ہمارے پروفیشن میں بہت میٹھی چُھریاں ہیں

June 18, 2019

ویسے تو حسدورقابت کا جزبہ ہر فیلڈ میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے لیکن شوبز کی دنیا میں یہ جزبہ دو چند ہو جاتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ عموماً اپنے پسندیدہ فن کاروں کے بارے میں جاننے کے لیے ان کے مداح بے چین رہتے ہیں کہ کس آرٹسٹ کی کس سے اَن بَن ہوئی یا کس نے کس کا کردار کسی فلم یا ڈرامے سے ختم کروا دیا۔اندرونی طور پر تو فن کارخود ہی جانتے ہیں کہ کون کس سے رقابت محسوس کرتا ہے لیکن،جب ایک دوسرے کے خلاف منفی خبریں سامنے آتی ہیں توشائقین بھی متجسس ہوجاتے ہیں کہ کیا واقعی ایک حساس فن کار اپنے ساتھی فن کار کے لیے برا کر سکتا ہے یا سوچ سکتا ہے۔یہ جاننے کے لیے کہ رقابت کا جزبہ واقعی شوبز کی دنیا میں ہے یا محض چٹ پٹی خبروں تک ہی محدود ہے،ہم نے چند شوبز شخصیات سے اس حوالے سے بات چیت کی ،ملاحظہ فرمائیے۔

٭مجھے ہمیشہ اپنی ہم عصر فن کارائوں سے تعاون اور پیار ملا،بشری انصاری

٭رقابت اس وقت ہوتی ہے، جب آپ کے کام میں معیار نہیں ہوتا،بہروز سبزواری

٭حسد وہ ہی کرسکتا ہے، جس میں ہنر نہ ہو،حنا دلپزیر

٭جو حسد کر رہا ہے،اپنے گھر میں خوش رہے،اللہ اسے ہدایت دے،اسماء عباس

٭کوئی کب تک کسی کا راستہ روک سکتا ہے،نادیہ حسین

٭ انسان کی کام یابی کے لیے اللہ تعالی راہیں بناتا ہے،دانش تیمور

٭مجھ میں آگے بڑھنے کا جذبہ ہے، لیکن کسی کو پیچھے دھکیل کر نہیں،جنید خان

بشریٰ انصاری

رقابت کا جذبہ تو ہر شعبہ زندگی میں ہوتا ہے۔ ہر جگہ ہی لوگ ایک دوسرے کو پیچھے دھکیلنے کی دوڑ میں نظر آتے ہیں، لیکن اس میں بھی زیادہ تر وہ ہی لوگ شامل ہوتے ہیں جن کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں منفی سطح پر ہوتی ہیں یعنی حسد کا جذبہ انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتا۔ میں سمجھتی ہوں زندگی کے ہر میدان میں مقابلہ ضرورکرنا چاہئے لیکن حسد، جلن کے جذبے کو دل میں جگہ نہیں دینی چاہئے۔ اس طرح کام کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ اگرہم کوئی تخلیقی کام کرنا چاہتے ہیں تومحض منفی رویوں اور جذبوں کے حامل ہو کرمعیاری کام نہیں دے سکتے۔ یقیناً ہمارے پیشے میں بھی ایساہی ہے لیکن جہاں تک میرے تجربے کی بات ہے تو میں نے اپنے لئے کبھی ایسا محسوس نہیں کیا کہ کوئی مجھ سے حسد کر رہا ہے یا مجھے پیچھے دھکیل رہا ہے۔ مجھے ہمیشہ اپنی ہم عصر فن کارائوں سے تعاون اور پیار ملا۔ میرے ساتھ صبا پرویز، ثمینہ احمد، ثمینہ پیرزادہ، بدر خلیل جیسی منجھی ہوئی اداکارائیں تھیں لیکن نہ تو مجھے ان سے کبھی رقابت محسوس ہوئی اور نہ ہی انہوں نے مجھ سے حسدکیا۔ہم ایک دوسرے سے سیکھتے تھے، یہاں تک کہ یہ اداکارائیں مجھے اکثر کہتیں ،’’بشریٰ! تمہاری کامیڈی یا اداکاری کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں‘‘، یعنی اس درجے پرہمارے درمیان تعاون تھا۔ آج بھی میری ساتھی فن کارائیں احترام کرتی ہیں اور میں بھی اپنے جونیئرز کا خیال کرتی ہوں کیوں کہ جو مجھے ماحول ملا وہ ہی میں اپنے آنے والوں کو دینا پسند کرتی ہوں۔ حنا دلپزیر بہت اچھی کامیڈی کرتی ہیں۔ میں نے انہیں ہمیشہ سراہا۔ جب ہم دیانت داری سے اپنے کام پر توجہ دیتے ہیں تو نام پیدا کرتے ہیں۔ ہمارا کام پہنچانا جاتا ہے، ہمیں اپنے آپ کو نہیں کہنا پڑتا کہ میں کمال کی اداکارہ ہوں، ہمارا کام شائقین پسند کرتے ہیں اور وہ فیصلہ کرتے ہیں۔ حسد کرنے سے یا کسی کو نیچا دکھانے سے ہماری اپنی صلاحتیں ختم ہوتی ہیں۔

