آواز ِ دوست

February 01, 2013

تقریباً تین دہائیاں قبل کی بات ہے کہ ہم اکثر لاہور اور اسلام آباد کے درمیان جی ٹی روڈ سے سفرکرتے تھے۔ موٹروے ابھی بنی نہیں تھی اور جی ٹی روڈ پر بھی ٹریفک زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ سکون اورامن کا دور تھا۔ نہ دہشت گردی، نہ جامہ تلاشیاں، نہ ڈاکے کاخطرہ، نہ سڑکوں پر ہجوم، نہ شور اورگردوغبار کے بادل اور نہ رکاوٹیں۔ اب تودنیا بد ل گئی ہے اور پاکستان بھی بہت بدل گیا ہے بلکہ اس قدر بدلاہے کہ ہم جیسے لوگوں کے لئے اپنا ملک پہچاننا مشکل ہو جاتاہے۔ میں ان دنوں اسلام آباد میں سرکاری ملازمت کا اسیر تھا۔ اسلام آباد کو لوگ بابو نگر یا بیوروکریسی کا قبرستان کہتے تھے، جہاں شام کے سائے ڈھلتے ہی سڑکیں ویران اور زندگی خاموش ہو جاتی تھی۔ لاہور میں زندگی کا طویل حصہ گزرا تھا اور لاہور میں بے شمار محبت کے رشتے تھے جو مقناطیس کی مانند کھینچتے رہتے تھے۔ اب تیس برس کے بعد یہ حال ہے کہ میں لاہور میں ہوں لیکن لاہور مجھ میں نہیں۔ کبھی میں اسلام آباد میں تھا تولاہور میرے اندر آباد رہتا تھا۔ جی ٹی روڈ سے لاہور آتے ہوئے راستے میں وزیر آباد ضرور رکتے تھے بلکہ وزیرآباد آتے ہی کار خودبخود ریلوے سٹیشن کے سامنے والے بازار میں داخل ہوجاتی تھی۔ وہاں ایک برفی فروش گڑ کی برفی بنایا کرتا تھا جو اتنی لذیذ ہوتی تھی کہ اس کے سامنے دوسری مٹھائیوں کی لذتیں ہارمان جاتی تھیں۔ وہ برفی فروش کوئی عجب قناعت پسند انسان تھا۔ ہرروز خالص دودھ کی گڑ والی برفی صرف د س سیر تیار کرتا اور تین چار گھنٹوں میں فروخت کرکے دکان بند کردیتا تھا۔وہ زمانہ کلوگرام کا نہیں بلکہ سیروں کا تھا اور بزرگ لڑکوں کو عام طور پر نصیحت کیاکرتے تھے ”کھا سیر تے ہو شیر“ سیروں کھانے والے واقعی ہی شیرہوتے تھے۔ آج کل توشیر یاچڑیا گھروں میں قید پائے جاتے ہیں یامسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان بنتے ہیں۔ وہ زمانہ اصلی شیروں کا تھا۔ ایک روز میں اسی طرح اسلام آباد سے لاہور آتے ہوئے برفی خریدنے وزیرآباد شہر میں داخل ہوا تو میرے ساتھ میرے نہایت عزیزدوست جناب صادق حسین صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ صادق حسین صف اول کے افسانہ نگار، اعلیٰ پائے کے ادیب اور نہایت مخلص اورشریف النفس انسان تھے۔ کسی زمانے میں میرے شب و روز کا زیادہ حصہ ڈاکٹر جمیل جالبی اورصادق حسین کے ساتھ لاہورکی سڑکوں، گلیوں اور گھروں میں گزرتا تھا۔ وہ دونوں میر ے بزرگ تھے لیکن کبھی چھوٹے ہونے کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔ یہ ان کی بڑائی اورمیری خوش قسمتی تھی۔ اتفاق زمانہ کہ زندگی نام ہی اتفاقات کا ہے۔ پیداہونے سے لے کر وفات تک انسان اتفاقات کی زد میں رہتا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کراچی ٹرانسفر ہوگئے اورمیں اورصادق حسین صاحب اسلام آباد میں اکٹھے ہوگئے۔ ہفتے میں دو تین بارملاقات سے کم گزارا نہیں ہوتا تھا اور جب بھی ملاقات ہوتی وقت سمٹ جاتا تھا۔ یادوں کے دریچوں سے آنے والے خوشبو کے جھونکے محفل کومعطر کر دیتے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے وقت اورزمانے کو ہم نے مٹھی میں بند کرلیا ہے۔ تب اور اب میں اتنا سا فرق ہے کہ اب یوں لگتا ہے گویا وقت کی لہر کے ساتھ بہہ رہاہوں جیسے تنکا ندی کے پانی پر سوار بے حس و حرکت بہتا رہتا ہے۔ میں اورصادق صاحب گاڑی کھڑی کرکے وزیرآباد کے بازار میں گڑ کی برفی لینے داخل ہوئے تو پتہ چلا کہ دکاندار برفی فروخت کرکے جا چکا ہے۔ وہاں ایک بہت اچھی بیکری تھی۔ ہم پیسٹری اورپیٹی کھانے بیکری میں گئے تو بیکری کے خوش اخلاق مالک نے ہمیں مسافر جان کر چائے کی پیشکش کردی۔ بھلا ہم اورچائے سے انکار یہ تو قیامت تک ممکن نہ تھا۔ بیکری والے نے ایک کمرے میں بٹھا دیا اور چائے کے دو گرم پیالے لے آیا۔ سامنے ایک ملازم اپنی دھن میں مست کیک بنا رہا تھا۔ میں بیکری والے سے باتیں کرتا رہا کہ یہ مفت چائے کا خراج تھا اور صادق حسین بڑے انہماک اورغورسے کیک بنانے والے کو دیکھتے رہے۔ صادق حسین نہایت مہذب، شستہ ، دھیمے اور قدرے خاموش انسان تھے، خلوص اورمحبت ان کی نس نس میں بھرا ہوا تھا جسے اہل زبان سرتاپا محبت کہتے ہیں۔ بیکری سے کار تک اورپھر تقریباً گوجرانوالہ تک صادق حسین خاموش بیٹھے کسی سوچ میں گم تھے جیسے انسان ذہن میں تانے بانے بن رہا ہوں۔ میں خاموشی سے کار چلاتا رہا۔ صادق صاحب کے ساتھ طویل محفلیں اورلمبی سیریں خاموشی کے ساتھ گزر جاتی تھیں لیکن یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ ہم نے گفتگو بہت کم کی ہے کیونکہ خاموشی کی بھی ایک زبان ہوتی ہے اور زبان کو حرکت دیئے بغیربھی بات چیت ہوسکتی ہے بشرطیکہ ساتھ ہمدم دیرینہ ہو اورجسموں سے نکلنے والی شعاعیں (Rays) ہم آہنگ ہوں ایک دوسرے سے ٹکرانے والی نہ ہوں۔ ابھی ہم گوجرانوالہ میں داخل نہیں ہوئے تھے کہ خاموشی کے سحر کو توڑتے ہوئے صادق صاحب اچانک بولے ”صاحب جی… ہو گیا“ وہ مجھے پیارسے صاحب جی کہا کرتے تھے، میں چونکا اور پوچھا ”صادق صاحب کیا ہوا؟“ جواب ملا ”افسانہ ہوگیا۔“ دراصل صادق حسین پیدائشی افسانہ نگار تھے۔ افسانے ان کے اندر سے نکلتے تھے اور وہ افسانے گھڑتے نہیں تھے۔ یادش بخیر… ایک روزمیں، صادق صاحب ، ڈاکٹر جمیل جالبی اور الطاف حسن قریشی جناب مشکور حسین یاد کے گھر بیٹھے تھے۔ ظاہر ہے کہ الطاف حسن قریشی بلند پایہ نثرنگار اور صحافی ہیں لیکن شاعر نہیں۔ الطاف صاحب نے اپنی تازہ تازہ غزل سنا کر داد چاہی تو ڈاکٹرجمیل جالبی نے مسکرا کرکہا ”آپ نے اچھے شعر گھڑے ہیں“ قہقہہ پڑا اورشاعری ہوا میں اُڑ گئی۔ مطلب یہ کہ ”گھڑنا“ کا لفظ میں نے جالبی صاحب سے مستعارلیاہے، ان کے بلند اوراعلیٰ معیار کے سامنے کسی کسی کاچراغ جلتا تھا اور ادب کی اکثر شمعیں روشن ہوجاتی تھیں۔ جس فنکار کے بارے میں ڈاکٹر جمیل جالبی لکھیں کہ ”ان کے ہاں کردارنگاری بھی ہے حقیقت پسندی بھی… زندگی کا تنوع بھی، معاشرتی رنگارنگی اور وہ گہرائی بھی جس سے فن وجود میں آتا ہے مشاہدہ کی صداقت، لفظوں کا چناؤ، جملوں کی سادگی، تاثیرمیں جادو اثر… مجھے صادق حسین کی کہانیاں پسند ہیں اور میں انہیں اردو افسانے کا ایک بڑا نام سمجھتا ہوں۔