معروف مؤرخ ’’میرک یوسف بکھری‘‘

May 28, 2019

ابوالقاسم خان نمکین ابن ملا میر سبزواری کا آبائی وطن سبزوار کا ایک قصبہ تھا۔ ملا میر کے حالات زندگی میں تحریر کیا گیاا ہے کہ کسی زمانے میں مشہد مقدس کی تولیت ان کے سپرد تھی، جن دنوں خراسان اور اس کے ملحقہ علاقوں پر ازبکوں نے داروگیر کی اور شہر کے شہر ملیا میٹ کر دیئے تو ابوالقاسم نمکین کو مشہد مقدس کی حکومت ترک کرنا پڑی اور وہاں سے وہ قندھارپہنچے اور وہاں پہنچ کر ہمایوں کے بیٹے میرزا حکیم کی ملازمت اختیار کی۔ بعد میں انہوں نے آگرہ جا کر اکبر کے دربار میں حاضری دی۔شہنشاہ اکبر نے ان کا مرتبہ اور خاندان کا لحاظ کرتے ہوئے ان کو اپنے درباری امیروں میں شامل کر لیا۔ میر ابوالقاسم خان کا سندھ میں زیادہ عرصہ تک قیام رہا۔ یہاں تک آخر میں انہوں نے بکھر میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ وہاں مکانات بنائے، محلے آباد کئے، عمارتوں کو تعمیر کرایا۔ اسی طرح ان کی وجہ سے بکھر کی رونق اور خوبصورتی میں اضافہ ہوگیا۔ جب ان کا بیٹا میرابولقاسم خان ٹھٹھہ کا صوبیدار مقرر ہوا تو ان کا خاندان دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ان میں سے ایک خاندان کی رہائش بکھر میں رہی اور دوسرے کی ٹھٹھہ میں۔ ٹھٹھہ میں رہنے والا خاندان سادات امیر خانی اور بکھر میں رہنے والا خاندان سادات نمکین کے ناموں سے مشہور ہوا۔میرک یوسف، میر ابوالقاسم نمکین کا چھوٹا بیٹا اور میر ابوالبقا کا بھائی تھا۔ تذکرہ نویسوں اور تاریخ نگاروں نے اس کے حالات نہیں لکھے ہیں، لیکن اس کی ایک تصنیف مظہر شاہ جہانی سے اس کے حالات اورواقعات کا پتہ چلتا ہے۔

میرک یوسف نے ابتدائی تعلیم ٹھٹھہ ہی میں حاصل کی اور وہاں کے تمام نامور علماء سے استفادہ کیا اور علوم مقداولہ کی تحصیل کی۔ اس کے اپنے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ اپنے والد ہی کی خدمت میں گزارا اور ان ہی کے تجربات کی روشنی میں زندگی کی راہوں پر گامزن ہونے کی کوشش کی۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جہاں جہاں اور جن جن علاقوں میں میر ابوالقاسم کی تعیناتی عمل میں آئی، میرک یوسف ان ہی کے ساتھ رہا۔ سن 1009 ھ میں میر ابوالقاسم نمکین کو باجوڑ کا قلعہ دار مقرر کیا گیا تو میرک یوسف نے باجوڑ میں اقامت اختیار کی۔ جب میر ابوالقاسم نمکین سہیون کا علاقہ دار مقرر ہوا تو میرک یوسف نے سہیون آ کر اقامت پسند کی۔ میرک یوسف اپنے والد کے لئے ہراول دستے کا کام دیتا۔ ہر وقت اس کے ساتھ تین سو سے زیادہ سوار رہتے تھے۔ وہ کسی مقام پر اپنے والد کے پہنچنے سے پہلے پہنچ جاتا تھا اور صورتحال کا جائزہ لیتا تھا تاکہ کوئی حاسد یا دشمن اس کے والد کو گزند نہ پہنچا سکے۔

جب میرزا غازی بیگ ترخان کو جہانگیر نے قندھار کی مہم پر مامور کیا تو اس کی مدد کے لئے میر ابوالقاسم خان نمکین کو جانے کی ہدایت کی۔ میرابوالقاسم خان نمکین کے قندھار روانہ ہونے سے پہلے اپنے بیٹے میرابوالبقا خان کو اپنا قائم مقام بنایا۔ اس طرح میر ابوالبقا خان نے سہیون کے نظم و نسق پر توجہ دی۔ قندھار کی مہم سے واپسی کے فوری بعد میر ابوالقاسم خان نمکین وفات پا گئے اس طرح سہیون کی نظامت میر ابوالبقا خان کی تحویل میں آ گئی۔ میرک یوسف نے یہ تمام عرصہ اپنے بھائی میر ابوالبقا خان کے ساتھ گزارا۔ اسی دوران جہانگیر نے میر یوسف کو منصب عطا کیا۔ لیکن میرک یوسف خود کو کسی منصب کا اہل نہیں پاتے تھے۔ ان کے مزاج میںسادگی تھی۔ وہ قلندر افتاد طبع کا مالک تھا۔ دنیاوی جاوہ چشم کا اس کو لالچ نہیں تھا۔ اس نے اپنے باپ کی زندگی میں بھی کوئی عہدہ قبول نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنی آبائی جاگیر پرقناعت کر لی اور سہیون میں گوشہ نشین ہوگیا۔

سہیون میں اس کے روز و شب مختلف مقابر کی زیادتوں میں گزرے تھے۔ وہ اولیائے کرام کے مزاروں پر حاضر ہوتا اور فاتحہ خوانی کرتا تھا۔ اس کے دروازے سے کوئی سائل محروم اور ہاتھ خالی نہیں جاتا تھا۔ اس کو ہر وقت محتاجوں اور غریبوں کی فکر رہتی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ کھلے رہتے تھے۔ میرک یوسف 1016ھ سے 1038 ھ تک سہیون میں مقیم رہا۔ سہیون اس کے لئے ایک طرح کا آبائی وطن بن گیا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا بیشتروقت اس شہر میں گزارا تھا۔ اس لئے اس کو سہیون سے محبت تھی۔ ایک لمحہ کے لئے بھی وہ یہاں سے کہیں اور جانے کو پسند نہیں کرتا تھا۔ چونکہ اس نے اپنی زندگی اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ امور ملکی میں حصہ لیتے ہوئے گزاری تھی اور اس کو بدلتے ہوئے حالات اور واقعات کا پوری طرح اندازہ تھا اور وہ عوام کے مسائل حل کرنے کی پوری سوجھ بوجھ رکھتا تھا اس لئے سہیون کے حاکم اور ناظم سب ہی اس سے مختلف مسائل حل کرانے کے لئے مشورہ لیتے تھے اور ان پر عمل کر کے اپنے دور اقتدار کو دلکش اور پرکشش بناتے تھے۔ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ ہر شخص اس کا دوست اور ساتھی بن گیا۔ امیروں اور غریبوں کے دل میں اس کی عظمت اور وقعت بڑھ گئی اور اس کا شمار اپنے دور کے ممتاز دانش مندوں اور مدبروں میں ہونے لگا۔

جن دنوں میرک یوسف کا قیام سہیون میں تھا تو وہاں کے سیاسی حالات میں بڑی تبدیلیاں ہوئیں۔ یکے بعد دیگرے مغل ناظم آئے اور حکومت کرکے چلے گئے لیکن سہیون کے رہنے والوں کو سب سے بڑا عذاب اور پریشانی میں نورجہاں کے برادر زادہ مرزا احمد بیگ نے مبتلا کیا۔ جہانگیر نے نورجہاں بیگم کی سفارش پر اس کو سہیون کی نظامت سپرد کی تھی۔ اس نے سہیون پہنچتے ہی عیش و عشرت کا باب کھول دیا۔ ظلم و تشدد میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ ہزاروں بے گناہوں کو مارنا، سزائیں دینا اور ان کا مال و اسباب لوٹ لینا اس کے معمولات میں شامل ہوگیا۔ کسی وضیع اور شریف کی عزت اور زندگی محفوظ نہیں رہی۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے کسی چنگیز نے انسانیت کے معصوم گلے پر اپنے دندان گاڑھ دیتے ہیں اور اس کو مکمل طور پر تباہ کر دینا چاہتا تھا۔ یہ بربریت اور سفاکی اس منزل پر پہنچ گئی تھی کہ لوگ احتجاج کی قوت سے بھی محروم ہوگئے تھے۔ احتجاج ان کے گلے میں اٹک کر رہ جاتا تھا۔ احتجاج کی صورت میں ان کا سر قلم کردیا جاتا تھا۔

