انقلاب فرانس کی سالگرہ۔ اور کراچی کس کا؟

July 14, 2019

ملک پر قرضے چڑھے ہوئے تھے۔ ٹیکس بے تحاشا لگائے جارہے تھے۔ملک بحرانوں کی زد میں تھا ایک بحران کی کوکھ سے دوسرا جنم لے رہا تھا۔ جاگیرداروں کا غلبہ بڑھ رہا تھا۔ ریاست بھی جبر میں اضافہ کررہی تھی۔مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ تھا۔ اشرافیہ ریاست کی سہولتوں پر سانپ بن کر بیٹھ رہی تھی۔ غریبوں کے لئے خدا کی زمین تنگ ہورہی تھی۔ حاکم وقت اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈال رہا تھا۔ وی آئی پی قیدیوں کے لئے ایک جیل مخصوص کردی گئی ۔ خلق خدا اس جیل پر چڑھ دوڑی۔ پورے ملک میں احتجاج کی آندھی چلنے لگی۔

یہ تھا انقلاب فرانس کا آغاز۔ 14جولائی 1790۔ آج فرانس میں فوجی پریڈ ہورہی ہوگی۔ ریلیاں ۔ آج کے دن تخت گرائے گئے ۔ تاج اچھالے گئے۔ فرانس کے بے کسوں بے بسوں۔ ناداروں۔ پامالوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ سیکولر جمہوری۔ روشن خیال معاشرے کی بنیادیں رکھی گئیں۔ 229سال پہلے فرانس کے مفلسوں اور مقہوروں نے جو راستہ اپنایا وہی باعث تقلید ٹھہرا۔ جابرو قاہر سلاطین کا زمانہ لد گیا۔ مہذب دنیا میں اشرافیہ غالب ہے نہ پادری۔ جاگیرداریاں دم توڑ گئیں۔

دنیا کے مختلف حصّوں میں اٹھنے والی تحریکوں نے انقلاب فرانس کو ہی اپنا راستہ سمجھا۔ اس انقلاب سے معاشروں کی ہیئت بدل گئی۔ اکثریت کے لئے زندگی آسان ہوتی چلی گئی۔ فرد کا وقار اور حیثیت بحال ہوئی۔ جمہوری تحریکوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ جو آج تک جاری ہے۔آزادیٔ اظہار۔ آزادیٔ اجتماع۔ تحریر و تقریر کی حرمت۔ اپنی قوم اور سر زمین سے عشق اور جاں نثاری۔ 14جولائی 1790سے ہی آغاز پائی۔ میڈیا سے جبر اور سنسر اٹھالیا گیا۔انسان کو ملتا وہی ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ قرآن کی آیت مقدسہ ہے اور یہ بھی قرآن پاک ہی کا کہنا ہے:

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

اسلام آباد ۔ کراچی اور لاہور میں اشرافیہ 14جولائی کا انتظار اس لئے کرتی ہے کہ فرانس کے سفارت خانے محفل نائو نوش برپا کرتے ہیں۔ ان کے ذہن میں کوئی تبدیلی کوئی آزادی نہیں ہوتی۔ پہلے کسی زمانے میں یہ بحث چھڑتی تھی کہ ہم 14جولائی سے کتنی دور ہیں۔ انقلاب فرانس کے کس مرحلے پر ہیں۔ اب تو اس رسمی بحث سے بھی ہم فارغ ہوگئے ہیں۔پاکستان میں انقلاب کیوں نہیں آتا۔ جاگیرداریاں سرداریاں ختم کیوں نہیں ہوتیں۔ مذہبی انتہا پسندی کا غلبہ کم ہونے کی بجائے کیوں بڑھ رہا ہے۔خلق خدا احتجاج کیوں نہیں کرتی۔ علم و دانش کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے ہیں۔ لشکر آزاد ہیں۔ہم واقعات کا ماتم کرتے ہیں۔ ان کے اسباب پر غور نہیں کرتے۔ ہم نتائج پر فغاں برپا کرتے ہیں۔ ان کے لئے کی گئی کوششوں کا ادراک نہیں کرتے۔ سانحوں پر زار و قطار روتے ہیں۔ لیکن سانحوں کی وجوہ میں کون کون شامل تھا۔ اس کی تحقیق نہیں کرتے۔ ہم یہ جاننے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ ہماری آئندہ نسلوں پر جو ہزاروں ارب کے قرضے واجب الادا ہیں۔ وہ قرضے کن منصوبوں کے لئے لئے گئے۔ کس کے دَور میں اور وہ منصوبے مکمل ہوئے یا نہیں۔ تاریخ کے اوراق کہتے ہیں ۔ نتیجہ اس کا ہی نکلتا ہے جس کے لئے کوشش کی جاتی ہے ۔ آج ہمارے سامنے جو عفریت دندنارہے ہیں یہ ہماری غلط کاریوں سے ہی پیدا ہوئے۔ ہماری غفلتوں سے ہی طاقت ور ہوئے۔پاکستان میں انقلاب اس لئے نہیں آسکتا کہ خلق خدا کو لسانی۔ نسلی۔ علاقائی۔ صوبائی تعصّبات نے تقسیم کیا ہوا ہے۔ نوجوان بہت بیدار ہیں۔ سیاسی۔ سماجی۔ عمرانی اور تکنیکی شعور رکھتے ہیں۔ مگر وہ اپنے اپنے علاقوں میں محصور ہیں۔ نوجوانوں کو مرکزی دھارے میں لانے والی ملک گیر قومی سیاسی پارٹیاں نہیں ہیں۔ میڈیا جو ملک گیر ہے۔ واہگہ سے گوادر تک ایک جیسی نشریات ہوتی ہیں۔ وہاں صرف اسلام آباد کا غلبہ ہے۔ لگتا ہے عقل اور مہارت صرف اسلام آباد کی حدود میں ہی رہتی ہیں۔ یا کبھی کبھی صوبائی دارُالحکومتوں لاہور کراچی میں بھی سانس لینے لگتی ہیں باقی شہروں میں صرف کندذہن رہتے ہیں۔ اپنے اپنے شعبوں میں پی ایچ ڈی تجربہ کار ۔ جہاندیدہ پروفیسرز۔ علمائے دین۔ سب کم علم ہیں۔حال ہی میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آباد نے پشاور۔ لاہور۔ کراچی میں نوجوانوں کو مدعو کیا۔ اور انہیں کھل کر اظہار کا موقع دیا۔ شناخت کا مسئلہ زیر غور آیا۔ بلوچستان کے نوجوانوں کا احساس بہت ہی خطرناک تھا کہ انہیں یہ لگتا ہے کہ ریاست اور سماج نے انہیں مسترد کردیا ہے۔ ان کے تشخص پر سب سے بڑا سوالیہ نشان اس وقت لگتا ہے جب انہیں سفر کے دوران چیک پوسٹ پر روک کر الگ کردیا جاتا ہے۔ ہم نے اور آپ نے تو زندگی قریباً گزارلی ہے۔ ہمیں ان نوجوانوں کی سوچ میں جھانکنا چاہئے ۔ میڈیا۔ عدلیہ۔ مقننہ۔ انتظامیہ اور فوج سب کو چاہئے کہ نوجوانوں کو عزت دیں۔ وقعت دیں۔ انہیں اپنے تحفظات کا کھل کر اظہار کرنے دیں۔

......................

سید جاوید اقبال کئی دہائیوں سے اعتدال کی تلاش میں ہیں۔ ان کے ادارے سوسائٹی برائے گلوبل ماڈریشن نے مدبر۔ دانشور مصنّف نثار میمن کے ایک لیکچر کا اہتمام کیا۔ سابق وفاقی وزیر اس لئے نہیں لکھ رہا کہ یہ کوئی ذریعۂ عزت نہیں ہے۔ سوال یہ تھا۔’’ کیا کراچی کسی کا ہے۔‘‘ Does Karachi belong to any one ۔ نثار میمن کراچی کو درپیش تمام مسائل اور چیلنجوں کا احاطہ کررہے تھے۔ کراچی کی عظمت رفتہ بھی یاد دلارہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا:

یہ شہر اب بھی اسی بے وفا کا لگتا ہے

اس شہر نے ہر زبان بولنے والے ہر رنگ ہر نسل کے انسانوں کو اپنی آغوش میں لیا ہے۔ لیکن کسی نے اسے اپنا نہیں سمجھا ۔ متحدہ قومی موومنٹ کی شکست و ریخت کے بعد اب کراچی اپنے وارثوں کی تلاش میں ہے۔ اس کراچی نے جس طرح اپنا گھر بار پاکستان کی خاطر چھوڑ کر آنے والوں کو سینے سے لگایا ۔ رئیس امروہوی نے کہا:

ہند کے پانچ سو شہروں کا بدل ہے یہ شہر

سامعین میں انتہائی اہم شخصیتیں۔ سابق فوجی۔ سابق بیورو کریٹ۔ ماہرینِ تعلیم۔ سوال جواب بھی ہوئے اور اس رویے کا ماتم بھی کہ شہر سے نا انصافیاں ہوتی ہیں۔ شہری احتجاج کے لئے نہیں نکلتے۔ قتل و غارت گری بند ہوچکی ہے۔ لیکن نظم و نسق درست نہیں ہے۔ صوبائی حکومت مقامی حکومت کو اختیار نہیں دے رہی ہے۔ اندرون سندھ سے آنے والے اس شہر کے وسائل تو ضرور استعمال کرتے ہیں لیکن اس شہر کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی نہیں لیتے۔ اس شہر کو اس طرح اپنا نہیں سمجھتے۔ جیسے اپنے ڈومیسائل والے کو۔ یہ شہر کئی ملکوں سے زیادہ آبادی رکھتا ہے۔ لیکن اسے لیاری ندی نے بانٹ رکھا ہے۔ ایک طرف بہرہ ور طبقہ ہے۔ ندی کے دوسری طرف اکثریت اور محروم۔ کہیں انتظام صوبائی حکومت کے پاس ہے۔ کہیں کے ایم سی۔ چھ کنٹونمنٹوں کے اپنے علاقے ہیں۔ سامعین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کراچی ہمارا ہے۔ ہم اس کے۔ ہمیں اس کے گِلے شکوے دور کرنے چاہئیں۔ اور شہر کو مافیائوں کے چنگل سے نکالنا چاہئے۔