“ اس نام کوسند کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے …”حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے ، بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں“ بلاشبہ صادق حسین بہت بڑے افسانہ نگار تھے ان کا مشاہدہ نہایت عمیق اورتیز تھا۔ بظاہر سمندر کی طرح خاموش اورپرسکون لیکن اندر ایک تلاطم برپا رہتا تھا۔ وزیر آباد کی بیکری میں کیک بنانے کے عمل کا مشاہدہ کرتے رہے۔ ایک گھنٹے کے بعد کہا ”ہو گیا ہے“ اورپھر افسانہ لکھ کر مجھے سنایا۔ وہ کچی پنسل سے لکھتے پھر نظرثانی کرتے ہوئے ربڑ سے الفاظ مٹا کر پنسل سے لکھتے رہتے۔ ایک ہی افسانے کو کئی بار لکھتے۔ مناسب الفاظ کی تلاش میں سرگرداں رہتے اورجب تک پوری تسلی نہ ہو جاتی ڈرافٹ افسانے کو قلم سے لکھ کر اشاعت کے لئے نہ بھجواتے۔ وہ مجھے بتایا کرتے تھے کہ میں افسانہ لکھ کرایک طرف رکھ دیتا ہوں، پھراسے کئی دنوں تک نہیں دیکھتا اور پھراپنی تحریر کے جذباتی لگاؤ سے نکلنے کے بعد اسے پڑھتا ہوں ، ردوبدل کرتا اور خوب سے خوب تر بنانے میں مصروف ہوجاتا ہوں ۔ اسی لئے مولانا صلاح الدین احمد (ادبی دنیا) جیسے نامور ادیب کو بھی کہنا پڑا ”صادق حسین ایک چھوٹے سے جملے میں بعض دفعہ ایک شہر معنی آباد کردیتے ہیں اور ان کا ناظر ان کے اس حسن ابلاغ سے یک بیک چونک پڑتا ہے۔“
میری اطلاع کے مطابق ان کے افسانوں کے تین مجموعے ان کی زندگی میں شائع ہوئے جن کے نام ”پھولوں کے محل“ ، ”شہر اندرشہر“ اور ”گلاب کے آنسو“ تھے۔ اب صادق حسین صاحب کے بیٹے طارق حسین نے ان کے افسانوں کی کلیات یا مجموعہ ”افسانے“ کے نام سے چھاپا ہے جسے بک ہوم لاہور نے چھاپا ہے۔ طویل عرصے تک ان کے افسانے ”نقوش“، ”نیا دور“ جیسے ممتاز پرچوں میں چھپتے رہے۔ ان کے افسانوں کی ڈرامائی تشکیل پاکستان ٹیلی ویژن پر دکھائی جاتی رہی اور ان کے ادبی کالم اردو ڈائجسٹ میں چھپتے رہے لیکن انہوں نے کبھی شہرت کی آرزو کی نہ شہرت کا پیچھا کیا۔ پھرانہیں شہرت کیونکر ملتی؟ وہ درویش منش انسان تھے اور خاموشی کے ساتھ زندگی سے گزر جانا چاہتے تھے۔ اللہ سبحانہ  تعالیٰ نے انہیں شہرت سمیت کئی ”ہوسوں“ سے پاک رکھا تھا ۔ میں سرکار کو اپنی جوانی، صلاحیتیں، زندگی کا بہترین وقت اور جذبہ و ایثار دے کر 30دسمبر 2004 کو ریٹائر ہو گیا۔ 28 دسمبر تک صادق حسین صاحب سے خوب ملاقاتیں رہیں۔ میں اکثر انہیں سہارا دے کر رات کے کھانے پراپنے کمرے میں لے آتا جہاں ہم دیر تک غم جاناں ، غم روزگار اور غم جہاں کا حساب کیاکرتے اور پھرمیں انہیں ان کے گھر چھوڑ آتا۔ 30دسمبر 2004 کومیں لاہور آ گیا اور 26جون 2005 کو ان کی وفات کی خبر پہنچی۔ میں ان کی قبرپر کھڑا ایصال ثواب کر رہا تھا کہ تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے انہوں نے دھیرے سے میرے کانوں میں سرگوشی کی ہو ”صاحب جی روتے کیوں ہوقیامت کے دن ملیں گے“
جاتے ہوئے کہتے ہو، قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور