جی20 سربراہی اجلاس میں ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جنگ پنگ کے درمیان بات چیت کا امکان ہے، امریکا

May 20, 2019

واشنگٹن : جیمس پولیتی، ایمی ولیمز

ہامگ کانگ: کرسٹین شیفرڈ

بیجنگ: ٹام مشیل

نیشنل اکنامک کونسل کے ڈائریکٹر لیری کڈلو نے ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جنگ پنگ کے درمیان رو برو ملاقات کا امکان پیش کیا ہے۔ امریکا نے ڈرامائی انداز میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تنازع میں کاروباری مفاد بڑھاتے ہوئے، چینی درآمدات پر اربوں ڈالرز کا بلند ترین ٹیرف عائد کرنے کا اقدام کیا ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلیٰ اقتصادی مشیر بیجنگ کے ساتھ تجارتی کشیدگی میں اضافے میں کمی کی کوشش کررہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ جاپان میں آئندہ ماہ ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں امریکی صد اورر چین کے صدر شی جنگ پنگ معاہدے کو بچانے کیلئے ملاقات کریں۔

نیشنل اکنامک کونسل کے ڈائریکٹر لیری کڈلو نے ڈونلڈ ٹرمپ اور شی جنگ پنگ کے درمیان رو برو سامنا ہونے کا امکان پیش کیا ہے،جیسا کہ امریکا نے ڈرامائی انداز میں دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تنازع میں کاروباری مفاد بڑھاتے ہوئے، چینی درآمدات پر اربوں ڈالرز کا بلند ترین ٹیرف عائد کرنے کا اقدام کیا ہے۔

جمعہ کو دوسو ارب ڈالر کی چینی اشیاء کی پہلی فہرست پر ٹیرف میں دس فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد ٹیرف کرنے کے بعدپیر کو امریکی انتظامیہ سے امید تھی کہ وہ مزید تین سو ارب چینی درآمدات کی تفصیلات جاری کرے گی، بیجنگ کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت نہ ہونے کی صورت میں جن پر 25 فیصد ٹیرف عائد کرنا چاہتی ہے۔

امریکا کے بلند تر ٹیرف ،جس کے بارے میں چین سے بدلے کی توقع ہے، نے مالیاتی مارکیٹوں کو گرادیا اور عالمی اقتصادی نکتہ نظر کے بارے میں نئی تشویش پیدا کردی۔

لیر ی کڈلو نے کہا کہ ہمارے خیال میں چین بھی کم بدلہ نہیں لے گا، ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔بات چیت جاری رہے گی، اور میں یہ کہوں گا کہ آئندہ ماہ جون کے آختتا م میں جاپان میں ہونے والا جی 20 سربراہی اجلاس میں امکانات ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر شی جنگ پنگ ملاقات کریں گے اور یہ ملاقات شاید بہت اچھی ہو۔

اس سے پہلے کوئی رسمی بات چیت نہیں کی گئی ہے، تاہم لیری کڈلو نے کہا کہ چینی حکام نے امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لیئتھزر اور امریکی وزیر خزانہ اسٹیون منچن کو مزید مذکرات کیلئے بیجنگ مدعو کیا ہے۔

شین زین اور شنگھائی میں درج کردہ چین کے سی ایس آئی 300 انڈیکس کی بڑی کمپنیاں تجارتی سیشن میں 7.1 فیصد گرنے کے ساتھ ایشیا پیسیفک بھر کی ایکویٹی مارکیٹس پیر کو گرگئیں۔ جنوبی کوریا کی کوپسی 3.1 فیصد گرگئی اور آسٹریلیا کی ایس اینڈ پی/ اے ایس ایکس 200 میں 4.0 فیصد کمی جبکہ جاپان کی ٹاپکس 2.0 کے قریب نیچے آگئی۔ ہانگ کانگ کی ہانگ سینگ انڈیکس عوامی چھٹی کی وجہ سے بند رہی۔

رینمنبی کے غیر ملکی شرح تبادلہ 9.0 فیصد کم ہونے 9402.6 رینمنبی فی ڈالر ہوکر اگست کے بعد سے بدترین ایک روزہ کمی کا شکار ہوئی۔

محض دس روز قبل امریکا اور چین اپنے تجارتی تنازع کے خاتمے کیلئے معاہدے کے قریب تھے۔ تاہم واشنگٹن نے بیجنگ پر اپنے وعدے سے پیچھے ہٹنے اورمعاہدے کی شدت میں کمی لانے تاکہ اس کا نافذ کرنا مشکل ہوجائے، کا الزام لگایا ۔ چین کے نائب وزیراعظم لی ہو جو چین کی جانب سے مذکرات کی قیادت کررہے ہیں،نے اس دعویٰ کی تردید کی۔

ہانگ کانگ کے فونکس میڈیا کے مطابق لی ہیو نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی معہادے پر پہنچنے سے پہلے،کسی قسم کی تبدیلی فطری عمل ہے۔ہم اپنی بات سے نہیں پھرے،ہمیں متن کا کچھ حصہ کیسے لکھنا ہے پر اختلاف تھا۔

لی ہیو نے کہا کہ چین ’مساوات اور وقار پر مبنی معاہدہ چاہتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اصولی معاملات پر اختلافات تھے جس پر چین کوئی رعایت نہیں کرسکتا۔