بہروز سبزواری

فن کی دنیا میں الحمدللہ میرا پچاس سال کا تجربہ ہے۔میں نے نہ تو کبھی کسی سے حسد کی اور نہ ہی میرے کسی ساتھی فن کار نے مجھ سے رقابت محسوس کی۔درحقیقت پیشہ ورانہ رقابت اُسے ہوتی ہے جسے کچھ نہیں آتا،جو اپنے کام سے دیانت داری نہیں کرسکتا،وہ اپنے ساتھیوں کو آگے بڑھتا دیکھ کر حسد کرتا ہے۔ جب میں اس فیلڈ میں آیا ،جبکہ میں بہت کم عمر تھا لیکن میں نے سوچ لیا تھا کہ اپنے کام پر توجہ دینی ہے اور فن کو نکھارنا ہے۔الحمدللہ آغاز میں ہی کامیابی مقدر بنی۔میں کبھی کسی دوڑ میں نہیں رہا۔آج میں اپنے بیٹے (شہروز سبزواری)کو بھی یہی نصیحت کرتا ہوں کہ بیٹا اپنے کام سے ایمان داری اور انصاف کرو۔اللہ تعالی جو نواز رہا ہے اس پر شکر کرو۔اپنے کام کاسو فی صد دو۔پیشہ ورانہ رقابت اس وقت ہوتی ہے جب آپ کے کام میں معیار نہیں ہوتا۔میرے ساتھ مجھے یاد نہیں کبھی کسی نے مقابلہ یا حسد کیا ہو،شاید میں نے کبھی غور ہی نہ کیا ہو،ہوسکتا ہے کبھی کسی نے پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی ہو،وہ خود ہی گڑھے میں گر گیا ہوگا،کیوں کہ میں نے کبھی کسی کے ساتھ ایسا منفی رویہ نہیں رکھا۔حسد یا جیلیسی کا شکار آدمی اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔

حنا دلپزیر

پیشہ وارانہ رقابت بہت عام سی بات ہے، اس کا شکار ہمیں معاشرے میں اکثر لوگ نظر آتے ہیں، لیکن اس کی وجہ یہی ہے کہ اگر آپ اپنے کام میں دسترس نہیں رکھتے یا آپ کیریٹو نہیں ہیں تو یقیناً آپ اپنے ساتھی سے حسد محسوس کریں گے۔ یہ آپ میں کمی ہے۔ اگر آپ کیریٹو ہیں چاہے آپ پینٹر ، مصنف ، سرجن ہیں یا کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتے ہیں اگر آپ کے اندر ہنر ہے تو وہ آپ کو منوا سکتا ہے،لیکن اگر آپ کی کارکردگی صفر ہے تو آپ اپنے ساتھ کام کرنے والے سے رقابت محسوس کرتے ہیں۔ فن کاروں میں بھی ایسا ہی ہے۔لیکن یہ رویہ اُس وقت تک اثرانداز نہیں ہوسکتا جب تک آپ میں منفی سوچ نہ ہو۔آپ ایمان داری کے ساتھ اپنے کام پر توجہ دیں، کسی نے کتنا اچھا نظر آنا ہے یا بہتر پرفارم کرنا ہے یہ سب قدرت کے ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ بہت بڑی بے وقوفی اور جہالت ہے کہ آپ اپنے ہی جیسے انسان سے حسد شروع کر دیں کہ اسے کچھ زیادہ مل گیا ہے۔ میرے خیال سے حسد وہ ہی کرسکتا ہے جس میں ہنر نہ ہو۔ جن میں ٹیلنٹ ہو وہ اللہ پر توکل کر کے آگے قدم بڑھاتے ہیں۔ میری پیشہ وارانہ زندگی میں کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا کہ میں نے کسی سے حسد محسوس کیا ہو یا رقابت محسوس کی ہو۔ کام کے حوالے سے ہر ایک کے حصے میں کام آتا ہے اور وہ اسے مکمل ایمان داری سے کرتا ہے۔ ویسے کیریٹو لوگوں کے ساتھ یہ تصور ہی غلط ہے کہ ان میں جیلسی ہونی چاہئے۔یہ ایک ایسی ’’نگیٹویٹی‘‘ ہے جو آپ کو ’’زیرو‘‘ کر دیتی ہے۔ آپ کی کریٹویٹی کوزیرو کر دیتی ہے۔ تومجھے نہیں لگتا ہے کہ کوئی بھی کیریٹو انسان کسی سے حسد کرسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے لوگ اُس سے حسد کرتے ہوں۔ ہنرمند انسان حسد نہیں کرتا۔ ویسے یہ بہت بری سوچ ہے جسے بالکل بڑھاوا نہیں دینا چاہئے اور لوگوں کو بتانا چاہئے کہ اگر ہم اس سوچ کو آگے لے کر چلیں گے تو گڑھے میں گر جائیں گے ۔ جو کام اللہ تعالیٰ نے آپ کے حصے میں دیا ہے اسے ایمانداری سے کرتے چلیں، کسی کو کیا ملتا ہےاللہ پر چھوڑ دیں ۔ اس بات کو نظریہ بنا کر کام نہیں کرنا چاہئے کہ میں کوئی ایسا کام کروں کہ بہت بڑا دھماکا ہوجائے،سب دب جائیں میں اوپر ہو جائوں، یہ ایک نیگٹو اپروچ ہے جو آرٹسٹ میں نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ہمیں اپنے دل کوصاف رکھنا ہے، تب ہی تو ہم کام کر پاتے ہیں ورنہ میں تو اپنے کام کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں یہ مجھ سے ہو کیسے گیا۔ اگر آپ کے اندر تخلیقی صلاحیتیں ہیں تو مثبت سوچ ضرور ہوگی۔ جہاں آپ ہلکے، خالی یا کم زور ہوتے ہیں اور پھراپنے آپ کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں،یہ بات چھپ نہیں سکتی۔

اسماء عباس

میں نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں حسد یا رقابت والی کوئی بات محسوس نہیں کی کہ کسی نے مجھے اس حوالے سے نقصان پہنچایا ہو۔یقیناً رقابت کا جذبہ فن کار برادری میں بھی ہوتا ہوگا لیکن ذاتی تجربے کی بنا پرمیں نے ہمیشہ اپنے ارد گرد لوگوں سے محبت،پیار اور خلوص پایا ہے۔بنیادی طورپر میں مثبت سوچ کی حامل انسان ہوں ۔میں یہ نہیں سوچتی کہ کوئی میرے بارے میں کیا سوچ رہا ہے،یا کوئی مجھ سے جل رہا ہے اگر کوئی مجھ سے حسد کر بھی رہا ہے تو مجھے کیا فرق پڑے گا،وہ اپنے گھر میں خوش رہے اور اللہ اسے ہدایت دے ۔ایسے لوگوں کے لیے صرف دعا ہی کی جاسکتی ہے۔جب میں نے کیرئیر کا آغاز کیا تو شائستہ جبیں،ارسہ غزل،فریحہ جبیں وغیرہ خاصی معروف اداکارائیںتھیں۔ہم سب ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے تھے اور بہت دوستانہ رویہ تھا۔میں نے بہت اچھا ماحول دیکھا آج بھی شوبزکی فیلڈمیں میرے ساتھ مخلص لوگ ہیں۔

