• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنگاپور: فائرنگ سے زخمی بنگلادیشی طالبعلم رہنما عثمان ہادی کا دورانِ علاج انتقال

عثمان ہادی—فوٹو: ڈھاکا ٹریبیون
عثمان ہادی—فوٹو: ڈھاکا ٹریبیون

بنگلادیش کے دارالحکومت ڈھاکا میں فائرنگ سے زخمی ہونے والے طالب علم رہنما عثمان ہادی سنگاپور میں دورانِ علاج انتقال کر گئے۔

بنگلادیشی میڈیا کے مطابق  انقلاب منچا کے ترجمان شریف عثمان ہادی جو گزشتہ جمعے کو ڈھاکا میں فائرنگ کے ایک واقعے میں شدید زخمی ہو گئے تھے، وہ سنگاپور جنرل اسپتال میں دورانِ علاج انتقال کر گئے۔

شریف عثمان ہادی کی موت کی تصدیق انقلاب منچا نے جمعرات کی شب فیس بک پوسٹ کے ذریعے کی، جبکہ یہ خبر عثمان ہادی کے تصدیق شدہ فیس بک اکاؤنٹ پر بھی شیئر کی گئی۔

انقلاب منچا کی ڈھاکا یونیورسٹی یونٹ کے کنوینر سعید حسن نے ڈھاکا ٹریبیون کو بتایا کہ شریف عثمان ہادی جمعرات کی رات بنگلا دیشی وقت کے مطابق 9 بج کر 45 منٹ انتقال کر گئے۔

نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) کے ہیلتھ سیل کے سربراہ اور ہادی کے معالج ڈاکٹر احد نے بھی ایک ویڈیو پیغام میں ان کے انتقال کی تصدیق کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق شریف عثمان ہادی 12 دسمبر کو پرانا پلٹن کے علاقے میں اس وقت گولی کا نشانہ بنے تھے جب وہ بیٹری رکشہ میں انتخابی مہم کے لیے جا رہے تھے۔

تفتیشی اداروں کے مطابق موٹر سائیکل پر سوار حملہ آور نے پیچھے سے ان پر فائرنگ کی، انہیں فوری طور پر ڈھاکا میڈیکل کالج اسپتال منتقل کیا گیا جہاں سر پر گولی لگنے کے باعث ہوئے شدید زخم کی ہنگامی دماغی سرجری کی گئی۔

ڈاکٹروں کے مطابق گولی بائیں کان کے اوپر سے داخل ہو کر سر کے دائیں حصے سے نکلی تھی، جس سے برین اسٹیم کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

بعد ازاں انہیں ایور کیئر اسپتال منتقل کیا گیا اور 15 دسمبر کو مزید علاج کے لیے سنگاپور لے جایا گیا۔

عثمان ہادی کی موت پر بی این پی اور نیشنل سٹیزن پارٹی نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

این سی پی نے تعزیتی بیان میں مرحوم کی مغفرت اور لواحقین کے لیے صبر کی دعا کی ہے۔

دوسری جانب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فائرنگ میں ملوث مرکزی ملزم فیصل کریم مسعود کی شناخت کر لی ہے، جبکہ اس کے ساتھی عالمگیر شیخ پر موٹر سائیکل چلانے کا الزام ہے۔

تفتیشی ذرائع کے مطابق دونوں ملزمان غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے بھارت فرار ہو چکے ہیں۔

اب تک پولیس اور ریپڈ ایکشن بٹالین (راب) نے قتل کے اس مقدمے میں 14 افراد کو حراست میں لیا ہے، جن میں فیصل کے والدین، اہلیہ، سالا، قریبی ساتھی اور مبینہ انسانی اسمگلرز بھی شامل ہیں، واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔

دوسری جانب بنگلادیش میں بھارت کے خلاف طلباء کا احتجاج آج دوسرے روز بھی جاری رہا۔

مظاہرین کی جانب سے جولائی کی طلباء تحریک کو شدت پسند گروپ کہنے پر بھارت سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا گیا ہے اور طلبہ رہنماؤں کی جانب سے  72 گھنٹوں کا وقت دیا گیا ہے۔

طلباء رہنما کا کہنا ہے کہ پُرامن تحریک کو شدت پسند کہنا خود بھارت کے شدت پسند ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔

گزشتہ روز بھی ڈھاکا میں طلباء رہنما عثمان ہادی پر قاتلانہ حملے کے خلاف مظاہرین نے بھارتی ہائی کیشن کے سامنے احتجاج کیا تھا اور سابق وزیرِ اعظم حسینہ واجد سمیت دیگر ملوث افراد کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔

بھارت نے اس صورتِ حال پر بنگلا دیشی ہائی کمشنر کو طلب کر کے احتجاج کیا تھا اور احتجاجی مراسلے میں طلباء تحریک کو شدت پسند گروپ قرار دیا تھا۔

بین الاقوامی خبریں سے مزید