آپ کا صفحہ: کب آئے گی تبدیلی…؟؟......

June 02, 2019

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

غیر حاضری کَھلتی ہے

میگزین کے ماتھے کا جھومر ’’سرچشمہ ٔ ہدایت‘‘ نہایت عمدہ سلسلہ ہے۔ خدا کرے یونہی چمکتا دمکتا رہے۔ پیارا گھر کی کبھی کبھار غیر حاضری بھی کَھلتی ہے۔ ناقابلِ فراموش اور ’’ایک پیغام پیاروں کے نام‘‘ کو بھی مستقل ہونا چاہیے۔ ’’اِک رشتہ، اِک کہانی‘‘ سلسلے کا تو جواب ہی نہیں۔ (حمیدہ، حمیرا گل، کوئٹہ)

ج: ’’پیارا گھر‘‘ کی غیر حاضری تو کم ہی ہوتی ہے۔

موتی چُن چُن کر

منورراجپوت کےقلم کی اثرپزیری دل تک محسوس ہوتی ہے۔ موضوعات کا انتخاب بھی لاجواب ہوتا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں حنا کامران نے کراچی سے کچن سجایا۔مگراُن کی ہرترکیب میں مایونیز کا استعمال تھا۔ اس قدر مایونیز کھا کھا کر کیا انسان صرف اسپتال ہی جاتا رہے گا اور محمود میاں نجمی کے قلم سے بکھرے موتی چُن چُن کر تو ہم پوری مالا پروئے جا رہے ہیں۔ (ایس کے)

ج: مالا صرف پروئیں ہی نہیں، اُسے گلے کا ہار بھی بنائیں۔

پاکستان بنا کہاں تھا؟

ہم بھی سنڈے میگزین کے بڑے فین ہیں۔ عرصہ دراز سے باقاعدہ مطالعہ کر رہے ہیں۔ صبیحہ خانم کی پیدایش سے متعلق قارئین نے بڑا شور ہنگامہ کیا کہ ڈاکٹر قمر عباس نے غلط لکھ دیا، وہ تو گجرات (پاکستان) کی پیدایش ہیں۔ تو بھئی، اُس وقت پاکستان بنا ہی کہاں تھا۔ (سیّد حیدر شاہ، کراچی)

ج:آپ بھی بڑی دُور کی کوڑی لائے ہیں، مگر بہت تاخیر سے لائے ہیں۔ اس موضوع پر متعدد خطوط اور ہمارا معذرت نامہ کب کا شایع ہو کے بھول بُھلا بھی گیا۔ پاکستان بنا تھا یا نہیں، بات یہ ہے کہ صبیحہ جہاں پیدا ہوئیں، وہ گجرات آج پاکستان کا حصّہ ہے یا بھارت کا، تو اس اعتبار سے مضمون میں غلطی تھی، جس کی ہم نے معذرت بھی کرلی تھی۔

کب آئے گی تبدیلی…؟؟

براہِ مہربانی عمران خان کو اُن کے وعدے یاد دلائیں۔ انہوں نے ایک کروڑ نوکریوں اور60لاکھ گھروں کا وعدہ کیا تھا اور ہم نے اِسی امید پر ان کو ووٹ دیا تھا۔ لیکن نہ تو ہمیں سرکاری نوکری ملی، نہ کوئی گھر۔ ہم آج بھی کرائے کے مکان میں رہایش پزیر اور بے روزگار ہیں۔ اب تو پرانا پاکستان ہی یاد آتا ہے، جس میں حالات کچھ تو بہتر تھے۔ آپ لوگ عمران خان کو ان کے وعدے تو یاد دلائیں۔ آخر کہاں گئے60لاکھ مکان اور ایک کروڑ نوکریاں اور کب آئے گی وہ تبدیلی، جس کے انہوں نے بڑے بڑے سبز باغ دکھائے۔ کم ازکم میڈیا کو تو ان کا محاسبہ کرنا چاہیے ۔ (نواب زادہ خادم ملک،سعید آباد، کراچی)

ج: ہاہاہا… ہاہاہا…ہاہاہا… قسم سے ہنسی نہیں رُک رہی۔ نو کمنٹس۔

ڈٹے رہیے گا

سنڈے میگزین، پاکستان میں سب سے زیادہ شایع ہونے والا علمی و ادبی جریدہ ہے۔ جو جنگ گروپ کے توسّط سے ہر اتوار باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ اللہ اپ لوگوں کو ہمّت و حوصلہ دے، اسی طرح ڈٹے رہیے گا۔ (شری مرلی چند،گوپی چند جی گھوکلیہ، شکارپور)

ج :ویسے پورا جملہ یوں بنتا ہے’’اِسی طرح خالی جیب، خالی پیٹ ڈٹے رہے گا۔‘‘

بہت ہی عُمدہ قلم کاری

’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں محمود میاں نجمی نے حضرت اسماعیل علیہ السلام پر کیا خُوب صُورت مضمون لکھا ہے کہ پڑھ کر دل خوش ہوگیا۔ ماشاء اللہ اس مرتبہ تو فیچر میں بھی بہت منفرد تحریر پڑھنے کو ملی۔ شفق رفیع نے ’’ضرورتِ رشتہ‘‘ پر بہت ہی عُمدہ قلم کاری کی۔ پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین کا انٹرویو بھی لاجواب تھا۔ خاص طور پر پروفیسر صاحب کا پہلا جواب بہت پسند آیا اور سرِورق کی ماڈل تو واقعی’’لونگ گواچا‘‘ ہی لگ رہی تھی۔ ’’اسٹائل‘‘ پراچھے، خُوب صُورت تجربات نظر آرہے ہیں۔ منور مرزا اس مرتبہ داعش کے خاتمے کے ساتھ موجود تھے۔ مضمون حسب ِروایت بہت ہی عُمدہ اندازسے تحریر کیا گیا۔ اور ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں ڈاکٹر اطہر رانا کافی عرصے بعد نظر آئے، خوشی ہوئی۔ (رونق افروز برقی، دستگیر کالونی، کراچی)

ج: آپ بھی اگر کچھ بریک کے بعد نظر آیا کریں، تو شاید آپ ہی کی طرح اور لوگوں کو بھی خوش ہونے کا موقع مل سکے۔

اچھی صُورت بھی کیا…

حضرت انسان پر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب زندگی ایک جگہ آکر ٹھہر سی جاتی ہے۔ ہر قسم کی مصروفیات، شرارتیں، شوخیاں، دل چسپیاں وغیرہ ختم کر کے دل یہی چاہتا ہے کہ بس گوشہ نشینی اختیار کرلی جائے۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوچلا تھا، مگر پھر اس کا توڑ ’’سنڈے میگزین‘‘ کی صُورت مل گیا۔ جس کا باقاعدہ مطالعہ کسی طور مؤثر علاج سے کم نہیں۔ آپ کی سرزنش کہ ’’دیگر قارئین کو بھی موقع ملنا چاہیے‘‘ کے تحت پانچ ہفتے بہ مشکل گزارے کہ پیمانہ صبر لبریز ہوگیا، تو آج ایک بار پھر حاضر ہیں۔ اس عرصے میں بہت کچھ مذہبی، معلوماتی، دل چسپ، طنزومزاح سے بھرپور پڑھنے کو ملا۔ خطوط، مدیرہ کے نشتر میں ڈوبے جوابات کے ساتھ پَری چہرہ مہ جبینوں کی خُوش لباسی، دل کش انداز سے بھی لُطف اندوز ہوتے رہے۔ کچھ مہربانوں نے ’’حُسن پرست‘‘ کا طعنہ دینا شروع کردیا ہے۔ کچھ نے تو چاچی کے ہتھے چڑھانے کے لیے ہماری صاف گوئی کے خلاف عرض داشت بھی پیش کردی۔ حالاں کہ اس میں کیا بُرا ہے۔ وہ ہے ناں ؎ ’’اچھی صُورت بھی کیا بُری شے ہے… جس نے ڈالی، بُری نظر ڈالی‘‘ تو ہم تو کوشش کرتے ہیں کہ ’’اسٹائل‘‘ پر جب ڈالیں، اچھی نظر ہی ڈالیں، مگر آپ کو ہمارا یہ کن اَنکھیوں سےدیکھنا بھی برداشت نہیں ہوتا، ہم کو عبث بدنام کیا۔ خیر، محمود میاں نجمی کی کاوشیں، اندازِ تحریر اور شخصیت کے پہلوئوں کو اجاگر کرنے کی صلاحیت اللہ کی عطا کردہ ہے۔ ’’قصص الانبیاء‘‘میں حضرت اسماعیل ؑ اور حضرت یعقوب ؑ سے متعلق نگارشات پڑھ کر یقیناً ایمان تازہ ہوا۔ شفق رفیع نے ضرورتِ وقت کی عین مناسبت سے ’’ضرورت رشتہ‘‘ پر قلم اُٹھا کر بہت اچھا اقدام کیا۔ اللہ سب کو بہن، بیٹیوں کے اس فریضے سے بہ حُسن و خوبی سبک دوش ہونے کی ہمّت و توفیق عطا فرمائے۔ رفیق مانگٹ نے لوک سبھا میں فلمی ستاروں کی شمولیت کا بڑے دل چسپ انداز میں تذکرہ کیا۔ ساتھ ہی پاکستانی سیاسی فن کاروں کا بھی ذکر تھا۔ خاص طور پر یہ انکشاف تو میرے لیے بہت ہی حیرت انگیز تھا کہ آصف علی زرداری نے بھی ایک فلم ’’سال گرہ‘‘ میں چائلڈ اسٹار کے طور پر کام کیا ہوا ہے۔ ’’پیارا گھر‘‘ کو اس مرتبہ پورا صفحہ بھی نصیب نہ ہوسکا۔ لیکن شُکر ہے کہ مصباح طیّب کی تحریر ’’دنیا امتحان گاہ‘‘ پوری شایع ہوئی اور ’’اسٹائل‘‘ کی کیا بات کریں۔ زارا شاہ قدرت کے عطا کردہ حُسن کے ساتھ خوب ہی جلوہ افروز ہوئیں ملبوسات کا انتخاب بھی کمال تھا۔ (چاچا چھکّن، گلشن اقبال، کراچی)

ج: تو چاچا جی، وہ جس بھلی مانس (چاچی) کے ساتھ پوری زندگی گزار دی، یہ اچھی نظر ’’اسٹائل‘‘ بزم کی اچھی صُورتوں کے بجائے اُن پر ڈالا کریں ناں۔

دوخوشیوں سے سرشار

اس بار کے سنڈے میگزین نے ہمیں دو دو خُوشیوں سے سرشار کیا۔ ایک تو ’’آپ کا صفحہ‘‘ میں خط شایع ہوا اور دوسرا یہ کہ سرِورق بہت ہی حسین و دل کش تھا، ماڈل بہت ہی پیاری لگی۔ سینٹر اسپریڈ کی تمام ہی فوٹو گراف لاجواب تھیں۔ ’’پیارا گھر‘‘ میں مدثر اعجاز نے ٹین ایج کے مسائل پر قلم اُٹھایا اور ساتھ ہی اُن کا حل بھی بتایا، اچھی تحریر تھی۔ منور مرزا میرے پسندیدہ رائٹر ہیں۔ وہ بڑی ریسرچ اور محنت کے بعد اپنا مضمون تیار کرتے ہیں، اسی لیے پڑھنے میں بہت لُطف آتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے پہلے شیلٹر ہوم کے متعلق پڑھا، اچھا لگا۔ سانحہ کرائسٹ چرچ سے متعلق رفیق مانگٹ کا طویل مضمون بھی زبردست تھا اور محمود میاں نجمی کے ذکر کے بغیر تو خط مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ اُن کی ہر تحریر آبِ زر سے لکھی معلوم ہوتی ہے۔ (ظہیر الدین غوری، لاہور)

ج: ’’ایک خوشی‘‘ سے تو آپ لگ بھگ ہر ہفتے ہی سرشار ہو رہے ہیں۔ خیال رہے، حد سے بڑھی ہوئی خوشی بھی کبھی کبھی باعث ِ آزار بن جاتی ہے۔

تعریف میں کیا حرج ہے

سب سے پہلے تو آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے میرا خط شمارے کی زینت بنایا اور بہت عُمدگی و خُوب صورتی سے ایڈٹ بھی کیا۔ وہ سب کچھ جو میں کہنا چاہتا تھا، مگر مناسب انداز سے بیان نہیں کر پایا، آپ نے سب سمجھ لیا۔ ماڈلز کی تعریف مَیں اس لیے کرتا ہوں کہ مجھے ’’سینٹر اسپریڈ‘‘ کے صفحات اچھے لگتے ہیں اور جو چیز اچھی لگے، اُس کی تعریف کرنے میں بھلا کیا حرج ہے۔ شمارہ پڑھ کر پتا چلتا ہے کہ میگزین پر بہت محنت کی جاتی ہے۔ ’’قصص الانبیاء‘‘ سلسلے کے ذریعے بہت نادر و نایاب معلومات ملتی ہیں۔ منور مرزا کی تحریر بھی بہت جان دار ہوتی ہے۔ اس بار سنڈے اسپیشل میں رفیق مانگٹ کی تحقیق بہت بہت پسند آئی۔ ڈاکٹر صغرا صدف کی کاوش بھی اچھی تھی اور ماڈل زارا شاہ پر تمام ہی ملبوسات بہت اچھے لگ رہے تھے۔ دوسرے شمارے میں شگفتہ بلوچ اور منور مرزا کی کاوشیں پسند آئیں۔ نجم الحسن عطا کے تجزئیات بھی معلوماتی ہوتے ہیں۔ (محمد علی، آستانہ بغدادی، شیخوپورہ روڈ، گوجرانوالہ)

ج: تہذیب و اخلاق کا دامن تھام کے کوئی بھی بات کہنے میں کوئی حرج نہیں۔

ولن کا نام

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دوہی شماروں پر تبصرہ کروں گا۔ بہت اچھی بات ہے کہ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کے صفحات اب مسلسل شایع ہورہے ہیں۔ سانحۂ کرائسٹ چرچ کے بعد کیوی وزیراعظم نے عالمِ اسلام کےدل جیت لیے۔یقیناًمسلمان حکمرانوں کو ان سے سبق سیکھنا چاہیے۔ میٹرک بورڈ کراچی کے چیئرمین، پروفیسر ڈاکٹر سعید الدین کا انٹرویو بہت پسند ایا۔ ڈی جی، گلیات ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی بھی گفتگو پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ انہوں نے گلیات پر بہت محنت کی ہے، خانس پور ٹاپ پر دنیا کا بلند ترین کرکٹ گرائونڈ تعمیر کروانا مذاق نہیں۔ ادب میں جانوروں، پرندوں، حشرات الارض کا تذکرہ کچھ عجیب سا ہی لگتا ہے۔ اور ہاں، اب تو ’’اسٹائل‘‘ میں عالیہ کاشف بھی غزلوں، نظموں کا انتخاب کرنے لگی ہیں، یعنی آپ ہی کی ڈگر پر چل پڑی ہیں۔ کہی اَن کہی میں نرما اور رضا زیدی کے بارے میں پڑھنا بہت اچھا لگا۔ مظفر گڑھ واقعی پنجاب کا مردم خیز شہر ہے۔ شفق رفیع نے فیچر ’’ضرورتِ رشتہ‘‘ بہت شان داراندازمیں لکھا۔ مضمون پڑھ کر بہت سے والدین ضرور سوچنے پر مجبورہوجائیں گے۔ ایک شمارے میں میرا خط شامل ہوا اور ولی احمد شاد نے میرا ذکر بھی کیا، یہ اُن کی محبت ہے۔ پچھلے کسی شمارے میں آپ نے میرے خط کے جواب میں کہاتھا کہ محمّد سلیم راجہ تو ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے ہیرو ہیں، آپ ہیروئن اور ولن کا نام بھی بتادیں، تو ہیروئن کا نام تو نہیں بتائوں گا کہ کہیں کوئی ناراض نہ ہوجائے۔ ہاں، ولن کا نام بغیر سوچے سمجھے بتا دیتا ہوں، وہ ہیں نواب زادہ خادم ملک صاحب۔ (پرنس افضل شاہین، ڈھاباں بازار، بہاول پور)

ج: ہیروئنیز کی تو گنتی ہی نہیں ہے کہ ہماری ہر اچھی لکھاری کسی ہیروئن سے کم تو نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ کسی فلم میں ایک ہی ولن ہو۔ زائد بھی ہوسکتے ہیں۔ خادم ملک کے آسے پاسے کوئی پرنس، کوئی پروفیسر بھی پایا جاسکتا ہے۔

کباڑیا چھاپے گا

سرِورق جاذبِ نظر، کاسٹیوم، میک اَپ، لے آئوٹ سب دل کش، سُرخیاں بھی سلیقے سے مرتّب کی گئیں، لیکن جیسنڈا آرڈرن کی ماتمی تصویر بالکل بھی مناسب نہیں لگی۔ بہرحال، ’’قصص الانبیاء‘‘ میں اس ہفتے حضرت اسحاق علیہ السلام کا تذکرہ مع معلوماتی تصاویر موجود تھا۔ مضمون بہت عُمدہ اور رواں پیرائے میں لکھا گیا۔ رفیق مانگٹ کا مضمون بلکہ ’’نثری مرثیہ‘‘ بڑی تاخیر سے پڑھنے کو ملا کہ جب سانحۂ نیوزی لینڈ پر کئی تحریرات، تصویرات اور شذرات نظروں سے گزر گئے۔ بہرحال، مضمون مع تصاویر نہایت جامع دستاویز ہے، جس میں نیوزی لینڈ میں مساجد کی تعمیر سے متعلق ایک مختصر تحقیق بھی شامل کی گئی، ویل ڈن!! شگفتہ بلوچ جنوبی پنجاب کا پہلا اور شاید آخری شیلٹر ہوم (پناہ گاہ) لائیں۔ ہیموفیلیا اور ایکس ڈی آر ٹائی فائیڈ سے متعلق مضامین تو سر ہی سے گزرگئے۔ اور ہاں، تم ہمیشہ اُول جلول تحریریں چھاپ کر ہی مجھ جیسے جاہل قارئین سے واہ واہ کروانا، جب کہ میری تحریروں اور تحقیقات کو پڑھے بغیر اُسی نحس ردّی والے کے ہاتھ سینتواتی رہنا۔ ایک دن وہی کباڑیا چھاپے گا میری کتاب اور نئی کتب کے تبصروں کے لیے بھی دو جِلدیں بھیجے گا۔ منور مرزا ’’عالمی افق‘‘ کی بجائے اب مسلسل ’’بھارتی افق‘‘ پر چھا گئے ہیں۔ ’’نئی کتابیں‘‘ میں مسلم شمیم کی ’’دبستانِ بھٹائی کے نورتن‘‘ بہت بھائی۔ ہنستا مسکراتا ’’پیارا گھر‘‘ تو ہمیشہ ہی لبھاتا ہے۔ مدثر اعجاز نے ’’ٹین ایجرز‘‘ پر کمال لکھا۔ عارف نوناروی ایک ننّھا سا لیکن کارآمد مضمون ’’اجتماعی شادیوں‘‘ پر لائے، لیکن عجلت میں ایک خاص فرقے (اسماعیلی برادری) کی اجتماعی شادیوں کا ذکر بھول گئے۔ میرے خیال میں برصغیر میں سب سے پہلے اجتماعی شادیوں کا ڈول آغا خان کمیونٹی، بوہری اور کچھی، میمن برادریوں ہی نے ڈالا تھا۔ ’’آپ کا صفحہ‘‘ کے برقی خطوط میں عاتکہ فیاض نے بالکل ٹھیک لکھا کہ ’’ڈائجسٹ‘‘ اور ’’ناقابلِ فراموش‘‘ ڈراپ نہ کیا کریں، اتفاق سے دونوں ہی سلسلے اس ہفتے بھی غائب تھے ۔ (پروفیسر مجیب ظفر انوار حمیدی، گلبرگ ٹائون، کراچی)

ج: جی سو فی صد درست۔ ردّی کاغذ والا کباڑیا ہی چھاپے گا۔ ابھی کون سا ردّی کاغذ والے کی کم کمائی ہو رہی ہے۔ یہ جو 20،20 صفحات کے ہر خط کی آپ 4،4 کاپیاں ارسال فرماتے ہیں اور پھر تحقیقی مضامین کے نام پر صفحات کے صفحات کالے کیے جاتے ہیں۔ یہ سب ردّی کاغذ والے ہی کی روزی روٹی کا تو سبب بن رہے ہیں۔

فی امان اللہ

اس ہفتے کی چٹھی

اللہ جانے، یہ سرِورق کے گلابی لے آئوٹ کا سحر تھا یا ماڈل کی لپ اسٹک کے گلابی شیڈ کا طلسم کہ؎ ’’اِک آن میں اُفق کا آنچل ہوا گلابی…‘‘ (جب کہ نازنین کا آنچل سنہری تھا) بحیرئہ احمر کے حُسن افزا ڈُونگھے پانیوں سے دل کا ڈَونگا (چھوٹی کشتی) بہ خیر و خُوبی نکال کر ہم جزیرئہ ہدایت (صفحہ سرچشمہ ٔ ہدایت) پہنچے۔ بےحد پُرتاثیر قلمِ نجمی نے نسلِ نو کو خُوب سکھائے آدابِ فرزندی۔ صفحہ ’’فیچر‘‘ میں ضرورتِ رشتہ کے مضمون کے توسّط سے ہمارے اسٹیٹسی طبقے کی نقاب کشائی کر کے سفید پوشوں کی ڈھیروں دعائیں لی گئیں۔ اس بار کا شمارہ سنڈے اسپیشل اور اشاعتِ خصوصی کے صفحات کے بغیر تھا۔ قلبِ سلیم جانتا ہے کہ یہ کڑاکے دار مہنگائی کے تڑاکے ہیں۔ ’’انٹرویو‘‘ میں پروفیسر سعید نے جو یہ کہاکہ ’’اچھے اسکولز اپنی عمارتیں امتحانی مراکز کے لیے نہیں دیتے‘‘ تو استاد جی! یہی تو اچھے اسکولوں کی خُوبی ہے، آپ انہیں ایویں ای ’’گِرے لسٹ‘‘ میں لارہے ہیں۔ اور یہ کیا بھئی؟ اس بارصفحہ 6ہی پر ’’ڈاکٹرز کلینک‘‘ آگیا۔ جامِ مطالعۂ شیریں سے ہماری صرف دو ہی داڑھیں گیلی ہوئی تھیں کہ ڈاکٹر صاحبان برائے چیک اَپ آگئے۔ ’’اوپن یُو اَز مائوتھ! یُو ہیو اِیٹن شوگر…‘‘ اونئیں بابا! سانوں آَگّے جان دیو، دُوجے مریضاں دی واری آن دیو۔ اور عالمی اُفق سے منور مرزا نے اپنے ٹویٹ میں پوچھا ’’داعش کے خاتمے کے بعد اب کیا ہوگا؟‘‘ ’’برادر! اُس وقت تک کچھ نہیں ہوگا، جب تک کہ اُمتِ مسلمہ کا نفاق دُور نہیں ہوگا۔ کہی اَن کہی میں رضا زیدی نے کیا خُوب کہا کہ’’مَیں نےسعادت حسن منٹو، قراۃ العین حیدر اور بانو قدسیہ کو خُوب پڑھا ہے۔‘‘ اُن کے ٹمپرامنٹ کو داد ہے بھئی کہ یہاں تو ایک منٹو راما پڑھنے سے بندہ ’’رام رام‘‘ کرنے لگ جاتا ہے اور یہ کیا قصّہ ہے بھئی؟ ’’عورت آزادی مارچ‘‘ پر آپ کے لَٹھ مار رائٹ اَپ کی تھکاوٹ ہے یا پھر نرجسی پارک (سینٹرل پیجز) میں پیکر ہائے حسنِ کمال کا کال کہ کئی ہفتوں سے عالیہ، عالیہ ہی کی تکرار ہے، اس کے بعد صفحہ متفرق میں جھانکا، تو جانا کہ دنیا کے پہلے10محفوظ ممالک میں کوئی مسلمان ملک نہیں، جب کہ پہلے چھے غیر محفوظ ممالک سارے کے سارے مسلم ہیں (غیروں کی جفائوں کے ذکر کے ساتھ ساتھ، کچھ اپنی ادائوں پر بھی غور کرنے کی توفیق اُمت کو ہو)۔ منفرد مصوّر، ایم رفیق کو متعارف کروانے کا شکریہ۔ بے شک اس کارخانہ ٔ ساقی میں ایک سے بڑھ کر ایک پیکر ہائے جمال اور صاحبانِ کمال ہیں۔ اس سنڈے، گپ شپ کیفے (آپ کا صفحہ) میں کرکٹ ٹیم کی مانند گیارہ نامہ نگار براجمان تھے، جب کہ بارہویں کھلاڑی بلکہ کپتان (مسند نشیں) اسماء خان تھیں۔ کھلاڑیوں کی قیادت پر انہیں مبارک باد، نامہ نگاروں میں ڈاکٹرز کا پیئر تھا۔ خادم ملک اِن اور رضوان ملک آئوٹ، جب کہ پروفیسر حمیدی آن بورڈ اور پروفیسر منصور آن لِیو تھے۔ مدیرہ صاحبہ! کچھ قارئین برملا اعتراف ِ جرم کرتے ہیں کہ وہ ’’آپ کا صفحہ‘‘ پر صرف آپ کے جوابات ہی پڑھتے ہیں (ہم ویلھے فلسفیوں کے افکار عالیہ پڑھنے کا اُن کے پاس وقت نہیں) لہٰذا ایک تجویز ہے، آپ نیلی یا سُرخ روشنائی سے جوابات شایع کیا کریں تاکہ آپ کے فینز ناحق زحمت سے بچ جائیں۔ (محمد سلیم راجا، لال کوٹھی، فیصل آباد)

ج: طلب سچّی ہو، تو رستوں کو لال، نیلی لکیروں سے نشان زد کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لوگ تو سُرنگیں کھود کر بھی منزل تک جا پہنچتے ہیں۔ آپ کہیں تو آپ کا خط لال و لال کر کے چھاپ دیا جائے۔

گوشہ برقی خُطوط

٭ نرجس!’’عورت آزادی مارچ‘‘سے متعلق لکھ کر بے شک آپ نے اپنے قلم کو سربلند کردیا۔ آپ کی ہمّت و جرأت کو سلام پیش کرتی ہوں۔ جنگ ’’سنڈے میگزین‘‘ بین الاقوامی طور پر پڑھا اور پسند کیا جانے والا جریدہ ہے۔ اس میں ایسی معرکتہ الآرا نگارش کا شایع ہونا بلاشبہ عورت کی اصل پہچان، شناخت کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے کہ درحقیقت آپ کی آواز ہی مسلم امّہ کی 99 فی صد خواتین کے دل کی آواز ہے۔ (ڈاکٹر عزیزہ انجم)

ج: حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ ڈاکٹر عزیزہ۔

٭ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ جیسے بہترین صفحے کے عین پیچھے سرِورق پر ماڈلنگ کس قدر تکلیف دیتی ہے، آپ اندازہ نہیں لگاسکتیں۔ ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ میں قرآنی آیات کے تراجم، احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہوتی ہیں اور پیچھے ایک ماڈل گرل، کس قدر غیر اخلاقی حرکت ہے یہ۔ (اویس ایم بٹ)

ج:معاف کردیں بھائی۔ توبہ کرلی ہے، اس غیر اخلاقی حرکت سے۔ اب تو آخری صفحے پر لے گئے ہیں ’’سرچشمۂ ہدایت‘‘ کو۔

٭ پہلی مرتبہ ’’سنڈے میگزین‘‘ کے لیے ای میل کررہا ہوں۔ ایڈیٹنگ کے بارے میں آج تک سُنا ہی تھا، مگر پتا تب چلا، جب اپنی ایک کہانی ناقابلِ فراموش میںچَھپی ہوئی دیکھی۔ توبہ توبہ، غالباً صرف پہلی سطر بعینہ وہ شایع ہوئی، جو میں نے تحریر کی تھی اور دوم، میرا نام وہی تھا، جو میںنے لکھا تھا۔ باقی تقریباً پوری تحریر کو ری رائٹ کیا گیا اور بلاشبہ اس خوبی و عُمدگی سے کیا گیا کہ میں تو ایسا لکھنے کا تصوّر بھی نہیں کرسکتا تھا۔ (عبدالعلیم، رحیم یارخان)

ج: عموماً لوگ ہماری ایڈیٹنگ کی مثالیں دیتے ہیں، جب کہ رعنا فاروقی تو پورا واقعہ نئے سرے سے اپنے ہینڈرائٹنگ میں لکھ کے بھیجتی ہیں۔ اور وہ واقعی ایسی محنت کرتی ہیں کہ جو نظر آتی ہے۔ اسی لیے صفحے کی اشاعت میں کبھی کبھار تعطّل بھی آجاتا ہے۔

٭ سنڈے میگزین میںلکھنے کے لیے قلم سے لکھ کے بھیجیں یا ای میل بھی کرسکتے ہیں۔ (عادل شاہ)

ج:دونوں صورتیں قابلِ قبول ہیں۔ بس، یہ خیال رہے کہ ہاتھ سےلکھاہوتو صفحے کے ایک جانب، حاشیہ، سطرچھوڑ کر لکھا جائے اور ای میل کریں تو اُردو اِن پیج فارمیٹ میں بھیجیں۔ نیز، تحریر کا معیاری ہونا تو شرط ہے ہی۔

قارئین کرام!

ہمارے ہر صفحے ، ہر سلسلے پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کیجیے۔ اس صفحے کو، جو آپ ہی کے خطوط سے مرصّع ہے، ’’ہائیڈ پارک‘‘ سمجھیے۔ جو دل میں آئے، جو کہنا چاہیں، جو سمجھ میں آئے۔ کسی جھجک، لاگ لپیٹ کے بغیر، ہمیں لکھ بھیجیے۔ ہم آپ کے تمام خیالات، تجاویز اور آراء کو بہت مقدّم ، بے حد اہم، جانتے ہوئے، ان کا بھرپور احترام کریں گے اور اُن ہی کی روشنی میں ’’سنڈے میگزین‘‘ کے بہتر سے بہتر معیار کے لیے مسلسل کوشاں رہیں گے۔ہمارا پتا یہ ہے۔

نرجس ملک

ایڈیٹر ’’ سنڈے میگزین‘‘

روزنامہ جنگ ، آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی

sundaymagazinejanggroup.com.pk