معاشی خود مختاری آزادی کیلئے ناگزیر

June 30, 2019

’’معاشی استحکام کے بغیر کسی قسم کی خود مختاری ممکن نہیں‘‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں گزشتہ روز قومی معیشت کے موضوع پر ہونے والے سیمینار سے خطاب میں بالکل درست طور پر اس بدیہی حقیقت کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے طویل مدتی فوائد کے حصول کیلئے مشکل اور نتیجہ خیز فیصلے کئے ہیں جبکہ ماضی میں مشکل فیصلے نہ کرنے سے مسائل بڑھے لہٰذا ان فیصلوں کو کامیاب بنانے کے لیے سب کو اپنی ذمہ داری ادا کرنا چاہئے۔ آرمی چیف نے قومی سلامتی اور معاشی استحکام کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ ماضی قریب میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جب مختلف ملکوں نے معاشی ابتری سے نمٹنے کے لیے مشکل فیصلے کیے اور کامیاب رہے۔ انہوں نے اس امر واقعہ کی نشان دہی بھی کی کہ مشکل حالات میں کوئی فرد تنہا کامیاب نہیں ہو سکتا، سنگین چیلنجوں کا مقابلہ قومی اتحاد ہی سے کیا جا سکتا ہے اور آج وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سب ایک قوم بن کر سوچیں۔ معاشی ترقی و استحکام کے ضمن میں جنرل باجوہ نے اس بنیادی نکتے کو بھی بخوبی واضح کیا کہ آج کے دور میں ملک نہیں بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں جس کے لیے پڑوسیوں سے اچھے تعلقات اور امن ضروری ہے تاکہ مشترکہ معاشی سرگرمی اور باہمی تجارت کی راہیں کشادہ ہو سکیں۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے سیمینار سے اپنے کلیدی خطاب میں معاشی مشکلات میں اضافے کے اسباب پر روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق ادوار میں مستقل سیکورٹی خطرات، معاشی پالیسیوں اور مالیاتی نظم و ضبط میں عدم تسلسل اور مشکل فیصلے نہ کرنے کے باعث آج ہمیں موجودہ معاشی صورتحال کا سامنا ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے معیشت اور سیکورٹی کے درمیان تعلق کو اجاگر کیا۔ سیمینار میں بجٹ خسارہ، کم ٹیکس وصولی، گردشی قرضہ، سرکاری کاروباری اداروں کے خسارے، مالیاتی بے ضابطگی، غیر دستاویزی معیشت، کمزور ادارہ جاتی استعداد اور کم برآمدات کی وجوہات، این ایف سی کے زیر انتظام وفاقی ذمہ داریاں اور موجودہ معاشی ماحول کے بارے میں عام تاثر پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی۔ ماہرین، حکام اور کاروباری شخصیات سمیت تمام متعلقہ حلقوں کا معیشت کو درپیش مشکلات پر غور و خوض اور بہتری کی راہیں تلاش کرنے کے لیے یوں مل بیٹھنا اور تحفظات سے آزاد ہوکر مسائل پر اظہار خیال کرنا بلاشبہ ناگزیر قومی ضرورت ہے۔ اس طرح کے پروگراموں کا سلسلہ جاری رکھا جانا چاہئے اور ان کی مفید سفارشات کو عمل میں لایا جانا چاہئے۔ نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کی جانب سے منعقد کیے گئے اس سمینار کا اہم ترین حاصل یہ ہے کہ مشکل معاشی فیصلوں پر عمل درآمد کی خاطر قومی زندگی کے تمام شعبوں کے وابستگان کو اپنا کردار پوری ذمہ داری سے ادا کرنا چاہئے۔ اس ضمن میں یہ امر قابل غور ہے کہ اس کے لیے جس قومی یکجہتی اور سیاسی استحکام کی ضرورت ہے کیا وہ ملک میں موجود ہے؟ شاید ہی کوئی حقیقت پسند شخص یہ دعویٰ کر سکے کہ ان مشکل معاشی فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے قومی اتحاد اور یکجہتی کی جس فضا کی ضرورت ہے اس کا ہتمام کیا جا چکا ہے یا کم از کم متعلقہ ذمہ دار اس کے لیے فکرمند اور کوشاں ہیں۔ ماضی قریب میں ایسی مثالیں موجود ہیں جب اہم قومی مسائل پر حکمت عملی تشکیل دینے کے لیے حکومت نے کل جماعتی کانفرنس بلا کر متفقہ قومی پالیسیاں تشکیل دیں۔ اس کی سامنے کی مثال پچھلے دورِ حکومت میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے متعلقہ گروہوں سے مذاکرات اور پھر ان کے خلاف آپریشن کے فیصلے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس آج ایسی فضا کا مکمل فقدان ہے جس کا بھرپور مظاہرہ گزشتہ روز بجٹ کی منظوری کے موقع پر ہوا۔ اپوزیشن کی تمام ترامیم ضروری غور و خوض کے بغیر مسترد کر دی گئیں اور محض عددی اکثریت کے بل پر بجٹ منظور کرا لیا گیا، تاہم کم از کم اب ملک میں سیاسی استحکام کے قیام کے لیے تمام مطلوبہ اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئیں کیونکہ اس کے بغیر معاشی استحکام کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ الزام تراشی کی سیاست اور احتسابی عمل میں جانبداری کے تاثر کا خاتمہ اس منزل تک پہنچنے کی لازمی شرئط ہیں۔