیادہ فرقہ پرستیوں کا شکار ہو گئے ہیں حالانکہ ہمیں حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو اکٹھے تھام لو اور فرقوں میں نہ پڑو مگر افسوس ہم نے جس طرح دیگر بہت سی مقدس ہدایات کو پس پشت ڈال دیا ہے، اُسی طرح اتحاد و اتفاق کے بجائے فرقہ پرستی میں اتنی دور نکل گئے کہ ایک دوسرے پر تکفیر اور گمراہی کے فتاویٰ جاری کرنے میں ذرا نرمی نہیں دکھائی۔

حضرت داتا گنج بخش سرکارؒ کے مزار پر یہ افسوسناک سانحہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی یہ واحد دربار ہے جس پر اِس نوع کی تکلیف دہ واردات کی گئی ہے۔ شاہ شہباز قلندرؒ کے دربار سے لے کر کراچی اور پشاور تک کس کس دربار کا نام لیا جائے، حضرت شاہ غازیؒ اور حضرت شاہ رحمنؒ کے درباروں میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے اور صرف پاکستان کے اندر ہی نہیں دیگر مسلمان ممالک میں بھی ایسے سانحات کی خبریں عالمی میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ داعش نے عراق اور شام میں مقدس ترین ہستیوں کے مزارات کو جس بے دردی سے اڑایا اُس سے کون مسلمان بے خبر ہے۔ مسئلہ محض درباروں تک محدود نہیں، دوسری فرقوں کی مساجد پر بھی ایسے خوفناک حملے کئے جاتے ہیں، غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بھی اِن ظالموں کے ظلم سے محفوظ نہیں، مندروں اور گرجا گھروں کے متعلق بھی ایسی خبریں سنائی دیتی رہتی ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی اِن ستم گروں سے محفوظ نہیں ہیں بالخصوص کے پی میں بچیوں کے اسکول جس بے دردی سے اڑائے گئے اُن مثالوں سے اِس مائنڈ سیٹ کو سمجھنے میں معاونت ملتی ہے۔ جس کا ذہن منافرتوں سے بھرا پڑا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ابدی نفرت درجہ بدرجہ آگے بڑھتے ہوئے پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لینا چاہتی ہے کیونکہ مارکیٹیں اور پارکس تک اُن سے محفوظ نہیں ہیں۔ یورپ اور امریکہ تک اِس مائنڈ سیٹ کی پہنچ ہے۔ 16دسمبر 2014کو آرمی پبلک اسکول پشاور کے بچوں پر جو قیامت گزری اُسے کون بھول سکتا ہے۔ اُس کے ردِ عمل میں ہمارے سلامتی کے اداروں کو اِس گھناؤنے کھیل کی سنگینی کا احساس ہوا اور تمام سیاسی پارٹیوں کو یکجا کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا مگر افسوس اِس پر عمل درآمد میں وہ عزم مفقود رہا جو اِس ایکتا کا باعث بنا تھا۔

نیشنل ایکشن پلان پر سو فیصد عملدرآمد ہونا چاہئے مگر یہ درویش کچھ بنیادی حقائق پر توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہے۔ اُن میں سب سے پہلی سچائی تو یہ ہے کہ ریاست لوگوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی سے باز آجائے۔ آپ مذہب کا جس قدر سیاسی استعمال کریں گے فرقہ پرستی اُسی رفتار سے بڑھے گی۔ جس کی پیدا کردہ نفرت، شدت پسندی اور جنونیت سے ہوتی ہوئی، دہشت گردی تک پہنچے گی۔ ریاست مائی باپ بن کر اپنے تمام شہریوں کو بلاامتیاز مذہب و ملت، نسل و جنس ایک نظر سے اپنے بچوں کی طرح دیکھے۔ اُس کی جھلک ہمارے آئین میں بھی دکھائی دینا چاہئے اور اُس کی پاسداری ہمارے تعلیمی نصاب میں بھی بغیر کسی رو رعایت کے کی جانا چاہئے۔ یہاں کوئی مراعات یافتہ خصوصی طبقہ نہیں ہونا چاہئے۔ سب پاکستان میں برابر کے شہری ہیں اور حکمرانی صرف اُسی کا حق ہے جسے پاکستان کے 20کروڑ عوام اپنی آزادانہ مرضی سے صاف اور شفاف الیکشن میں منتخب کریں۔ کسی کی نااہلی کے لئے اتنا کافی ہو کہ وہ کسی ملک، قوم، فرقے یا عقیدے کے خلاف منافرت کا مرتکب ہوا ہے۔ مذہبی، نسلی یا جنسی امتیاز کی بات کرتا ہے یا مذہب کے سیاسی استعمال سے باز نہیں آرہا۔ تعلیمی نصاب کے علاوہ ہمارے میڈیا سے بھی اِس بنیادی اصول کی پابندی کروائی جائے۔ سب سے بڑی سچائی تو یہ ہے کہ آج نہیں تو کل ہمیں لبرل ازم کے دامنِ میں ہی پناہ لینا پڑے گی اور اُس مائنڈسیٹ کو توڑنا پڑے گا جو اُسے لادینیت کے معنوں میں پیش کرتے ہوئے نفرتوں کا بیوپار کرتاہے۔