نادیہ حسین

یقیناً جلن حسد ہرسطح پرہوتی ہے لیکن اب تک میرے ساتھ ایسا نہیں ہوایا میں نے محسوس نہیں کیا۔ اکثر اوقات فیشن شوز میں ماڈلز کا رویہ ایک دوسرے کی خلاف ہوتا ہے لیکن کوئی ایسی فیلنگز کھل کر سامنے نہیں لاتا۔ پیٹھ پیچھے ایسا ضرور ہوتا ہے۔ ملبوسات کے معاملے میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک ماڈل کوجو لباس ڈیزائنر نے دیا ہے، وہ دوسری ماڈل نے جا کر چپکے سے تبدیل کروا دیا،کہ یہ آپ اُس کو نہ دیں یہ مجھے دیں، یا بہت بھاری، بہت خوب صورت لباس ہے تو وہ کسی اور ماڈل نے ڈیزائنر کو کہہ کر اپنے لیے منتخب کر لیا وغیرہ، لیکن منہ پر کبھی کوئی ایسی بات نہیں ہوتی۔اسی طرح نہ صرف ملبوسات بلکہ ریمپ پر واک میں بھی بہ ظاہر سب ٹھیک لگتا ہے لیکن پیٹھ پیچھے ڈیزائنر یاکوریوگرافر سے دوسری ماڈل کو الگ کروا کر خود جگہ بنا لینا بھی اکثر دیکھا جاتا ہے۔اسی طرح ماڈلز ریمپ پر’’آخری واک‘‘ یا ’’اوپننگ‘‘کے لیے بھی ڈیزائنرز سے بولتی ہیں کہ یہ مجھے کرنا ہے۔بہ ظاہر ایسا نہیں ہوتالیکن ہمیں محسوس ہو جاتا ہے کہ کسی نے ہمارے ساتھ ایسا کیا ہے یاکون حسد کر رہی ہے۔ایسا منفی رویہ رکھنے والوں کو دراصل عدم تحفظ ہوتا ہےکیونکہ ایسے لوگ منہ پر بہت دوستانہ رویہ رکھتے ہیں یعنی ہم انہیں ’’میٹھی چھری‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ہمارے پروفیشن میں بھی بہت ’’میٹھی چھریاں‘‘ ہیں۔ ہماری فیلڈ میںکافی حدتک ’’پروفیشنل جیلیسی‘‘ہے۔ میرے ساتھ بھی ایسا بہت ہوا ہے۔ اکثر ماڈلز نے ڈیزائنر سے ملبوسات تبدیل کروائے اور ریمپ پر ’’اوپننگ اور کلوزنگ‘‘ بھی تبدیل کروائی۔ اگر کسی کی بہت اچھی دوستی ہے ڈیزائنر یا کریو گرافر سے تو وہ اپنے تعلقات استعمال کر لیتی ہیں ۔جنہیں اپنے ہنر پر اعتماد نہیں ہوتا وہ اس رویے کا شکار ہوتی ہیں ،لیکن یہ عنصر ختم ہو بھی نہیں سکتا۔ کئی مرتبہ بات کھل بھی جاتی ہے اور لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ اگر ہم میں ٹیلنٹ ہیں اور اپنا ایک لیول برقرار رکھا ہوتا ہے تو ایسی باتیں نقصان نہیں پہنچا سکتیں، کیونکہ آپ کب تک کسی کا راستہ روک سکتے ہیں۔ قابلیت اپنے آپ کو منوا لیتی ہے کیونکہ اگر آپ بار بار ڈیزائنر سے اپنی بات منوائیں گے تو وہ بھی تنگ آ جائے گا کب تک آپ کی سنے گا۔ یقیناً میرٹ اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔

دانش تیمور

یہ بات درست ہے کہ ہر فیلڈ میں ہی لوگ پیشہ ورانہ رقابت کا شکار ہوتے ہیں،لیکن میرا اس بات پر یقین ہے کہ انسان کی کامیابی کے لیے اللہ تعالی راہیں بناتا ہے۔ہمیں کس حد تک آگے جانا ہے،کیا ملنا ہے،کیا نہیں، اللہ تعالی پلان کرتا ہے۔میں جب شوبز کی فیلڈ میں آیا،تو مجھے یہاں لانے والا کوئی نہیں تھا،مجھے اندازہ تھا کہ مجھ میں ٹیلنٹ ہے اور میں اپنی جگہ بنا لوں گا۔میں سیلف میڈ انسان ہوں،اللہ کا شکر ادا کرتاہوں۔ممکن ہے لوگ رقابت رکھتے ہوں لیکن میرے دل میں کسی کے لیے کبھی رقابت کا جذبہ پیدانہیں ہوا۔اگر میں کبھی محسوس بھی کر لوں کہ کوئی مجھ سے رقابت محسوس کر بھی رہا ہے تو میں اس بات کو نظرانداز کر دیتا ہوں۔شوبز کی دنیا میں ہمیں خود کو منوانا پڑتا ہے۔کسی کو پیچھے دھکیل کر آپ آگے نہیں آسکتے اگر آپ ہنر مند ہیں تو اپنی جگہ بنالیتے ہیں ۔باقی سیکھنے کا عمل تو ساری زندگی جاری رہتا ہے۔

جنید خان

’’رقابت‘‘ انسان کی فطرت میںہے، اسے آپ نظرانداز نہیں کرسکتے۔ درحقیقت یہ ’’عدم تحفظ‘‘ ہوتا ہے کیونکہ انسان میں جب تک ان سیکورٹی یا عدم تحفظ نہیں ہوگا تب تک اس میں آگے بڑھنےکا جزبہ پیدا نہیں ہوگا۔ جو انسان جذباتی طور پر عدم تحفظ کا شکار رہے گا وہ بہت ریلیکس ہوگا، اسے زندگی میں کسی بھی قسم کی چاہت بھی نہیں ہوگی اوروہ اپنی پوزیشن میں ریلیکس بیٹھا ہوگا، اسے بہت زیادہ ترقی کرنے کی بھی خواہش نہیں ہوگی۔ اس لئے کسی بھی پروفیشن میں انسان کو اگر ترقی کرنی ہوتی ہے تو اس میں تھوڑا عدم تحفظ بھی ضروری ہے۔ ہم جتنے بھی کامیاب لوگ دیکھتے ہیں وہ اندر سے بے چین ہوتے ہیں اور ان میں عدم تحفظ بھی ہوتا ہے۔ اس میں جیلیسی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ آپ اپنے اردگرد لوگوں کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ بہتر کر رہا ہے، مجھے اس سے اور مزید بہتر کرنا ہے۔ اگر یہ انسان ترقی کر رہا ہے تو مجھے بھی کرنی ہے اور بہت آگے جانا ہے۔تھوڑا سا اسے مثبت بھی لینا چاہیے۔اگر رقابت کا جزبہ ہے تو کم از کم اسے مثبت طور پر لے کر مقابلہ کرنا چاہیے کہ کس طرح میں فلاں شخص سے آگے نکل سکتا ہوں۔فن کی دنیا میں یہ جزبہ بہت زیادہ ہے لیکن اگر کوئی اسے منفی لیتا ہے تو وہ نقصان بھی اٹھاتا ہے۔کیوں کہ اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔اس لئے ایک چیز جب حد سے باہرہو جائے تو نقصان دہ ہوتی ہے۔ آپ حسد یا جیلیسی کے جذبے کو مثبت انداز سے دیکھیں اتنا کہ آپ کے اندر آگے بڑھنے کی طلب بڑھے یہاں تک ٹھیک ہے۔ یہ بات اس وقت خطرناک ہو جاتی ہے جب آپ کے آگے بڑھنے کی طلب پار نکل جائے یعنی آپ اگلے بندے کو گرانے میں لگ جائیں، جس طرح اکثر جیلیسی میں ہوتا ہے۔ اداکاری کے شعبے میں یہ ہوتا ہے کہ یعنی ہم کوئی سین کر رہے ہیں تواگر ساتھی فن کارجو کہ رقابت کا بھی شکار ہووہ ساتھ نہ دے یا جیلیسی میںحد سے بڑھ جائے اور کنفیوژ کر دے کہ اس طرح اس کا کام بہتر ہو جائے اور مقابل صحیح پرفارم نہ کر سکے،تو یہ رقابت میں حد سے بڑھ جانے والی بات ہوئی۔ صرف یہاں ہی نہیں ہالی وڈ، بالی وڈ ہر جگہ یہ بات عام ہے۔ لیکن میری فلاسفی تھوڑی الگ ہے۔ میں اپنے اسپیس میں کام کرنا پسند کرتا ہوں۔ جب مجھے محسوس ہو کہ جیلیسی، ڈسٹرب کر رہی ہے یا یہ اس حد تک جا رہی ہے کہ مجھے پریشان کر رہی ہے اور میں کسی اور کو پریشان کرسکتا ہوں تو میں خود کو روکتا ہوں اور دوسری طرف متوجہ ہو جاتا ہوں کیونکہ میں یہ نہیں چاہتا کہ میں دوسرے کو نیچا دکھا کر اپنے آپ کو اوپر لے کر آئوں۔

میں اپنی محنت ، تعاون اور اچھے ماحول کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں، مجھ میں اوپر جانے کا جذبہ ہے تو لیکن اسے میں کنٹرول میں رکھتا ہوں اور اس حد تک کنٹرول رکھتا ہوں کہ نہ اپنے آپ کو پریشان کروں اور نہ ساتھ کام کرنے والوں کو۔ مثبت سوچ کو بڑھانا چاہئے۔ ہوتا یہی ہے کہ چاہے کوئی بھی فیلڈ ہو سیاست ہو، بیوروکریسی ہو، فن کی دنیا ہو، جتنے بھی لوگ ترقی کر کے آگے جاتے ہیں انہوں نے کسی نہ کسی کو گرایا ضرور ہوتا ہے۔