افغان امن اور پاکستان

July 14, 2019

’’چین، روس اور امریکہ افغانستان میں امن کے لیے جاری صلاح مشورے میں پاکستان کی شمولیت کا خیر مقدم کرتے اور یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان اس کے لیے سہولت کاری میں اہم کردار انجام دے سکتا ہے‘‘۔ امریکی دفتر خارجہ کے گزشتہ روز واشنگٹن سے جاری کئے گئے بیان میں افغان امن عمل میں پاکستان کی اہمیت کا یہ خوش آئند اعتراف ظاہر کرتا ہے کہ حقائق آخرکار اپنے آپ کو منوا کر رہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے قطعی منفی سوچ رکھتے تھے اور اس کے تحت ان کی جانب سے پاکستان کے خلاف کئی اقدامات بھی عمل میں لائے گئے۔ افغان مسئلے کے سیاسی حل کے پاکستانی موقف کے برعکس انہوں نے ایک بار پھر فوجی حل کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اور بھارت کے ہم آواز ہوکر پاکستان کو خطے میں دہشت گردی کا سرپرست قرار دیتے رہے۔ لیکن امریکی محکمہ خارجہ کے تازہ بیان سے واضح ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے جان لیا ہے کہ پاکستان افغانستان میں قیامِ امن کے لیے جس سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتا چلا آرہا ہے وہ مستقل بنیادوں پر بدامنی اور خوں ریزی کے خاتمے کا واحد راستہ ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے اس بیان کے اجرا کے لیے وقت کا انتخاب بھی بہت معنی خیز ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکہ سے عین پیشتر جس میں صدر ٹرمپ سے ایک اہم ملاقات بھی شامل ہے، اس بیان کا جاری کیا جانا ظاہر کرتا ہے کہ امریکی انتظامیہ وزیراعظم پاکستان کی آمد کے موقع پر دونوں ملکوں کے تعلقات کے ضمن میں ماحول کو خوشگوار بنانے کی خواہشمند ہے۔ افغان امن کے لیے روس، چین اور امریکہ کے متفق ہو جانے اور اس کے لیے جاری عمل میں پاکستان کی شمولیت ضروری قرار دینے سے پاکستان کے لیے اپنے جائز مفادات کے حصول کے در بھی کھلے ہیں اور دانشمندانہ حکمت عملی اختیار کرکے ان مواقع سے پورا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں تعمیر و ترقی کے عمل کو کسی روک ٹوک کے بغیر جاری رکھنے کے لیے بھارت کے پاکستان دشمن رویے کا خاتمہ سب سے زیادہ ضروری ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کا اہم ترین سبب کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ تسلط ہے حالانکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رو سے وہ آزادانہ رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق دینے کا پابند ہے۔ ایسا ہو جائے تو پورے خطے کی ترقی اور خوشحالی کی راہیں کشادہ ہو جائیں گی۔ بظاہر پاکستان کے ساتھ امریکی رویے میں مثبت تبدیلی ہی کا نتیجہ ہے کہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت بھارت نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کر دیا ہے۔ لیکن محض مذاکرات سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس کے لیے مسائل کا منصفانہ حل تلاش کرنے کی حقیقی نیت لازمی ہے، تاہم اب تک ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے کہ نریندر مودی دوبارہ اقتدار پانے کے بعد پاکستان کے ساتھ کشمیر اور دوسرے معاملات میں کوئی مثبت رویہ اختیار کریں گے۔ اپنے پچھلے دور میں وہ بھارتی آئین میں تبدیلی کرکے کشمیر کو بھارت کا حصہ بنانے کے ارادے ظاہر کرتے رہے اور اب ان کی پارٹی کے سیکریٹری جنرل رام مادیو نے مقبوضہ کشمیر کے انتخابات کے بعد 97فیصد مسلم آبادی والی اس سرزمین میں آبادی کا تناسب بدلنے کے لیے فلسطین کی یہودی بستیوں کی طرح ہندو بستیاں بسانے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ بھارتی حکومت کی یہ شر پسندانہ پالیسیاں جاری رہیں تو کسی بھی سطح پر ہونے والے مذاکرات سے باہمی تعلقات میں بہتری ممکن نہیں ہو گی لہٰذا مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے ضروری ہے کہ امریکی حکومت بھارت کو راہ راست پر لائے اور پاکستان کے ساتھ مستقل بنیادوں پر معمول کے تعلقات کی بحالی کے لیے تمام ضروری اقدامات پر تیار کرے۔ علاوہ ازیں پاکستانی معیشت کو دور رس بنیادوں پر بہتر بنانے میں بھی امریکہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ دہشت گردی کے حوالے سے جو الزامات لگائے جاتے رہے ہیں ان کا اعادہ بھی مکمل طور پر بند ہونا نیز ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے پاکستان کا باہر نکالا جانا بہرصورت ضروری ہے۔