ہیں گرفتارِ وفا زنداں سے گھبراوئیں گے کیا

July 26, 2019

تین دہائیوں سے مقتدر حلقوں، پاکبازوں اور ناصحین کا فرض اولین آصف زرداری کے لباس پر سیاہی لکھنا ہی رہا۔ بہتان، دشنام، تعصب، نفرت و انتقام کا ہر حربہ سہنے اور اپنے نظریاتی مخالف سے ’’مردِ حُر‘‘ کی سند حاصل کر لینے کے باوجود مخالفین کے کلیجے ٹھنڈے نہیں ہو رہے اور آج بھی آصف زرداری کو مطعون کرنا ان کا مقصد حیات ہے۔ خیر سے مردحُر بھی یہی داغ سجا کر صدر، وزیراعظم ہائوس سے زندان تک جانے کی رسم بڑی سج دھج سے ادا کر رہے ہیں۔

زرداری قبیلے کا سردار آسودگی کی زندگی گزار رہا تھا مگر بینظیر بھٹو سے ناتا جوڑنا آصف علی زرداری کا سب سے بڑا جرم ٹھہرا، وہ دن اور آج کا دن آصف زرداری ’’بھٹو دشمن قوتوں‘‘ کے غیظ و غضب کا سب سے بڑا ہدف ہے۔ طاقتور سمجھتے تھے کہ بھٹو کی نہتی بیٹی ہمیں کیا شکست دے سکتی ہے لہٰذا اسے فی الوقت جان کی امان دی جائے اور اس کی اور اس کے اقربا کی کردار کشی کر کے بھٹو ازم کو ختم کر دیا جائے لہٰذا سب سے پہلے بھٹو کی بیٹی کو اس کے باپ کے حوالوں سے گناہگار گردانا گیا۔ بھٹو کو کبھی غدار، کبھی کافر، کبھی قاتل کہا گیا مگر تاریخ نے بھٹو کو دنیا کے عظیم ترین انسانوں کے قبیل میں شامل کرکے امر کر دیا تو بھٹو کی بیٹی اس قابلِ فخر میراث کی وارث قرار پائی۔

دوسرا ہدف بینظیر بھٹو کے بھائی شاہ نواز و میر مرتضیٰ بھٹو کبھی دہشت گرد کبھی ملک دشمن قرار پائے اُن کی شہادتوں نے ان کی بے گناہی ثابت کی تو پھر واحد ہدف بے نظیر بھٹو کا شوہر ٹھہرا، اہلِ ہوس نے مدعی و منصف بن کر آصف زرداری کو کبھی کرپٹ کہا، کبھی قاتل۔ پھر چند سال گزرتے ہیں تو وہی الزام لگانے والا صدر غلام اسحاق خان مردِ حر کو جیل سے نکال کر وفاقی وزیر کا حلف لے کر یہ اعلان کرتا ہے کہ زرداری بے گناہ تھا اور میرے الزامات جھوٹے۔ مگر ایک بار پھر وزیراعظم ہائوس سے آصف زرداری طویل قید و بند کے سپرد کر دیئے جاتے ہیں۔ نام نہاد جمہوری حکمرانوں اور آمریت کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ جرات و بہادری اور غیرت سے کرتے ہیں۔ مقدمات کا مقابلہ آئین و قانون کے سامنے سر تسلیمِ خم کرنا آصف علی زرداری کی روایت رہی ہے، یہ ضمیر کا قیدی ایوان میں ہو یا پسِ زنداں، جرات کا استعارہ ہی رہا۔ سازشی مکافاتِ عمل کا شکار ہوئے تو آصف زرداری نے ان کا استقبال پھولوں کے گلدستوں سے کیا، مقدمات بنانے والے تائب ہوئے اور فرمایا کہ سازش کرنے والے کوئی اور تھے اور ہمیں مہرہ بنایا گیا۔ آصف زرداری تقریباً 12سال بے گناہ قید کاٹ کر پاکستان کی عدالتوں سے باعزت بری ہوئے تو تاریخ میں سرخرو ٹھہرے اور مخالفین کے منہ ہمیشہ کے لئے کالے ہوئے۔