تاہم ہفتہ کی شام ڈونلڈ ٹرمپ نے چین کے مذکارات کاروں پر طنز کیا۔امریکی صدر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ چین نے محسوس کیا ہے کہ حالیہ مذاکرات میں انہیں بہت بری طرح سے مارا جارہا ہے اس لیے وہ 2020 کے ائاندہ امریکی صدارتی انتخابات تک انتظار کرسکتے ہیں گار وہ خوش قمست ہوئے اور ڈیموکریٹ جیت جاتے ہیں۔

امریکی صدر نے کہا کہ ان کیلئے معاہدے بدترین ہوگا اور اگر میری دوسری مدت میں اس کیلئے مذکارات کرنا پڑے، ان کیلئے بہتر یہی ہوگا کہ ابھی عمل کریں۔

اتورا کو بھی ڈونلڈ ترمپ نے چین کو اکسنا جاری رکھا۔ انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ ہم درست ہیں جہاں ہم چین کے ساتھ رہنا چاہیں۔یاد رکھو، انہوں نے ہمارے ساتھ معاہدہ توڑا اور دو بارہ مذاکرات کی کوشش کی تو ہم چین سے ٹیرف میں اربوں ڈالر کا دس گنا آگے لے جائیں گے۔

جبکہ ڈونلڈ ترمپ بارہا یہ دعویٰ کرچکے ہیں کہ چین ان کی انتظامیہ کی جانب سے عاید کردہ ٹیرف ادا کررہا تھا،یہ نظرانداز کرتے ہوئے کہ درحقیقت یہ امریکی درآمد کنندگان ہیں جو ڈیوٹی ادا کرتے ہیں۔لیری کڈلو نے یہ اعتراف کیا کہ کشیدگی میں اضافہ امریکی کاروباری اداروں کیلئے کچھ پریشانی کا باعث بن سکتا ہے،اگرچہ ان کا خیال تھا کہ پیمانہ کم سے کم ہوگا۔

لیری کڈلو نے کہا کہ اس سے دونوں جان متاثر ہوں گی۔آپ کو جو کرنا ہے وہ آپ کو رکنا ہے۔ گزشتہ سال میں ہم غیر منصفانہ تجارت کی مشق کررہے ہیں اور میری رائے میں ،اس کے اقتصادی نتائج بہت کم ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ دونوں جماعتوں نے کیپٹل ہل پر چین سے مذاکرات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ باری کی حمایت کی ہے۔دیگر کی تشویش میں اضافہ ہوا ہے۔

کینکٹی سے ریپبلکن سینیٹر رانڈ پال نے اتوار کو اے بی سی نیوز کو بتایا کہ امریکی صدر چین کے ساتھ مذاکراتی جنگ کھیل رہے ہیں اور میرے خیال میں وہ سجمھتے ہیں کہ اس وقت وہ واقعی باہر نہیں نکل سکتے۔میں نے انتظامیہ کو تجویز دی ہے کہ اسے پورا کریں کیونکہ ٹیرف کی جنگ یا تجارتی جنگ میں جتنا زیادہ عرصہ ہم ملوث رہیں گے،اس بات کے زیادہ امکانات ہیں کہ ہم دراصل اس کی وجہ سے بحران میں داخل ہوسکتے ہیں۔

شی جنگ پنگ اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان نئی سربراہی ملاقات کے امکانات اشارہ ہوسکتا ہے کہ صدر کی شیخیوں سے جو لگتا ہے اس کے مقابلے میں امریکی انتظامیہ سمجھوتے کیلئے زیادہ تیار ہے۔

اوباما انتظامیہ کے سابق اہلکار اور واشنگٹن کی کنسلٹنسی انٹرنیشنل کیپیٹل اسٹریٹجیز کے سربراہ ڈگلس ریڈیکر نے کہا کہ اگر مارکیٹوں کو اندرونی طور پر بنایا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کا تجارتی ایجنڈے پوری معیشت کو ریورس غیئر میں ڈال رہا ہے، وہ بالکل وہاں ختم کرسکتے ہیں جہاں نہیں کرنا چاہیں گے، مالیاتی بازاروں کا گرنا، اقتصادی سست روی اور قیمتوں میں اضافہ۔

انہوں نے مزید کہا کہ جن میں سے سب ان کو سیاسی جانچ پڑتال کیلئے بے بقاب جرے گا اور دوبارہ انتخابات کیلئے ان کے دلائل کو کمزور کرے گا۔ لہذٰا معہادے طے کرنے کیلئے ان کے پاس کافی فوائد موجود ہیں۔

امریکا اور چین کے مابین تنازع کا یورپی یونین میں بغور مشاہدہ کیا جارہا ہے،جہاں سفارتکار چین اور امریکا دونوں کے ساتھ سخت تجارتی مذاکرات کیلئے تیار بیٹھے ہیں،جب وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ معاملات طے کرلیں۔

ایک سینئر یورپی سفارتکار نے کہا کہ امریکا اور چین کی پیشرفت دونوں میں سے یاک پارٹنر کے ساتھ بھی ہمارے مذاکرات کیلئے اچھی پیشن گوئی نہیں ہے،جیسا کہ ان کے درمیان جس پر اتفاق ہوگا وہ ہر چیز ہمارے اوپر کاپی پیسٹ کریں گے۔

یورپی کمیشن کے صدر جین کلاڈ جنکر نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا کہ انہیں اندیشہ ہے کہ دنیا کو درپیش بڑے اقتصادی مسائل کا بڑا حصہ امریکا اور چین کے درمیان تجارتی کشیدگی کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر سرمایہ کاروں ایسا محسوس نہیں کرتے کہ یہ مسئلہ جلد ہوسکتا ہے، اٹلانٹک کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں سرمایہ کاری کیلئے خواہش کم ہورہی ہے۔