میرک یوسف کا خمیر سندھ کی سرزمین سے اٹھا تھا۔ وہ سندھ پر مغلوں کے ظلم و ستم کو اس طرح عام ہوتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کو سندھ سے محبت تھی۔ اس کو کسانوں سے محبت تھی۔ اس کو آدمیوں اور شاعروں سے محبت تھی۔ اس کو محنت کش طبقے سے محبت تھی۔ وہی جب ظلم اور استحصال کا شکارہو تو عدالت اور خوشحالی دلوانے کا انجام خراب بن جاتا ہے چنانچہ اس نے فیصلہ کیا سندھ میں نورجہاں بیگم اور اس کےعزیزو اقارب کے ہاتھوں سندھ کے رہنے والوں پر جو کچھ گزر رہی ہے وہ تفصیل سے لکھے گا اور اسے شاہجہاں کے دربار میں جا کر پیش کرے گا اور بتائے گا کہ سندھ کے عوام کی زندگی کیسے اجیرن کر دی گئی ہے۔ اس داستان کے لکھنے کے لئے بھی ذہنی

سکون اور فرصت کی ضرورت تھی۔ چنانچہ وہ کسی نہ کسی بہانے سے سہیون سے بکھر پہنچ گیا اور وہاں جا کر نورجہاں بیگم اور اس کے عزیز و اقارب کے مظالم کی داستان مظہر شاہجہانی کے نام سے لکھی۔ یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ یہ روداد شاہجہاں کو پیش کی تھی یا نہیں لیکن اس روداد کو سندھ کی تاریخ میں بڑا اہم مقام حاصل ہے۔ یہ تاریخ مظہر شاہجہانی کے نام سے معنون ہے۔ یہ سندھ کی واحد تاریخ ہے جس میں سندھ کے نااہل حکمرانوں کے چہرے سے بے نقاب کیے گئے ہیں،اور ان کے ظلم و تشدد کے واقعات کو مشتہر کیا گیا ہے۔ اس کتاب سے نہ صرف سندھ کے تہذیب و تمدن پر بھرپور روشنی پڑتی ہے بلکہ پہلی مرتبہ اندازہ ہوتا ہے کہ سندھ کے رہنے والوں کی بود و باش کیا تھی۔ کیسے کیسے ظالم حکمرانوں کے سامنے ان کو سر تسلیم خم کرنا اور اطاعت پر مجبور ہونا پڑتا تھا اور کس طرح جبر کے آہنی شکنجوں سے ان کی زندگی گھوٹ کر رکھ دی تھی۔ آج تک سندھ میں بادشاہوں، امیروں اور وزیروں کی صدہا تاریخیں لکھی گئی ہیں لیکن مظہر شاہجہانی وزیروں، بادشاہوں اور امیروں نہیں عوام کی تاریخ ہے۔ اپنے دور کی تاریخ ہے، معاشرہ اور ماحول کی تاریخ ہے۔

میرک یوسف ادیب بھی تھا۔ شاعر بھی تھا اور عالم بھی تھا۔ اس نے اس تاریخ کو جس انداز سے تحریر میں پیش کیا ہے اس سے نہ صرف اس کی قوت مشاہدہ کی داد دینی پڑتی ہے بلکہ یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اظہار بیان اور اظہار مطالب پر بھی بے پناہ قدرت رکھتا تھا۔ اس نے اس کتاب میں جگہ جگہ حسب موقع اور حسب محل شعر بھی درج کئے ہیں جس سے اس کے ذوق سلیم اور افتاد طبیعت کا سراغ ملتا ہے۔

میر ابوالقاسم خان نمکین اور اس کے بیٹے ابوالبقا خان اور اس کے خاندان کے دوسرے افراد کے حالات تفصیل سے ملتے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ میرک یوسف کےتمام حالات تک کسی کی رسائی نہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 1044ھ میں وفات پائی اور اس کی لاش ٹھٹھہ میں ان کے خاندانی قبرستان میں سپرد خاک کی گئی۔ ٹھٹھہ کا امیر خانی قبرستان انتہائی شکستہ حالت میں ہے۔ اکثر وہ قبروں کے کتبے ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں۔ بعض قبروں کوزمانے کے گرم و سرد نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس لئے بعض قبروں کی شناخت اور پہچان ممکن نہیں رہی۔ اور یہ کہنا مشکل ہوگیا ہے کہ اس منوں مٹی کے ڈھیر کے نیچے کون محو خواب ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ میرک یوسف کی قبر بھی اسی قبرستان میں ہوگی۔ جس کی کسی ثبوت اور دلیل کے بغیر شناخت اور پہنچان ممکن نہیں۔