اُدھر چوراہوں میں لٹکانے کے دعویدار ناکام و شرمندہ اور معافی کے طلبگار، ادھر مردِ حُر ہمیشہ سے ہی مفاہمت کے بادشاہ۔ یوں اپنے غم اور تلخیاں بھول کر عوام کے غم بانٹنے کے لئے آگے بڑھنے کی راہ ہموار کی۔ اُمید تھی کہ آسانیاں آئیں گی مگر جس رشتہ کو نبھاتے ہوئے آصف زرداری نے ہر آزمائش کا مقابلہ کیا اسی شریک حیات اور قائد بے نظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا۔ اس نازک وقت میں ایک بھی جذباتی لفظ آگ بھڑکا دیتا، مرد حر نے آنسو چھپائے اور اپنی مسکراہٹ کے ساتھ ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگایااور بی بی کے فرزند کے ہمراہ بی بی کے مشن کی تکمیل کا عزم کیا۔ جمہوری سفر نئے سرے سے شروع ہوا۔ آئین سے آمرانہ اقدامات اور شقوں کا خاتمہ ہوا۔ اختیارات مطلق العنان حاکم سے پارلیمان کو منتقل ہوئے، صوبوں کو شناخت اور خودمختاری ملی۔ تاریخ میں پہلے دفعہ اقتدار ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو منتقل ہوا۔ اب ان جرائم پر صدر زرداری کو کیسے معاف کیا جا سکتا ہے؟ نئے لاڈلے نے وزیراعظم بنتے ہی انتقامی کارروائیاں آگے بڑھائیں۔ پہلے بینظیر بھٹو کو بلیک میل کرنے کے لئے زرداری صاحب کو گرفتار کیا جاتا تھا، اب چیئرمین بلاول کو جدوجہد سے روکنے کے لئے گرفتار کیا گیا مگر آصف علی زرداری کے وہی اندازِ جنون عشق، فرماتے ہیں ’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ یعنی منصور کے الفاظ میں ’’یکتا کی دوستی بھی یکتا کر دیتی ہے‘‘۔

32سال کا تعصب پر مبنی پروپیگنڈا آصف زرداری کی شخصیت کو بہت سوں کے سامنے شاید مسخ کر چکا ہو کیونکہ ایک نسل ان الزمات کو سن سن کر پروان چڑھی ہے لیکن دو معتبرحوالے کچھ یوں ہیں۔ دانشور صحافی سعید اظہر اپنے کالم میں نامور پروفیسر شان بریٹن کے الفاظ یوں بیان کرتے ہیں ’’آج سے ایک سو سال بعد جب میں تم اور یہ پوری نسل مر چکی ہو گی اس وقت برطانیہ کی اعلیٰ یونیورسٹیاں اس شخص کی پولیٹکل ٹیکٹس بڑھا رہی ہوں گی کہ کس طرح بینظیر بھٹو کے ساتھ شادی سے لے کر ان کے قتل تک متنازع ہونے کے باوجود یہ شخص کامیابی کے ساتھ نہ صرف ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ بنا، اپنی پارٹی کی حکومت قائم کی اور ملک کا صدر بنا اور مفاہمت سے حکومت کی‘‘۔ پاکستان کے معتبر سیاسی مورخ تجزیہ نگار سہیل وڑائچ 2027کا نقشہ اپنے وجدان سے کچھ یوں کھینچتے ہیں: کالے چولے پہنے اور سرخ پٹکے لئے ایک ٹولی شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دینے آرہی ہے، ٹولی کے بیچوں بیچ لمبی سے داڑھی والے آصف زرداری جو دنیا کو تیاگ کر کئی سالوں سے ملنگ بن چکے ہیں، سندھڑی میں ہی رہتے ہیں اور وہیں جھونپڑی میں سوتے ہیں، بلوچ قبیلے سے تعلق کی وجہ سے قبائلی رواج کے طور پر ایک اونٹی کے دودھ پر ہی گزارا کرتے ہیں۔ اپنی ساری دولت و جاگیروں سے بے نیاز زندگی کے آخری دن ملنگی میں گزارنا چاہتے ہیں 2023کے الیکشن میں بلاول بھاری اکثریت سے وزیراعظم منتخب ہوئے لیکن بابا زرداری نہ تو اسلام آباد گئے اور نہ کراچی، بس سندھڑی سے ہی دعا کر دی‘‘۔

آصف علی زرداری واقعی ایک عجیب شخصیت ہے؛ بہتان، الزام، نفرت، تعصب اور انتقام کا جواب وہ بصیرت، تدبر، محبت، برداشت، صلح جوئی اور روایتی مسکراہٹ سے ہی دیتے ہیں پھر سے وہی الزامات، عدالتیں، کٹہرے اور زندان اور وہی ضمیر کا قیدی آصف علی زرداری اور غالبؔ کی للکار

دیکھیو غالبؔ سے گرنہ الجھے کوئی

ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا